5 برسوں میں ایٹنگ ڈس آرڈر سے ہسپتالوں میں داخلے کی شرح میں84 فیصد اضافہ

May 20, 2022

لندن (پی اے) ایک نئے تجزیئے میں پتہ چلا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایٹنگ ڈس آرڈر کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخلوں کی شرح میں 84فیصد اضافہ ہوا ہےاور اس سے نوجوان اور لڑکے زیادہ تعداد میں متاثر ہوئے ہیں۔ انگلینڈ بھر کے ہسپتالوں میں 2020- 2021کے دوران بولیمیا اور بھوک کی کمی (اینورگزیا) جیسے عارضے کی وجہ سے ہسپتالوں میں 24268 افراد داخل کئے گئے تھے جبکہ 2015-2016میں ایسے عوارض میں ہسپتالوں میں داخلوں کی تعداد 11049تھی۔ رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کے تجزیئے کے مطابق ایسے عوارض میں ہسپستالوں میں بچوں اور نوجوانوں کے داخلے کی تعداد 3541 سے بڑھ کر 6713تک پہنچ گئی۔ تجزیئے میں کہا گیا کہ کوویڈ پینڈامک کی وجہ سے صرف گزشتہ سال ایٹنگ ڈس آرڈر کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخلوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا ۔ تجزیئے میں بتایا گیا کہ لڑکوں اور نوجوانوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا اور ان کی تعداد 2015-2016کی تعداد 280سے بڑھ کر 2020-2021میں 637ہو گئی تھی۔ رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس نے ہیلتھ پروفیشنلز کیلئے نئی گائیڈ لائنز جاری کی ہیں تاکہ انہیں کسی شخص کے ایٹنگ ڈس آرڈر کے جان لیوا ہونے کی نشان دہی کرنے میں مدد مل سکے اور وہ ان کو درست اور مناسب کیئر فراہم کر سکیں۔ رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کا کہنا ہے کہ گائیڈنس اور ٹریننگ کی کمی کی وجہ سے کسی شخص کے شدید بیمار ہونے کی علامات جی پی سرجزیز اور اے اینڈ ای میں مس ہو سکتی ہیں۔ کالج کی گائیڈ لائنز میں کہا گیا کہ شدید طور پر بیمار ہونے پر بھی ایٹنگ ڈس آرڈر میں مبتلا افراد عام بلڈ ٹیسٹ کے ساتھ صحت مند دکھائی دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھوک کی کمی (اینورگزیا) کے شکار کسی بھی شخص میں الیکٹرولائٹس جیسے پوٹاشیم کی خطرناک حد تک کم سطح ہو سکتی ہے، جس کا بلڈ ٹیسٹ سے پتہ نہیں چل سکتا۔ بولیمیا کے مریضوں میں شدید الیکٹرو لائٹس ڈسٹربینس اور پیٹ کے مسائل ہو سکتے ہیںلیکن ان کا وزن نارمل یا زائد ہو سکتا ہے۔ ایٹنگ ڈس آرڈر گائیڈنس میں ڈیولپمنٹ آف نئیو میڈیکل ایمرجنسیز کی چیئر ڈاکٹر ڈیشا نکولس نے کہا کہ ایٹنگ ڈس آرڈر جیسا کہ اینورگزیا، بولیمیا اور بنگ ایٹنگ میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا اور کسی بھی عمر اور جینڈر کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لائف سٹائل چوائس نہیں بلکہ مینٹل ہیلتھ ڈس آرڈر ہے اور ہمیں ان کے سنگین ہونے کو کمتر نہیں سمجھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اینورگزیا نروسا کو عموماً مہلک ترین مینٹل ہیلتھ کنڈیشن گردانا جاتا ہے لیکن اس کے جلد علاج اور سپورٹ سے اس سے زیادہ اموات کو روکا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کی جلد نشاندہی اور علاج ہو جائے تو مکمل صحت یابی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کامن ایٹنگ ڈس آرڈر علاماتکے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ڈیشا ناکولس نے کہا کہ ہماری گائیڈنس ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ جب کوئی شخص ایٹنگ ڈس آرڈر کی وجہ سے خطرناک بیماری کا شکار ہو تو وہ اس کی نشاندہی کریں اور اس کے ارد گرد پھیلی خرافات کو دور کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایٹنگ ڈس آرڈرز ایپیڈمک کو اس کے ٹریکس میں روکنا چاہتے ہیں توہماری گائیڈنس ہیلتھ کیئر پروفیشنلز تک فوہری پہنچنی چاہئیں اور حکومت کو ان کے نفاذ کیلئے ضروری وسائل کے ساتھ ان کی حمایت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کو ان کی فیملیز کو ایٹنگ ڈس آرڈرز کے تباہ کن نتائج سے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ اینورگزیا کے شکار پانچ افراد میں سے ایک کی موت خودکشی کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ تمام ایٹنگ ڈس آرڈرز میں سیلف ہارم اور ڈپریشن کی شرح بلند دکھائی دیتی ہے۔