آزاد انسان

November 29, 2021

کہتے ہیں کہ آج کا انسان آزاد ہے ۔ وہ زمانہ کب کا گزر چکا، جب منڈیوں میں غلاموں کی خرید و فروخت ہو ا کرتی۔ اب عالمی طاقتیں تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کو اپنی کالونی نہیں بناتیں ۔ اقوامِ متحدہ اپنا وجود رکھتی ہے کہ عالمی تنازعات سلجھا سکے ۔ کہتے ہیں ، آدمی اب مہذب ہو چکا ۔

حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ آج انسان کے بدن پہ بظاہر لوہے کا کوئی قفل موجودنہیں ۔ گو منڈیوں میں اس کی باقاعدہ خرید و فروخت نہیں ہوتی لیکن اب وہ نادیدہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ انسان نے مہذب نظر آنا اور خود کو مہذب ثابت کرنا سیکھ لیا ہے ۔ آج بھی کشمیر میں پیلٹ گن سے لوگ اندھے کر دیے جاتے ہیں ۔ دنیا کے کسی ملک میں عدم استحکام پیدا ہو توطاقتور ممالک اس کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں ، جو معمر قذافی اور صدام حسین کے ساتھ کیا گیا ۔ اس کے بعد خواہ وہ ملک عشروں خانہ جنگی کا شکار رہے،ذمہ دار طاقتور ممالک کو ذرہ برابر شرم محسوس نہیں ہوئی ۔ آج ہم ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ، جہاں اسرائیل جیسے ملک کو مذہبی بنیادوں پر ایٹمی صلاحیت بنا دیا جاتا ہے ۔آج فلسطینیوں پہ ظلم ہی نہیں ہوتا، بعد میں انہیں ظالم اور اسرائیلیوں کو مظلوم بھی ثابت کیاجاتا ہے ۔ آج بھی روس اور مغربی طاقتیں پوری آزادی سے یوکرین جیسے ملک کو سرد جنگ کا اکھاڑہ بنا سکتی ہیں ۔

آج ہم ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ، جہاں ایک عام آدمی پروڈکٹس خریدنے والی مشین بن چکا۔ فیس بک جیسی کمپنیز اس کا ڈیٹا ایک پروڈکٹ کی طرح مصنوعات بنانے والی کمپنیز کو بیچتی ہیں ۔ آج دنیا میں بھارت کی بات پاکستان سے کہیں زیادہ کیوں سنی جاتی ہے ۔ اس لیے کہ وہ سوا ارب انسانوں کی منڈی ہے اور ہم صرف بائیس کروڑ ۔ کرکٹ کے میدان سے اسی بنیاد پر اس نے پاکستان کو بے دخل کر رکھا تھا۔ آج کے انسان کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھما دیا گیا ہے۔ ذرا وہ کوئی پروڈکٹ کھول کر دیکھے، اشتہارات کی بارش اس پہ نازل ہو جاتی ہے ۔ سارا دن اور ساری رات وہ ایک زومبی کی طرح سمارٹ فون پہ انگلی پھیرتا رہتا ہے ۔آج مریض اور تیمار دار اپنے اپنے سمارٹ فون پہ مگن رہتے ہیں۔ مسلسل ہر معاملے پر آدمی پروپیگنڈہ سننے پر مجبور ہے ۔

ایک وقت تھا کہ انسان اپنی مرضی سے رات کے ایک پہر میں سوجایا کرتا ۔ آج وہ اس وقت سوتا ہے ، جب تھکن کا مارا دماغ مزید جاگنے سے انکار کر دے۔ایک وقت تھا‘ جب آدمی بہت سوچ سمجھ کر اپنے دوستوں اور دشمنوں کا انتخاب کیا کرتا ۔ آج سوشل میڈیا پہ وہ لوگ اس کے دوست اور دشمن بن چکے ‘ جن سے وہ کبھی ملا ہی نہیں ۔ وہ لوگ ہمیں سالگرہ کی مبارکباد دیا کرتے ہیں‘جن کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کا کوئی حقیقی وجود ہے بھی یا نہیں ۔ حقیقی رشتے دار دور ہو چکے ۔

