خواجہ غلام حیدر شاہ نقشبندیؒ

January 14, 2022

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اسلام اللہ کی طرف سے بندوں کے حق میں کامل ترین اور جامع ترین پیام رحمت و ہدایت ہے، انسان کی ذہنی و عقلی ، جسمانی و روحانی ، اخلاقی و معاشرتی، معاشی، سیاسی اور انفرادی و اجتماعی تمام ضرورتوں کو کفیل ہے اور ہر زمانے میں تمام شعبہ ہائے حیات میں ترقیوں کا ضامن ہے ،خدارسی و خدا شناسی کی تعلیم اس کا اصل مقصد تھا اور اس پر اس نے خاص طور پر زور دیا اور اس کے ذرائع و مسائل اس نے اس جامعیت کے ساتھ بیان کیے کہ ان میں کسی قسم کے تغییر و ترمیم ، تخفیف و اضافے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔

باوصف اس کے مسلمانوں میں ابتداءہی سے اک گروہ ایسا موجود رہا ہے، جس نے مقاصد دنیوی سے قطع نظر کر کے اپنا نصب العین یا دخدا اور ذکرِ الٰہی کو رکھا اور صدق و صفاء، سلوک و احسان کے مختلف طریقوں پر عامل رہا ،شروع شروع میں یہ گروہ، اہلُ الصفا، اہلُ التقویٰ وغیرہ جیسے ناموں سے پکارا جاتا رہا ،ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد رفتہ رفتہ اس مسلک کا نام مسلک تصوف پڑ گیا اور یہ گروہ ’’گروہ صوفیہ‘‘ کہلانے لگا۔ یہاں کہنا صرف یہ ہے کہ اس گروہ کے اکابرین پہلے مسلمان تھے ،پھر صوفی۔

وہ تصوف کو اسلام کے مقابل ایک جداگانہ مسلک کی حیثیت سے نہیں لاتے تھے ،بلکہ اسلام کے ماتحت اسی کی پاکیزہ ترین صورت کو وہ تصوف کہتے تھے ،وہ اپنے اسلام کو اپنے تصوف پر مقدم رکھتے تھے اور تصوف کو محض اس لئے عزیز و محبوب رکھتے تھے کہ وہ ان کی نظر میں اسلام کی خالص ترین تعبیر اور پاکیزہ و حسین ترین صورت تھی ۔ ان حضرات صوفیہ کے نزدیک تصوف کا مفہوم محض اس قدر تھا کہ اتباع قرآن و سنت میں انتہائی سعی کی جائے، اُسوۂ رسول ﷺ اور عملِ صحابۂ کرامؓ کو دلیل راہ رکھا جائے، احکام خداوندی (اوامرونواہی) کی تعمیل کی جائے، اطاعت و عبادت کو مقصد حیات سمجھا جائے، اپنے دلوں کو اللہ سے محبت و تعلق کے علاوہ ہر تعلق و محبت سے الگ کیا جائے ،نفس کو خوفِ الہٰی سے مغلوب کیا جائے اور صفائے معاملات و تزکیہ باطن کے لئے انسانی اختیار اور بس میں جدوجہد کا کوئی طریقہ نہ چھوڑا جائے جو بالآخر دنیا میں انسانوں کی خدمت اور ہدایت و رہنمائی اور زمین پر قیام دین اور نظامِ خداوندی کی جدوجہد کی شکل میں ایک تحریک کے طور پر ظاہر ہو اور یہی کچھ تصوف کے بنیادی مقاصد ہیں ،یعنی جہالت سے نجات و علم عرفان کا حصول ، نفس کا تزکیہ اور تہذیب، قلب کی صفائی اور روح کو جلا بخشنا حقوق اللہ میں اخلاص اور دنیا سے صرف نظر اور اللہ کی مخلوق کی خدمت ، بقول شیخ سعدی

طریقت بجز خدمتِ خلق نیست

بتسبیح و سجادہ و دلق نیست

یعنی طریقت تو صرف خدمت خلق کا نام ہے، طریقت یہ نہیں ہے کہ تسبیح ہاتھ میں ہو، جائے نماز کاندھے پر اور گدڑی اوڑھی ہوئی ہو، ان پانچ مقاصد تصوف میں سے ہر مقصد مقصدِ دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ایک مومن سے مطلوب ہیں، یہی وہ تصوف ہے جو سرور کائنات ﷺ کا تھا جو حضرت ابو بکر صدیق ؓ و علی مرتضیٰ ؓ کا تھا جو حضرت سلمانؓ و ابوذر ؓ کا تھا جس کی تعلیم جنید بغدادی ؒ اور رابعہ بصریؒ نے دی، جس کی ہدایت شیخ جیلانی ؒ و شیخ سہروردیؒ و خواجہ اجمیری ؒ و محبوب الہٰیؒ و خواجہ نقشبندیؒ و مجدد الف ثانی سر ہندیؒ کرتے رہے۔ رُشد و ہدایت کے اسی سلسلے ، گروہ صوفیا اور فریضۂ اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والے کاروانِ اصفیا کے ایک روشن چراغ حضرت خواجہ حافظ غلام حیدر شاہ صاحب المعروف میاں حضور نقشبندی گلشن آبادی ؒ کی ذات والا صفات بھی ہے۔

میاں حضورؒ بھارت کی موجودہ ریاست مدھیہ پردیش سابقہ مالوہ سنٹرل انڈیا کے ایک شہر جاؤرہ(گلشن آباد) میں1849 ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی زندگی بڑے شاہانہ انداز سے گزری۔ آپ ایک دولت مند باپ کے بیٹے تھے ،لہٰذا آپ کی تعلیم و تربیت بھی اسی انداز سے ہوئی، آپ نے جاؤرہ کے ہائی اسکول میں شہر کے نامور اور قابل ترین اساتذہ سے قدیم و جدید علوم کی تعلیم حاصل کی ۔آپ کی علمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو اردو، فارسی، عربی، ہندی، سنسکرت اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے ۔مائل ؔگلشن آبادی تخلص کرتے تھے۔

