بنک کا نظم و نسق

January 22, 2022

تحریر: ڈاکٹر عابد قیوم سلہری

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ایوان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل (ایس بی پی)2021ء منظور کر لیا گیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بحث کے دوران ان کی کچھ تجاویز پہلے ہی بل میں شامل کر لی گئی تھیں۔ نئی ترمیم کے تحت دُہری شہریت کے حامل افراد اسٹیٹ بینک کے گورنر بننے کے اہل نہیں ہونگے اور اپنی مدت ملازمت کی تکمیل یا اس عہدے کو چھوڑنے کے بعد انہیں کسی دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے میں شمولیت کےلئے دو سال انتظار کرنا ہوگا۔ اس بل کا قانون سازی سے قبل سینیٹ سے منظور ہونا باقی ہے۔

اس بل کے بارے میں بامعنی بحث کےلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ بل میں تجاویز کیا ہیں؟ اور اس بل کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ نیز ان تبدیلیوں کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟ وغیرہ ... !

آئیے دیکھتے ہیں کہ بل میں تجاویز کیا ہیں؟

تجویز ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے گی۔ ایسے شعبے جو قرض تک رسائی سے محروم تھے، ان کو قرض تک رسائی میں مدد دینے کے علاوہ اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کےلئے کوئی مالیاتی خدمات نہیں دے گا۔ مزید براں مالی اورمالیاتی پالیسی بورڈ ختم کر کے مرکزی بینک اورحکومت کے درمیان رابطہ کاری/کوآرڈینیشن کا نیا طریقہ کار بنایا جائے گا۔

اسٹیٹ بینک کے ملازمین، اس کے بورڈ یا مالیاتی پالیسی کمیٹی (MPC) کے افراد پر نیک نیتی سے کئےگئے کسی پیشہ ورانہ اقدام پر مقدمہ یا قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکے گی۔ اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی پیشگی رضامندی/ اجازت لئے بغیر نیب، ایف آئی اے یا صوبائی تحقیقاتی ادارے، بیوروز یا حکام مرکزی بینک کے کسی ملازم،ڈائریکٹر یا افسر کےخلاف کسی قسم کی کارروائی، تفتیش، یا انکوائری نہیں کریں گے۔

حکومت کے مشورے پر صدر مملکت بورڈ کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اورا سٹیٹ بینک کے گورنر کو پانچ سال کی مدت(قابل تجدید) کےلئے مقرر کریں گے۔ وفاقی حکومت مرکزی بینک کے نائب گورنروں اور مالیاتی پالیسی کمیٹی ( MPC ) کے غیر سرکاری ارکان کی تقرری کرے گی۔ مقرر کئے جانے والے افراد کے بارے میں یقینی بنایا جائے گا کہ ان کا مفادات کا کوئی ٹکراونہ ہوگا اور سنگین بدانتظامی کی صورت میں انہیں ہٹایا جا سکے گا۔

گورنر، ڈپٹی گورنرز، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور ضرورت کے مطابق دیگر افسران پر مشتمل ایک ایگزیکٹو کمیٹی بیرونی آڈیٹرز اور چیف انٹرنل آڈیٹر کی تقرری کے علاوہ مرکزی بینک کے دیگر بنیادی کاموں اور انتظامیہ اور انتظامی امور سے متعلق پالیسی سازی کرے گی۔ آڈیٹر اورچیف انٹرنل آڈیٹر کی تقرری خود مختار ڈائریکٹرز پر مشتمل بورڈ کی آڈٹ کمیٹی کرے گی۔

گورنر/اسٹیٹ بینک، بینک کے مقاصد، مالیاتی پالیسی کے انعقاد، مالیاتی نظام اور نصف سالہ معیشت کی رپورٹوں کے بارے میں سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گا۔

اسٹیٹ بینک کے مجاز (زیادہ سے زیادہ حصص جومرکزی بینک جاری کر سکتا ہے) اور ادا شدہ سرمائے (شیئر ہولڈرز کی جانب سے ادا کی جانے والی رقم) میں اضافہ کر نے کا بھی منصوبہ ہے۔ مجاز سرمایہ ایک سو ملین روپے سے بڑھ کر پانچ سو ارب روپے جبکہ اداشدہ سرمایہ دس گنا بڑھ کر ایک سو ارب روپے ہو جائیگا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ان تبدیلیوں کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟۔ اس کا جواب سیدھا ساہے۔1956ءکےاسٹیٹ بینک ایکٹ میں تبدیلی پہلی بار نہیں کی گئی۔ بدلتے ہوئے ملکی اور بیرونی معاشی منظر نامے سے جڑے رہنے کےلئے مختلف حکومتوں کی طرف سے1956ءکےاسٹیٹ بینک ایکٹ میں چار مرتبہ ترامیم کی جا چکی ہیں۔ یہ ترامیم علی الترتیب 1994ء، 1997ء، 2012ء اور2015ءمیں کی گئیں۔ یہ چاروں ترامیم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے کی تھیں۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل2021ءمیں تجویز کردہ تبدیلیوںسے اسٹیٹ بینک کو مزید فعال بنانے کے علاوہ ادارہ جاتی خود مختاری بھی حاصل ہو گی۔ اس خود مختاری پر سوال اٹھانا ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ پوچھناکہ کیا آپ کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہئے؟ ایک مالیاتی نگران اور مرکزی بینک کو بہرحال اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوناچاہئے۔

جب مرکزی بینک کی خود مختاری سے انکار کیا جاتاہے تو اس کے نتائج سنگین ہوتے ہیں اس کی ایک حالیہ مثال ترکی کی ہے جہاں صدر اردگان کے حکم پر مرکزی بینک نے کمرتوڑ مہنگائی کے باوجود شرح سود میں اضافہ نہیں کیا۔ ترک صدر کی کوششوں کے باوجود مہنگائی میں تو کمی نہ ہو سکی البتہ اس کی کرنسی” ترک لیرا “کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی آئی اور الٹا افراط زر میں اضافہ ہوا۔ کیا اسٹیٹ بینک کی فعال خود مختاری کے مخالفین اسٹیٹ بینک کے فیصلوں میں مداخلت کرکے ترکی جیسی صورتحال کا سامنا کرنےکےلئے تیار ہیں؟ ظاہر ہے نہیں!