آج انسان کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔ اس نے کب کسی سے کیا بات کی اور کون سی فحش ویب سائٹ کھولی۔ موبائل فون اور لیپ ٹاپ قیمتی وقت ضائع کرنے والے آلات بن چکے ۔ کبھی آدمی خوب سوچ بچارکیا کرتا ۔ آج وہ ذرا یکسوئی سے کام نہیں کر سکتا۔ موبائل اور لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہوئے وہ خود کو نشئی محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ احتیاط سے گاڑی چلایا کرتا ۔ آج ایک آنکھ سٹیئرنگ اور دوسری موبائل پہ گڑی ہوتی ہے۔وہ بخوبی جانتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے ضائع ہوتا چلا جا رہا ہے۔صحت اور جوانی کے قیمتی لمحات پھسلتے جا رہے ہیںمگر بے بس ہے۔

آج آپ کا بچہ آپ کے موبائل میں ایک گیم ڈائون لوڈ کرے گا، ساتھ ہی وائرس آن ٹپکے گا۔ اب ہر دس منٹ بعد اس پر مختلف کمپنیوں کے اشتہار موصول ہوں گے ۔فون ہینگ ہو جائے گا۔ اس دوران آواز کٹنے لگے گی ۔موبائل اور لیپ ٹاپ بنانے والی کمپنیوں ‘ اس کا آپریٹنگ سسٹم بنانے والوں‘ ای میل اور دوسری ایپس میں ایکا ہو چکا ۔ہم لیپ ٹاپ اور موبائل استعمال نہیں کر رہے بلکہ وہ سب مل کر ہمیں استعمال کررہے ہیں ۔

بچے نشئی بن چکے ۔ وہ سار ادن پاگلوں کی طرح موبائل میں گیمز ڈائون لوڈ کرتے رہتے اور کارٹون دیکھتے رہتے ہیں ۔ وہ پڑھتے ہیں اور نہ سوچتے ہیں۔زندہ لاشیں دکھائی دیتے ہیں۔ 24گھنٹوں کے دوران ہماری آنکھوں نے کیا دیکھنا ہے اور دماغ نے کیا سوچنا ہے اور ہمارے معدوں میں کیا جا نا ہے ، اس کا فیصلہ اب ہم نہیں کرتے بلکہ مختلف ایپس کرتی ہیں۔ ہم کھاتے جا رہے ہیں، پھیلتے جا رہے ہیں ۔ کبھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہم جانور ہیں ، جنہیں کھونٹے سے باندھ کر ان کا وزن بڑھایا جا رہا ہے ۔

آج کا انسان حد سے زیادہ ریاکار بن چکا۔ ہر چیز چونکہ ریکارڈ ہو تی ہے ؛لہٰذا عمرے سے لے کر قربانی تک ، وہ اپنی ایک ایک نیکی کے ایک ایک لمحے کی تصویر بنا کر نیٹ پر لگا تا رہتا ہے؛حتیٰ کہ ماں باپ سے حسنِ سلوک کی بھی۔اگر وہ کسی کی مدد کرے تو نوٹ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس کے شرمسار چہرے کی تصویر بھی بنا لیتا ہے۔ سچ پوچھیں تو وہ ہمیشہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے‘ لوگ کیا سوچیں گے۔ مقابلے کی ایک فضا بن چکی ہے۔ہر شخص اپنی نیکیاں پیش کر رہا ہے ۔

ہماری مصروفیات کا تعین دوسرے لوگ کرتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں کا مذاق اڑانے میں مصروف رہتے ہیں ، جن سے کبھی ملے تک نہیں ۔ہر انسان دوسرے کی ریکارڈنگ کر رہا ہے کہ اسے شرمندہ کیا جا سکے۔ ہر جگہ لڑائی مارکٹائی کا ماحول بنا ہوا ہے ۔ سب نشئی ہیں اور سب کی ناکوں میں نکیل ڈالی جا چکی۔یہ ہے آج کا آزاد انسان!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)