روزِ حشر، جزا و سزا کا تصور

May 13, 2022

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ارشادِ ربّانی ہے:’’اللہ کی ملکیت میں ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اگر تم اپنے دل کی بات ظاہر کروگے یا اس کو چھپائو گے، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا ،پھر جسے چاہے بخشے گا اور جسے چاہے گا، عذاب دے گا، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پچھلی امتوں میں سے ایک شخص کے پاس فرشتہ روح قبض کرنے آیا، پھر مرنے کے بعد اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے کوئی بھلائی کا عمل کیا ہے؟ اس نے کہا کہ اس کے سوا مجھے اپنا کوئی نیک عمل معلوم نہیں کہ میں دنیا میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کرتا تھا تو حسن سلوک سے کام لیتا تھا، کوئی کشادہ حال ہوتا تو اسے مہلت دے دیتا اور کوئی تنگ دست ہوتا تو اسے بالکل ہی معاف کردیتا، اس پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔(بخاری و مسلم)

سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن جس آدمی کا حساب ہوگیا، وہ (گویا)عذاب میں ڈال دیا گیا۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا، کیا اللہ عزوجل نے نہیں فرمایا ’’اس سے حساب نہیں لیں گے، مگر آسان حساب ۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ حساب نہیں ہے، بلکہ صرف پیشی ہے۔ قیامت کے دن جس سے حساب مانگ لیا گیا، وہ عذاب میں ڈال دیا گیا۔

ایک بزرگ نے آسان حساب کو اس انداز میں بیان فرمایا کہ پروردگار اپنے بندے کے نامۂ اعمال پر ایک نظر کرم فرمائے گا اور کہے گا، جا اپنے رب کی جنتوں میں جہاں تیرے رشتے دار (جنتی) تیرا انتظار کررہے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک مرتبہ حضور ﷺ سے سنا کہ آپ نماز میں یہ دعا مانگ رہے تھے۔(اللّٰھم حاسبنی حساباًیّسیرا) جب آپﷺ نمازسےفارغ ہوئے تو میں نے پوچھا حضور ﷺ یہ آسان حساب کیا ہے؟ فرمایا: نامۂ اعمال پر نظر ڈالی جائے گی اور کہہ دیا جائے گا کہ جائو تم سے درگزر کیا، لیکن اے عائشہؓ، جس سے اللہ حساب لینے پر آئے گا، وہ ہلاک ہوگا۔ (مسند احمد) غرض جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آئے گا، وہ اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہی نجات پائے گا اور خوشی خوشی جنت میں واپس جائے گا۔

آپ ﷺ کو تاکید کی جارہی ہے کہ اے نبی، میری طرف سے لوگوں سے کہہ دیجیے، اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے،اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا،اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ الزمر)

جہاں قرآن پاک کی ہر سورت میں جنت کی نوید اور پیش گوئیاں سنائی گئی ہیں، وہیں روز محشر کی تیاری کی تعلیم دی گئی ،فرمایا گیا:اور قسم ہے اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے،یہ وہ دن ہے جس میں دنیا کے اعمال اور واقعات کے فیصلے ہوں گے۔ اس دنیا میں جس نے جو کمایا ہوگا،اس کی جزا و سزا ہوگی اور اس دن کو ’’یوم الموعود‘‘ اس لیے کہا گیا کہ اس کے آنے کا اللہ نے وعدہ فرمایا ہے، اس دن حساب کے بعد جزا و سزا ہوگی اور جن لوگوں پہ دنیا میں زیادتی ہوئی یا جنہوں نے کسی پر زیادتی کی، اس دن تک اللہ نے انہیں مہلت دی اور یہ ایک عظیم دن ہوگا، جس کا لوگوں کو انتظار ہے،تاکہ وہ دیکھیں کہ اس کے اندر کیا فیصلے ہوتے ہیں، اس دن ہر چیز پردے سے باہر آجائے گی اور ہر کسی کو نظر آئے گی۔

ایک موقع پر فرمایا: ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، یقیناً ان کے لیے جنت کے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ ہے حقیقی نجات اور کامیابی۔ انسان جب اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسے چاروں طرف خیر و شر باہم زور آزمائی کرتے نظر آتے ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ نیکی اور بدی یا جسے وہ نیکی اور بدی سمجھتا ہے،باہم برسرپیکار ہیں، اس معرکے میں شر ابھرتا اور بدی مات دے دیتی ہے، لیکن اس کش مکش میں مومن مایوس نہیں ہوتا، مقابلہ کرتا ہے،اللہ تعالیٰ سے جنت کی امید رکھتا ہے اور ساتھ ہی حضور اکرم ﷺ کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتا ہے اور ہر عمل کے ساتھ یہ دعا زیر لب ہونی چاہیے :اے میرے پروردگار،میرے ساتھ حساب یسیر کا معاملہ فرما۔