منفی سوچوں سے چھٹکارا کیسے پایا جائے؟

February 27, 2022

ذہن میں منفی خیالات کا پیدا ہونا زندگی کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسے روزانہ کی پریشانیاں کہ فلاں نے پڑھائی میں مجھ سے زیادہ اچھا کیسے ہے یا میں دوسروں سے پیچھے کیوں ہوں یا میری کارکردگی بہتر نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔

اکثر نوجوانوں کے ذہن میں اس قسم کی سوچوں کا ڈھیر لگنا شروع ہوجاتا ہے اور ذہن کچھ بہتر کام کرنے کے بجائے ان ہی میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ان منفی یا بلاوجہ کی سوچوں کی وجہ سےآپ کے بہت سے اہم کام رہ جاتے ہیں اور آپ کی توانائی بھی جذب ہوتی رہتی ہے۔

قصہ مختصر ، اس قسم کی سوچیں آپ کو ذہنی طور پر تھکا دیتی ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ دن بھر کے دوران انسان کے ذہن میں تقریباً 60ہزار سوچیں غالب رہتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ ترسوچیں ایسی ہوتی ہیں، جو بار بار دماغ پر غلبہ حاصل کرتی ہیں۔

خیر کوئی بات نہیں ، خوش قسمتی سے کچھ زیرک دماغ ہیں جو آپ کو ذہن کی ڈی کلٹرنگ یعنی سوچوں کو منظم کرنے میں مدد دے سکتے ہیںاور دماغ میں اتنی جگہ بنانے میں بھی مدد کرسکتے ہیںجہاں صرف اہم اور مثبت سوچوں کا ڈیرہ ہو۔ میری کونڈو کی ڈی کلٹرنگ کی تکنیک کو شکاگو کی ڈاکٹر آف سائیکالوجی اور کلینکل فزیولوجسٹ سنیتھا چنڈی نے اپنایا اور بتایا کہ آپ کیسے اپنی سوچوں کو منظم کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ان خیالات کا پتہ چلائیںجو پریشان کن ہوں جیسے کہ :

ماضی کا کوئی واقعہ

ہو سکتا ہے آپ کے خاندان میں کسی نے آپ کے کام پر تنقید کی ہو یا کسی دوست نےآپ کے بارے میں غلط کمنٹس دیے ہوں۔ ایسی باتیں جن سے آپ کا دل دکھا ہووہ چاہے دو ہفتے پہلےکی بھی ہوں لیکن آپ کو پریشان کرتی رہتی ہیں۔ اپنے اندر غصہ لیے پھرنا شاید آپ کے لیے صحیح ہولیکن اس سوچ نے جو جگہ گھیر رکھی ہے وہ کسی اور مثبت سوچ کو جگہ نہیںلینے دے رہیاور جب تک آپ اپنی اس سوچ کو اٹھا کر باہر نہیں پھینکیں گے تو دوسری سوچیں پنپ نہیں سکیں گی۔

جب آپ اس واقعے کو ری پلے کرکے اس کے مداوے یا جوابی وار کے بارے میں سوچتے رہیں گے تب تب آپ کے اند ر ذہنی تناؤ پیدا ہوتا رہے گا۔ یہ سوچ دور کرنے کے لیے آپ اسے کسی کے ساتھ شیئر کریں اور پھر ہلکے پھلکے ہو کر آگے بڑھیں۔ اس کا دوسر احل یہ ہےکہ کسی کاغذ پر اپنی پریشانی لکھ کر اسے کچرے دان میں پھینک دیں۔ دراصل آپ کا دماغ اس سوچ کو جھٹکنا چاہتا ہے نہ کہ اسے پرواہ ہے کہ سامنے والا آپ کے خیالات کو سنے یا جذبات کو سمجھے۔

ہمیشہ برے حالات کی توقع رکھنا

آپ کا ذاتی اصول ہونا چاہیے، ’’اگر کچھ غلط ہوا تو دیکھا جائے گا‘‘۔ اس قسم کی زبردست سوچ آپ کو چیزوں کو قبول کرنے کے قابل بناتی ہے جیسے کہ آپ کا کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ نہیںہوا یا کمپنی میں ڈائون سائزنگ ہو رہی ہے(یہاں تک کہ اپنے سب سے بڑے خدشے کو بھی پورا ہونے کے بار ے میں سوچا جاسکتاہے )۔ آپ یہ سوچیں کہ جو ہوچکا سو ہو چکا، اب اسی کے ساتھ جینا ہے ، لیکن جو بہت کچھ خراب ہوسکتاہے، محض اسی کے بارے میںمسلسل سوچتے رہنا، منفی خیالات کو تقویت دیتا رہتا ہے ۔

اس سلسلے میں آپ بدقسمی سے اپنی دخل اندازی والی سوچوں کو ختم نہیں کرسکتے اور انہیں نظر انداز کرنے سے وہ اور زیادہ طاقتور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن آپ اپنے خوف کو پلٹ سکتے ہیں، جیسے آپ کسی بھی برے حالات کے بارے میں سوچیں اور اس کا ایک ایکشن پلان بنائیں، اس طریقے سے آپ کا خوف کم ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا کسی اچھی یونیورسٹی میںداخلہ نہ ہوا توا س کے بہترین متبادل کیا ہوں گے، یا پھر آپ کے چہرے پر کیل مہاسے نکل رہے ہیں تو آپ کو پریشان ہونے کے بجائے جِلدی امراض کے معالج سے ملنا ہوگا۔

چیک لسٹ کبھی ختم نہیں ہوتی

اکثر یہی ہوتا ہے کہ دن ختم ہو جاتاہے لیکن کام ختم نہیںہوتے۔ اسائنمنٹ کرنا، ای میل کرنا، کھیلنا ، پڑھائی کرنا وغیر ہ میںآ پ کا دماغ مسلسل لگا رہتا ہے، بالخصوص نامکمل کاموں کے بارے میںسوچتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میںٹائم مینجمنٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ ان کاموں کو بھول جائیں جن کو آپ کا دماغ بار بار یاد دلاتا رہتا ہے اور صرف انہی کاموںپر دھیان دیںجو اس وقت آپ کا ہاتھ میں ہوں۔

اس کا بھی حل ہے کہ کاموں کو ذہن میں رکھنے کے بجائے کسی کاغذ پر لکھ لیں اوران کو انجام دینے کے بعد قلم زد کرلیں۔ ان کاموںمیں بھی فرق کرنا ضروری ہے، جو لازمی ہیں یا جو کچھ وقت بعد بھی انجام دیے جاسکتے ہیں۔ آپ ایک ہی وقت میں سب کچھ نہیں کرسکتے۔ اس لیے صرف ان چیزوں کا انتخاب کریں جو آپ کی زندگی میں بے حد اہمیت رکھتی ہوں۔

اس کے علاوہ، سب کام ایک وقت میں نمٹانے کے بجائے ایک وقت میں ایک کام کرنے کا سوچیں۔ ایک وقت میں ایک کام کرنے سے انسانی ذہن کی صلاحیتیں برقرار رہتی ہیں اور وہ دماغی طور پر بلا وجہ تھکتا نہیں ہے۔ ذہن کو زیادہ کاموں میں الجھانے سے سوچ بچار اور توجہ مرکوز کرنے کی قوت متاثر ہوتی ہے۔