خاندانِ ابراہیمؑ

January 24, 2022

تحریر: سفیان وحید صدیقی۔کراچی
ابا جان آپ پر سلامتی ہوپھر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد سے کہا میں گھر سے جارہا ہوں، میں اپنے رب سے آپ کے لئے دعا کرونگا کہ وہ آپ کو ہدایت دے وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے، مجھے اُمید ہے کہ وہ میری دعاوں کو رد نہیں کرے گا،حضرت ابراہیمؑ نے یوں بادشاہ نمرود کے سوال و جواب پر نمرود کی اٹکل سوچ کو یوں خاموش کروادیا کہ نمرود نے پوچھاکہ ابراھیم تمہارا رب کون ہے تب ابرہیمؑ نے فرمایا میرا رب وہ ہے جو زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے، نمرود نے کہا کہ یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں تب ابراہیمؑ نے کہا کہ میرا رب مشرق سے سورج نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے تم سورج کومغرب سے نکالو اور مشرق میں غروب کرو ، حضرت ابر ہیم کا یہ مکالمہ یوں برخواست ہوا کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنی سرزمین سے ملک بدر کردیئے گئے سو حضرت ابراہیم نے ہجرت کی ،یہ دنیاکی تاریخ کی وہ عظیم ہجرت تھی جس نے آنے والے وقتوں کے لئےعظیم فیصلہ کرنا تھا اور اس میں حکمت الٰہی شامل تھی جو حضرت ابراہیمؑ پر واضح ہوا اور آپؑ نےدعا کی کہ اے اللہ مجھے صالح اُولاد عطا کر،یہ دعا پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکو اولاد عطا کی اور یوں خاندانِ ابراہیمؑ کی ابتداہوئی، حضرت اسماعیلؑ کی صورت میں ایک صالح اولاد ہوئی جو حجاز کے مقام پر پرورش پائی بعد یمن کے قبلہ بنو جرھم نے حضرت اسماعیلؑ کی تربیت کی جو پانی کی تلاش پے مقام ابراہیمؑ پر رک گئے تھےجہاں بی بی حاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے،اُدھر بی بی سارہؑ کواللہ تعالیٰ نےفرشتوں کے ذریعے ایک صالح اولاد کی خوشخبری سنائی۔بی بی سارہؑ کے ہاں حضرت اسحاقؑ کی پیدائش ہوئی۔حضرت ابراہیم ؑکو مزید یہ خوشخبری بھی سنادی گئی کہ حضرت اسحاقؑ سے ان کی اولاد یعنی خاندان ابراہیمؑ کاسلسلہ مزید آگے چلے گا،حضرت ابراہیمؑ کے والد بت پرست تھے ،حضرت ابراہیمؑ کے سمجھانے کے باوجود وہ بتوں کی پرستش سے باز نہیں آئےاور وہ خدا کےساتھ بتوں کو شریک ٹھہراتے تھے، حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اور ایمان واحدانیت کے پرچار کے لئے اپنے آبائو اجداد کو چھوڑ آئیں اوراللہ تعالیٰ نے دین ابراہیمؑ کو کامل کرنے کے لئے حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ کی صورت میں صالح اولاد عطافرمائی،یہ سلسلہ حضرت اسحاقؑ سے حضرت یعقوبؑ پھرحضرت موسیٰؑ،حضرت داؤدؑ،حضرت عیسیٰؑ اور حضرت اسماعیل سے حضرت محمد ﷺ اور اب رہتی دنیا تک چلے گا، اس کے ساتھ ساتھ نمرود کے مانے والے اقوام بھی زندہ تھے اور آج بھی زندہ ہیں جو اب بھی دین ابراہیمؑ کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور آ ل ابراہیمؑ کوایک دوسرے سے جدا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں اور آل ابراہیمؑ کے لئے ایک ساتھ کھانے اور ایک جیسے خواب دیکھنے کی راہ میں رکاوٹیں پیداکرتے ہیں جبکہ خاندان ابراہیمؑ کا تمام جہانوں کے انسانوں کو پیغام امن کا فلسفہ دیتا ہے۔ آل ابراہیمؑ ایک ساتھ رہنے اور ایک جیسے خواب دیکھنے کی اُمید رکھتے ہیں لیکن عالمی حالت اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں ،ازل سے دین ابراہیمؑ اور آل ابراہیم ؑ کے دشمن آل ابراہیم ؑکی اولادوں میں تفریق ڈالےہوئے ہیں تاکہ یہ مل کرایک قوت نہ بن جائیں اس لئےان میں تنازعا ت کبھی قومیتوں کے جھگڑوں کی صورت میں اُبھر کے سامنے آتے ہیں کبھی چار انبیاء کے ماننے والوں کے جھگڑوں کی صورت میں تو کبھی ان میں فقہی اختلافات باہمی جھگڑوں کی صورت میں اُبھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ آل ابراہیمؑکے آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے دنیا کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے جبکہ معاملہ مختلف ہے۔