چین سے پرہیز یا دوستی۔۔؟

January 29, 2022

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کے پاس اشیائے زیست کی سب سے زیادہ قوت خرید ہے۔ چین کی تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت دنیا کی جیوپولیٹکل شکل کو نئی جہت دے رہی ہے، دوسری طرف پورا مغربی میڈیا چین کو نیا سامراج یا امپیریلسٹ کہہ رہا ہے یہ فوجی نہیں بلکہ معاشی حال پھینک کے اپنے توسیع پسند انہ مفادات کی تکمیل کررہا ہے اور ترقی پذیر ممالک سے انرجی اور خام مال انتہائی سستے داموں لے کر اپنی دولت میں روزانہ بیش بہا اضافہ کررہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان سمیت دنیا کے مارکسی دھڑے اور پارٹیاں چین کے اس معاشی پھیلاؤ کوسامراجی طرز عمل کے زمرے میں دیکھنے لگے ہیں۔ دنیا سمیت دنیا بھر کے لیفٹ میں اس حوالے سے تقسیم پائی جاتی ہے۔ ایک دھڑے وہ ہیں جو چین کو سوشلزم کی جانب بڑھتا ہوا قرار دے رہے ہیں اور وہ چین کی ابھرتی طاقت کے بہت مداح ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی مغرب اور امریکہ دشمنی بھی ہے اور چین اور روس کی جانب ماضی کے نرم گوشے بھی ہیں۔ جبکہ دوسرا نقطہ نظر رکھنے والے اسے سامراجی پھیلاؤ قرار دیتے ہیں چین اپنے زیر اثر جنوبی ایشیا ، افریقہ اور دیگر خام مال پیدا کرنے والے ممالک کو ہی فقط اپنے زیر اثر نہیںکر رہا بلکہ تیزی سے ترقی یافتہ اور سرمایہ دارانہ دنیا میں بھی گھستا چلا جارہا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ چین سرمایہ دارانہ دنیا میں جتنا بھی اندر داخل ہوجائے وہ کبھی مغربی سرمایہ دارانہ کلب کا حصہ نہیں بن سکے گا۔ نہ ہی ا سے قابل اعتماد دوست کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ اس کی وجوہات ایک مکمل علیحدہ بحث ہے۔چین کی بہت سی اشیاء کی درآمد دنیا کےلئے حیران کن ہے۔ جو ظاہرکرتی ہے کہ چین نہ صرف تیزی سے پھیل رہا ہے بلکہ اس کیلئے دنیا کی کئی اشیاء کی پیداوار کم پڑتی جارہی ہے چین دنیا میں پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ خود بھی ایک ارب چالیس کروڑ انسانوں کی منڈی ہے لیکن اسی طرح باقی دنیا چین کی منڈی ہے۔ چین میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کی آبادی کا پانچوں حصہ رہتا ہے لیکن چین دنیا میں پیدا ہونےو الے کل سیمنٹ کا 59 فیصد استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح 50 فیصد اسٹیل،27 فیصد سونا، 23 فیصد مکئی اور 33فیصد کپاس صرف کرتا ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ چین خود بھی دنیا کی کتنی بڑی منڈی ہے سیمنٹ اور اسٹیل کا استعمال اس بات کا آئینہ دار ہے کہ چین اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتا ہوا ملک ہے لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اوپر بیان کی گئی اشیاء اور استعمال کے حوالے سے تو چین کو دنیا بھر کا بڑا گاہگ ہونا چاہیے لیکن چین ان سے بیشتر اشیاء ترقی پذیر ممالک سے حاصل کرتا ہے اور کافی سستے داموں خریدتا ہے جسے مغربی میڈیا غریب معیشتوں کا استحصال قرار دیتا ہے۔ البتہ چین کے لیبر کے حقوق کے حوالے سے کئی سوالیہ نشان ہیں جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ چین انسانی حقوق اور مزدور حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے مال بیچتا بھی ہے اور خریدتا بھی ہے۔ نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ چین کے آمرانہ طرز حکومت کی وجہ سے اس کا امپیریل ازم ماضی کے مغربی امپیریل ازم سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ اس میگزین کے مطابق چین ایک بیلٹ ایک روڈ پالیسی کے تحت نا صرف ان ممالک میں آمریتوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ بلکہ ان معیشتوں کو قرضے کے جال میں پھانس کر وہاوں کلچرل یلغار بھی کرتا ہے ۔ ویسے تو اس طرح کا مغربی پراپیگنڈہ چین کی آمریت کی توسیع پسندی کو سپورٹ کرتا ہے حالانکہ خود مغرب بھی کلچرل یلغار میں کسی سے پیچھے نہیں۔ فنانشنل ٹائمز نے پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہےکہ چین نے سرمایہ کاری کے نام پر پاکستان کو اپنی کلائنٹ اسٹیٹ بنالیا ہے۔ اس طرح افریقہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں بھی چین سوشلزم کی خدمت نہیں بلکہ ان کے وسائل پر قبضہ کررہا ہے۔ یہ دلیل بھی مغرب کی زبان سے قطعی اچھی نہیں لگتی کیونکہ مغرب کی اپنی تاریخ اس قسم کی یلغار سے بھری پڑی ہے۔ مارکسی اسکالرز اور گروپس کا ( وہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہوں یا دنیا کے دوسرے ترقی پذیرممالک سے)المیہ یہ ہے کہ امپیریل ازم کے کلاسیکل تھیوریوں سے باہر نہیں آئے جہاں سادہ لفظوں میں مقابلے کی فری مارکیٹ کے نام پر دولت کو سمیٹ کر چند اجارہ داروں کے ہاتھوں منتقل کردیا جاتا ہے۔ چین ایک ریاستی کنٹرولڈ سرمایہ دار ملک ہے۔ جو غریب ملکوں کو قرضےبھی سخت شرائط پر دیتا ہے اور شرح سود بھی مغرب کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ دراصل نقص تو ان معیشتوں کا ہے جو قدم قدم پر قرضوں اور امداد کے نام پر اپنے عوام کے مفادات کو بھول جاتے ہیں۔ غریب ملکوں کی حکومتیں بہت سستے داموں میں سخت شرائط پر اپنی لیبر بھی ان ملکوں کو بیچ دیتے ہیں جو عوام کو ذہنی طور پر غلام بنانے کی جانب ٹھوس قدم ہوتا ہے ۔چین کے بارے میں سمجھنا چاہیئے کہ وہ ہے تو سوشلٹ بلاک کا ہی حصہ۔ لیکن وہ سو شلزم کی پرانی تشریحات کر رد کرتے ہیں لیکن اپنے گلوبل ریاستی بزنس اور توسیع پسندی کو سوشلسٹ اکانومی کہتے ہیں اور وہ جس بھی غریب ملک سے تجارتی ڈیل کرتے ہیں وہ وہاں کے اصل طاقت کے سرچشمے سے ڈیل کرتے ہیں جو کہ اکثر ایسے ممالک کی طاقت وہاں کی اسٹبلشمنٹ کو ہی سمجھا جاتاہے۔ اس لئے چینیوں کو مغربی میڈیا آمریت دوست کہتا ہے ، اس پیٹرن میں اگر چین کو دیکھا جاتے تو کسی بھی ملک کو چین نواز یا امریکہ نوازی سے دوررہنے کے سوا اور کوئی سبق نہیں ملتا۔