دبستانِ شعر: تو گھر سے نکل آئے تو ...

January 26, 2022

جوش ملیح آبادی

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

تو باغ میں جس وقت لچکتی ہوئی آئے

ساون کی طرح جھوم کے پودوں کو جھمائے

جوڑے کی گرہ کھول کے بیلا جو اٹھائے

پربت پہ برستی ہوئی برکھا کو نچا دے

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

آنکھوں کو جھکائے ہوئے پلو کو اٹھائے

مکھڑے پہ لیے صبح کے مچلے ہوئے سائے

لیتی ہوئی انگڑائی اگر گھاٹ پہ آئے

گنگا کی ہر اک لہر میں اک دھوم مچا دے

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

کرنوں سے گرے اوس جو ہو تیرا اشارا

مٹی کو نچوڑے تو بہے رنگ کا دھارا

ذرے کو جو روندے تو بنے صبح کا تارا

کانٹے پہ جو تو پاؤں دھرے پھول بنا دے

تو گھر سے نکل آئے تو دھرتی کو جگا دے

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے

صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخم دل پہ توجہ کئے بغیر

درمان درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

ہر چند ناز حسن پہ غالب نہ آ سکے

کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم

صبح ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن

یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ

تخلیق کائنات دگر کر رہے ہیں ہم

اے عرصۂ طلب کے سبک سیر قافلو

ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم

لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایات زندگی

آرائش کتاب بشر کر رہے ہیں ہم

تخمینۂ حوادث طوفاں کے ساتھ ساتھ

بطن صدف میں وزن گہر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ

یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم

گڈومیاں

محشربدایونی

سنئے یہ ایک قصہ گڈو کی سادگی کا

گڈو کے ماسٹر نے اک دن یہ اس سے پوچھا

گڈو میاں تمہارے پاپا کا کیا ہے پیشہ

پیشہ کا لفظ سن کر گڈو نہ کچھ بھی سمجھا

آسان ڈھنگ سے پھر یوں ماسٹر نے پوچھا

گڈو تمہارے فادر کا کیا ہے کام دھندا

گڈو نے خامشی سےکچھ دیر تک تو سوچا

پھر توتلی زباں میں آہستگی سے بولا

رہتے نہیں ہیں گھر میں دن کو تو میرے پاپا

ممی ہی صرف میری کرتی ہے کام سارا