آ ل ابراہیم کا دنیا کے لئے بنیادی فلسفہ امن ہی ہے،وہ عہد جو حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد نےحضرت ابراہیم ؑ سے کیا تھا کہ ان کی اولادیں صرف اس خدا کی عبادت کریں گے جس کی عبادت حضرت ابراہیمؑ کیاکرتے تھےاور حضرت ابراہیم کے آبائواجداد جس طرح بتوں کو خداکا شریک ٹھہراتے تھے اس طرح ہر گز نہیں کریں گے،آج بھی دنیامیں حضرت ابراہیمؑ کی اولاداپنے محل وقع میں رہتے ہوئے یہ عہد نبھارہےہیں چاہے وہ بعد آنے والے رسول وانبیاء حضرت یعقوبؑ یا پھر حضرت اسماعیلؑ کے بعد آنے والے اُن انبیاء کے ماننے والے کی عقیدت سے تعلق رکھتے ہوں جن میں حضرت موسیٰؑ،حضرت عیسیٰؑ ہوں یا پھر حضرت محمد ﷺ ہوں ، سب کا ایمان ، ایمان کامل ہے یعنی کہ اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ کے پیروکاروں کا یہ واضح ایمان ہے کہ آپ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں جیسا کہ اللہ کی چار مقدس کتابوں میں سے قرآن مجید میں ختم نبوت پرایمان لانا اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے اہم حکم ہے۔ مسلمان دیگر آلِ ابرہیمؑ میں ان تعلیمات کو عام کرنا لازمی فرض ہے۔ایمان کا یہ تقاضا ہےکہ مسلمان پیغام وحدانیت کے ساتھ ختم نبوت محمدﷺ دیگر مذاہب کے پیروں گاروں تک پہنچائیں اور یہی وہ عہد ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان مومن پر فرض ہے ، اس کے لئے کسی ہتھیار کا اُٹھانا ضروری نہیں یہ عمل تو پر امن طریقے سے پیغام پہنچانے اور درس دینے کا ہے ، ہم سب اللہ کے سفیر ہیں اور جس کا پیغام ہم تک یعنی تمام جہانوں کے انسانوں تک جو لاعلم تھے تمام ہی انبیاء اور رسولوں نےپہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے چار رسولوں پر وحی کے ذریعے مقدس کتابیں نازل کیںاور اب ہم سب کو پیغام واحدانیت تمام انسانوں تک پہچانا ہے، مسلم ممالک کے حکمرانوں کا دین پر رجحان محض سیاسی مفادات کا حصول تو دکھائی دیتا ہے لیکن ان کی دین سے رغبت نظر نہیں آتی جبکہ اُمت مسلمہ بے حال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ جن مغربی ممالک نے جن مسلم ممالک میں انسانی خدمات و حقوق کے لئے کام کیا وہاں اس حوالے سے کافی ترقی دیکھائی دیتی ہے مگراب بھی بعض ممالک میں خواتین کو وراثت کے حقوق حاصل نہیں کئی مسلم ممالک میں خواتین اور لڑکیوں کوحصول تعلیم آزادانہ طور سے حاصل نہیں ہوسکے ہیں، مسلم حکمرانوں کی ذاتی مجبوریوں نے اُمت کو بے حال کردیا ہے، بعض گروپ مذہب کے تحفظ کے نام پر اسلحہ اُٹھاتے پھرتے ہیں جبکہ ان کا اصل مقصد صرف حکمرانوں اور اُن کی اولادوں ،رشتہ داروں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اوریہ وقت نکل گیاتو سوائے پچھتاوے کے کچھ اور نہ ملے گا ، وہ ممالک جو خاندانِ ابراہیمؑ کے لئے بہت گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کا خاندان ایک ساتھ رہے، ایک ہی طریقہ سے کھائیں اور ایک جیسے خواب دیکھ سکیں ان کوششوں کے باعث یہ آواز دنیا کے طولِ عرض پر پھیل رہی ہے اور امن کا ایک نیا درواز ہ کھلا ہے جس میں امن و استحکام کے فروغ کے لئے دنیاوی اصولوں پر چلتے ہوئے تیز سفارتکاری کی جارہی ہے لیکن اب تک بنیادی نقطہ پر بات سامنے نہیں آسکی ہے جبکہ مسلم ممالک نے اس پر غورو خوص کرتے ہوئے مکہ کانفرنس کو بنیادی سانچہ ماننے پر فکر شروع کردیاہے، یہ معاملات ایک ایسے حالات میں آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں جب دنیا میں اب بھی کچھ خدشات جنگ کے دکھائی دے رہے ہیں، ایسے میں تمام ہی ممالک کو امن کی خاطر منفی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا اور اقوام متحدہ کے بنائے ہوئے عالمی قوانین پر عمل درآمد کرنا ہوگا ،جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں، امن و استحکام کے لئے واحد راستہ سفارتکاری ہے جو دنیا کو امن کی جانب لے جائے گا، روس کی یوکرین پر جارحیت دنیا کے امن کو خطرے سے دوچار کردے گا۔ان کی خودمختاری پر سب ہی ان کے ساتھ ہیں جبکہ امن کا راستہ سفارتکاری ہے۔