آیئے دیکھتے ہیں مجوزہ تبدیلیوں سے اسٹیٹ بینک کی کار کردگی پر کیا اثر پڑے گا!

حکومت اگراسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیتی تو وہ اضافی نوٹ چھاپنے کے بجائے ریونیو جنریشن ( آمدنی میں اضافے) پر توجہ دے سکتی ہے۔ اگراسٹیٹ بینک دیہی کریڈٹ، صنعتی کریڈٹ، برآمدی کریڈٹ، قرضوں کی ضمانت اور ہاؤسنگ کریڈٹ جیسے حکومت کے مالیاتی کاموں سے دور رہے تو وہ اپنے ریگولیٹری افعال کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔ مالی اور مالیاتی پالیسی بورڈ ہم آہنگی کا ایک طریقہ کار تھا، اسکی عدم موجودگی میں گورنر اور وزیر خزانہ کے درمیان قریبی رابطہ انہیں ان تمام چیزوں سے آگاہ رکھے گا جن کا تعلق مشترکہ طور پر وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے ہے۔

جب حکومت بورڈ کے ارکان، گورنر، ڈپٹی گورنرز اورMPC کے بیرونی ارکان کی نامزدگی خودکرے گی تو یہ بات خارج از امکان ہے کہ اسٹیٹ بینک ”ریاست کے اندرریاست“ بنے گا۔ نیک نیتی کے ساتھ کی گئی پیشہ ورانہ کارروائیوں کو قانونی چارہ جوئی سے بچانے کا یہ مطلب ان افراد کو قانون سے بالا تر سمجھ لینا درست نہیں۔ اس کے علاوہ مدت ملازمت کے تحفظ کے ساتھ کی جانے والی اہم تقرریاں (جن میں مقرر کردہ افراد کو دوران ملازمت صرف اتنا تحفظ دیا گیا ہے کہ انہیں صرف سنگین بد انتظامی کی صورت میں ہی ہٹایا جائے گا) اسٹیٹ بینک کے ریگولیٹری امور میں سیاسی مداخلت کو کم کرنے میں مددگار ہونگی۔

ایسا نہیں ہے کہ دُہری شہریت کے حامل شہریوں کی پاکستان کے ساتھ وفاداری مشکوک ہے (بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات کا حجم ہماری سالانہ برآمدی آمدنی سے زیادہ ہے) لیکن دُہری شہریت کے حامل افراد کواسٹیٹ بینک جیسے اہم ادارے کا گورنر بننے سے روک کر گورنرکےاسٹیٹ بینک چھوڑنے کے بعد دو سال تک گورنر کو کسی دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے میں شمولیت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ گورنراسٹیٹ بینک کی پاکستان کے ساتھ وفاداری کے بارے میں بعض عوامی خدشات اب دور ہو جانے چاہئیں۔

اس بل کے تحت گورنر، ڈپٹی گورنرز اور بورڈ ممبرز کی مدت ملازمت5سال کر دی گئی ہے۔ تاہم اس کا اطلاق موجودہ ٹیم پر نہیں ہوگا جن کی مدت ملازمت تین سال ہے۔ اس کا اطلاق موجودہ گورنر کی تعیناتی کی مدت پوری ہونے کے بعد نئے آنے والے گورنر اور اس کے نائبین پر ہوگا۔

سینیٹ کے معزز ممبران بل پر بحث کے دوران ا سٹیٹ بینک کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو مزید متوازن کرنے کےلئے اپنی تجاویز دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پراسٹیٹ بینک کو اس بات کا پابند بنایا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت کے مقرر کردہ درمیانی مدت کے افراط زر کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کام کرے۔ اسی طرح اس میں ایک اور شق کا اضافہ کر کے گورنرا سٹیٹ بینک کو اس بات کا پابند بھی کیا جا سکتا ہے کہ اسے (گورنر کو) جب بھی بلایا جائے وہ پارلیمنٹ میں آکر اس ضمن میں اٹھائے گئے اپنے اقدامات کے نتائج سے ایوان کو آگاہ کرے۔

اس بات سے قطع نظرآئی ایم ایف پروگرام چلتاہے یا نہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ ماضی میں بھی تبدیلیوں کے چارادوار سے گزر چکا ہے۔ا سٹیٹ بینک کی انتظامی اور آپریشنل استعداد کار کو بہتر بنانے کےلئے اس میں پانچویں بار ترمیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر آپ کو آئی ایم ایف پالیسی سے اختلاف ہے تو ضرور رکھیں۔ مجھے بھی آئی ایم ایف کی کئی پالیسیوں سے اختلاف ہے، مگراسٹیٹ بینک کو آپریشنل خود مختاری دینے جیسی طویل عرصے سے زیر التوا پالیسی اصلاحات کو محض اس لئے مسترد نہیں کیا جانا چاہئے کہ یہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے...!!