2021 : جی سی یو کی تاریخ کا ایک منفرد سال

January 18, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

کامیابی کا دارومدار وسائل پر نہیں بلکہ بہت سوچ بچار سے کی گئی منصوبہ بندی اورپھر مسلسل محنت پرہوتا ہے۔ شخصیات، ادارے، اور اقوام اسی طرح ترقی کرتے ہیں۔ اسی اصول کو بنیاد بنا کر میں نے جی سی یو میں کئی اصلاحات کیں۔

چند بنیادی خوبیاں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے طلبا میں ہوتی ہیں اور پاکستانی طلبامیں بہت کم، وہ خوداعتمادی، کام میں پہل کرنے کی صلاحیت، اپنے خیالات کا صحیح اظہار کرنا اور کچھ اہم موضوعات کے بارے میں بنیادی معلومات کو استعمال کر کےلوگوں سے بات چیت کا فن ہے۔ ڈیل کارنیگی کا قول مجھے یاد آ رہا ہے کہ’’ ہماری کامیابی کا20 فیصد انحصار ہمارے علم اور اسی فیصد ہمارے دوسروں سے معاملات طے کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے‘‘۔ دوسروں سے معاملات طے کرنے کی صلاحیت کی آبیاری ہماری گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ سوسائٹیزبہت بہتر طریقے سے کرتی ہیں۔ میں نے نہ صرف ان سوسائٹیز کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ ان کی سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اسٹوڈنٹ سوسائٹیز کے سمٹ کا انعقاد کیا گیا۔ ان سرگرمیوں کے مثبت اثرات واضح طور پر ہمیں طلبا کی شخصیت میں نظر آتے ہیں جو پہلے سے زیادہ پر اعتماد، بہتر معلومات رکھنے والے اور دنیا کے اہم موضوعات پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

جی سی یو میں اگر ایک طالب علم دیہات سے آتا ہے تو دوسرا کسی بڑے شہر کے ایلیٹ اسکول سے۔ طلبا میں اسکول کی تربیت کے فرق کو کم کرنے کیلئےزیرو سمسٹر کورسز کا اجرا کیا گیا۔ اسکے علاوہ طلبا کو مختلف زبانیں سیکھنے اور ان پر عبور حاصل کرنے کے مواقع بھی فراہم کئےگئے۔ ہمارے سوشل سائنسز اور آرٹس کے طلبا جب ملازمت یا اعلیٰ تعلیم کے لیے درخواستیں دیں گے تو وہ دوسروں کی نسبت دوسے تین زبانیں زیادہ جانتے ہوں گے۔

پاکستانی درسگاہوں کا ایک کمزور پہلو انکا کسی خاص نظریے سے لگاؤ ہے۔ لیکن جی سی یو میں ہر موضوع پرکھل کر بحث ہوتی ہے۔ چاہے وہ مذہبی ہو یا لبرل۔ یہاں جید علماء کے لیکچرز بھی ہوتے ہیں اور آرٹ کے فن پاروں کا تجزیہ بھی۔ہمارے طلبا کو ہر طرح کے نظریے سے آگاہی اس کے ماخذ سے ہونی چاہئے تاکہ وہ عملی زندگی میں سوچ سمجھ کر نظریات کو اپنا سکیں۔ 2021 اس لیے بھی جی سی یو کی تاریخ کا ایک منفرد سال رہا کہ اس میں کئی نئے شعبہ جات قائم کئے گئے جیسے ڈاکٹر اقبال لاا سکول، میڈیا اسٹڈیز، انسٹیٹیوٹ آف ہسٹری جوکہ آرٹ ہسٹری، آرکائیوا سٹڈیز، اور ہسٹری کے شعبہ جات پر مشتمل ہے۔ ان تمام شعبہ جات کی تشکیل کے لیے ہارورڈ، کیمبرج، آکسفورڈ اور سنگاپور کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ علمی اورعملی دنیا کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر مضامین مرتب کئے گئے۔ اس کے ساتھ ریسرچ کے فروغ کے لئے جی سی یونیورسٹی پریس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جس نے تحقیقی جرائد کو چھاپنا شروع کر دیا ہے۔ یونیورسٹی میں دو ریسرچ سینٹرز بھی قائم کئےگئے، جن میں الشازلی ریسرچ سینٹر اور فارگونیس سینٹر شامل ہیں۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ادارے جو دوسری اقوام کیلئے اپنے دروازے کھولتے ہیں ہمیشہ ترقی کرتے ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بین الاقوامی طلباکو پاکستان لانے کے اقدامات کئے۔ جی سی کی 150سالہ تاریخ میں پہلی بار 13ممالک کے 64 طلباء نے ایک ہی تعلیمی سال میں داخلہ لیا۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، ہنگری، سری لنکا، آذربائیجان جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان طلبا کے آنے سے نہ صرف ہمارے تدریسی اور انتظامی شعبہ جات میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں بلکہ جی سی یو کے طلبا بھی دوسری تہذیبوں سے روشناس ہوئے۔

پاکستانی ہر ترقی یافتہ ملک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ بدقسمتی سے اپنے ملک میں ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اسکی بنیادی وجہ ہمارے اداروں میں اصلاحات کا نہ ہونا ہے۔ ہم جی سی یو کو ایک ایسا مثالی ادارہ بنانے میں کوشاں ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو ایسی افرادی قوت دےگا جو اداروں میں اصلاحات کا انقلاب برپا کرے گی اور آج کے معاشرے سے کہیں بہتر معاشرے کی تشکیل کرے گی۔