فضل ایزدی جب رہبرِ راہ سلوک ہوا اور میاں حضور ؒ نے سلسلۂ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ فضل الدین احمد نقشبندیؒ کی بیعت کی اور سلوک و تصوف کا راستہ اختیار کیا تو آپ کے شاہانہ لباس، غذا، رہن سہن، عادات و اشغال ذہن و افکار کی دنیا میں انقلاب آگیا اور ’’الفقر فخری‘‘ کا عملی نمونہ اور زندہ تقسیر بن گئے۔ آپ نے اپنی ساری دنیا فقیری میں لٹا دی۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اللہ نے دنیا بہت دی تھی، ذاتی مال و متاع کے علاوہ جب میرے والد صاحب کا وصال ہوا تو ہزاروں روپیہ نقد، زیورات ، زمینیں، مال و مویشی متعدد جائیدادیں بہت کچھ تر کے میں ملا ۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ آج میرے پاس ایک تنکا بھی نہیں اور آج میں اس دنیا میں ایک انچ زمین کا بھی مالک نہیں ہوں۔

یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

سلوک کے میدانِ خارزار میں قدم رکھتے ہی آپ نے سب سے پہلے تصوف کے جو بنیادی اصول سختی سے اپنائے ، وہ کم کھانا، کم سونا، کم بولنا اور کم ملنا تھے۔ بمشکل دو یا تین گھنٹے سوتے، آپ ہر وقت مسجد میں رہتے ،مسجد ہی آپ کا گھر بھی تھی اور عبادت گاہ بھی ، ہر وقت یاد الہٰی میں مشغول رہتے، زندگی میں شریعت کے خلاف کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔عشق رسول ﷺ آپ کا سرمایۂ حیات اور اتباع سنت آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا۔

آپ کی شریعت کی سختی سے پابندی اتباع سنت اور عشق رسول ﷺ کو دیکھ کر آپ کے ہم عصر صوفیاء اور مشائخ کہا کرتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں میاں حضور ؒ کی شکل میں اس زمانے میں اسلاف کا عملی نمونہ دکھادیا ۔آپ بہت کثرت سے درود شریف کا ورد کیا کرتے تھے۔ درود آپ کی روحانی غذا تھی۔ قرآن کریم آپ کی محبوب ترین کتاب تھی۔ قرآن سے شغف کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ آپ نے چالیس سال کی عمر میں صرف چند مہینوں میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔

آپ نے کبھی کسی کشف کرامت کا اظہار نہیں فرمایا۔ آپ کرامت کو فقیر کے راستے کی رکاوٹ قرار دیتے اور اپنے مریدین و معتقدین کو سختی سے منع کرتے کہ میرے کسی عمل کو کبھی بھی کرامت بنا کر لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا جائے ۔آپ جس بات کے لئے سب سے زیادہ بے چین و بے قرار رہتے۔ وہ مخلوق کی خدمت، خبرگیری اور ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی تھا ۔چناںچہ آپ کے پاس جو کچھ بھی مال و متاع نذرانے وغیرہ کی شکل میں آتا،وہ اسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے ۔کوئی چیز کسی صورت اپنے گھر میں نہیں جانے دیتے اور نہ ہی اس میں اپنے لئے یا اپنے گھر والوں کے لئے کوئی چیز رکھتے ،حالانکہ گھر میں اکثر فاقہ ہی رہتا تھا، عاجزی و انکساری آپ کے خُلق کا اعلیٰ ترین و صف تھا۔

اپنے آپ کو بہت کمتر سمجھتے تھے ، اکثر گفتگو میں فرماتے ’’بھائی، میں فقیر آدمی ہوں۔‘‘ ہر چھوٹے بڑے کی عزت اس کے حیثیت و مقام سے بڑھ کر کرتے۔ انسان سے بلاتفریق مذہب و ملت محبت کرتے۔ اگر کوئی شخصیت قیدِ حیاتِ ظاہری سے آزاد ہو کر نظروں سے اوجھل ہو چکی ہو تو اس کی ذات کی بلندی وپستی کا اندازہ اپنے بعد چھوڑی ہوئی اُس کی تعلیمات و نظریات کے آئینے ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ آئیے چند سطور میں آپ کی تعلیمات سے آپ کی ذات کا عرفان اور ہدایت حاصل کریں۔ فرمایا، ’’ جس کو انسان کہتے ہیں، وہ صرف شریعتِ محمدیﷺ کے سانچے میں ڈھل کر نکلتا ہے، آدمی چاہے ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے شریعت کے بغیر نجات ممکن نہیں ‘ ‘ فرمایا’’ صحیح طریقت (تصوف) وہی ہے،جو شریعت کے تابع ہو ،ہم طریقت کو اختیار ہی اس لئے کرتے ہیں کہ شریعت پر ایمان کامل ہو جائے جو طریقت سے آزاد ہو، رسول اللہ ﷺ کی طریقت نہیں کسی اور کی ہو تو ہو‘‘۔

میاں حضورؒ کا وصال 9؍جمادی الثانی 1388ھ مطابق 15؍ستمبر1967ء کو جاؤرہ (بھارت) میں ہوا۔ آپ کو اُسی مقام پر دفن کیا گیا، جہاں آپ قیام فرمارہے ، جاؤرہ میں آپ کا مزار اور خانقاہ آج بھی انسانیت کے لئے رشد و ہدایت کے فیضان کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان و بھارت میں آپ کے مریدین اور معتقدین ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