کراچی، بم دھماکوں کی زد میں

May 22, 2022

روشنیوں کے شہر، ملک کے معاشی حَب اور صوبائی دارالخلافہ کراچی میں دہشت گردوں کی جانب سےتسلسل کے ساتھ ایک ماہ کے دوران خود کش سمیت 3بم دھماکوں کی نئی لہر نے شہریوں میں خوف وہراس کی فضا پیدا کردی ہے، جولمحہ فکریہ ہے، جس نے صوبائی حکومت ، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پرکئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ دہشت گردی ملک خصوصا شہر کراچی میں بدامنی پھیلا نے کی منظم اور دشمن کی مکروہ سازش ہے اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ کراچی میں رہنے والے، دشمن کےاس بزدلانہ اور نا پاک عزائم کو کبھی پورا نہیں ہونے دیں گے۔

تادم تحریردو بڑی خبریں موصول ہوئیں کہ بدھ کوماڑی پور مشرف کالونی پانچ سو کوارٹرزکے قریب حساس ادارے اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں صدر دھماکے کا مبینہ مرکزی دہشت گرد کو ساتھی سمیت ہلاک کردیا ہے، جب کہ 2 دہشت گرد موقع سے فرار ہوگئے، جن کی تلاش جاری ہے۔

انچارج سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کی شناخت اللّٰہ ڈنو اور نواب کے نام سے ہوئی ہے، دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد برآمد کیا گیا ہے۔ انچارج سی ٹی ڈی مظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے قبضے سے ملنے والے بیگ میں دھماکا خیز مواد موجود تھا، جس پر بم ڈسپوزل یونٹ کو طلب کیا گیا۔ بی ڈی یو نے مواد کو ناکارہ بنانے کا عمل شروع کیا۔ سی ٹی ڈی انچارج کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کا کرمنل ریکارڈ چیک کیا جارہا ہے۔ شہرمیں ہونے والے بم دھماکوں سے متعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تجزیاتی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آئے تھے۔ سی ڈی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک دہشت گردوں کا تعلق سندھ ریوولیشن آرمی سے ہے۔

دوسری اہم خبر آئی سندھ مشتاق مہر کو عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹرکامران فضل کو قائم قام آئی جی سندھ کی تعیناتی کی تھی، بعدازاں مشتاق احمد مہر نے انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ کے عہدے کا چارج چھوڑدیا اور بدھ کو ہی ڈاکٹر کامران فضل نے قائم مقام آئی جی سندھ کا چارج سنبھالتے ہوئے محکمانہ ذمے داریوں کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ انھوں نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی۔ وزیر اعلی سندھ نے قائم مقام آئی جی کو صوبے میں امن وامان اور موثر حکمت عملی مرتب کرنے کی ہدایت د یتے ہوئے کہا کہ موجودہ دہشت گردی کی لہر کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

ایک ماہ کے دوران جامعہ کراچی ،صدراور اب بولٹن مارکیٹ ممبئی بازار میں ہو نے والا تیسرا بم دھما کا ہے، جس کے نتیجے میں ایک خاتون 30سالہ سنیا زوجہ خالد جاں بحق ہو گئی، جب کہ اس کے 14سالہ بیٹے حارث اور اے ایس آئی 45 سالہ بدرالدین سمیت 13افراد زخمی ہو گئے۔ دھماکا کھارا درتھانے کی حدود ایم اے جناح روڈ گنجان آباد اور بڑی مارکیٹوں پر مشتمل علاقے بولٹن مارکیٹ میمن مسجد کے قریب اس وقت کیاگیا،جب پولیس موبائل وہاں پہنچی ، جس صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کاٹارگٹ صدر دھماکے کی طرح پولیس موبائل ہی تھی۔

دھماکا اس قدر شدید تھاکہ اس کی آواز دُور دُور تک سُنی گئی، دھماکے سے یہاں کھڑی ہوئی پولیس موبائل ،5 موٹر سائیکلیں اور رکشہ تباہ ہو گیا ،جب کہ آگ بھی لگ گئی۔ خوش قسمتی سے دھماکے کے وقت بیش تردکانیں بند ہوچکی تھیں اور لو گوں کا ہجوم بھی نہیں تھا،جس کی وجہ سے کوئی بڑاجانی نقصان نہیں ہوا ۔ دہشت گروں کی حالیہ 2 کارروائیوں سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ دہشت گروں کا ہدف سیکیورٹی ادارے اور بڑی مارکیٹیں ہی ہیں۔ جائے وقوعہ پر رقت آمیزمنظر اس وقت دیکھنے میں آیا، جب جاں بحق ہونے والی خاتون کا بیٹا حارث جو دھماکےمیں خود بھی زخمی ہو گیا تھا، والدہ کی لاش کے قریب بیٹھ کر کہہ رہا تھا کہ ماں جلدی اٹھو ،مما اٹھو گھر چلویہ منطر دیکھ کر یہاں موجود کئی افراد کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ اس دل خراش منظر کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی۔

بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والی خاتون رکشے میں سوار تھی اور رکشے کے قریب پولیس موبائل کے آتے ہی موٹر سائیکل میں نصب کو بم قریبی موجود دہشت گرد نے ریموٹ کنٹرول سےدھما کا کردیا اور خاتون جاں بحق اور رکشہ تباہ ہو گیا۔ جاں بحق ہو نے والی محنت کش خاتون سنیا گارڈن شو مارکیٹ کی رہائشی اور گھر میں ڈوپٹے کی تیار کر کے کاغذی بازار میں سپلائی کرتی تھی اور دھماکے کے وقت مال سپلائی کر نےکے لیے جاعہ وقوعہ پر رکشے میں موجود تھی۔ سنیا 4 بچوں کی ماں تھی۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب تھا، دھماکا ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا، ایس یس پی سٹی کے مطابق دھماکے کا نشا نہ کھارا در پولیس کی موبائل تھی، جو معمول کے گشت پر تھی۔

انتہائی با خبر ذرائع کے مطابق کراچی میں ہو نے والے بم دھماکوں سے متعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تجزیاتی رپورٹ میں اہم انکشافات کیا گیا ہے کہ صدر اور بولٹن مارکیٹ دھماکوں میں متحدہ لندن سمیت 3 دہشت گرد گروہوں نے ایک دوسرے کی معاونت کی ہے۔ بم ڈسپوزل یونٹ(بی ڈی یو ) کی رپورٹ کے مطابق کھارادر بولٹن مارکیٹ ممبئی بازار میں دھماکے میں4 سے5 کلو بارودی مواد استعمال ہوا ،دھماکا خیز مواد موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا ،دھماکا خیز مواد کے ساتھ بال بیرنگ بھی استعمال کیے گئے ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھماکے سے پولیس موبائل نمبر ایس پی 283 کا فرنٹ حصہ تباہ ہوا ، دھماکے ایک رکشے اور 5 موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

تفتیشی اداروں نے بم دھماکے میں استعمال اور تباہ ہونے والی مشتبہ موٹر سائیکل کے چیسز کے نمبروں کو جوڑ کر موٹر سائیکل کے مالک کا سراغ لگا لیا، موٹر سائیکل 1987 ماڈل کیCD70تھی، موٹر سائیکل کے مالک کا نام پرویز رحمان اور گلستان جوہر کا رہائشی ہے، تفتیشی پولیس نے جب گلستان جوہر میں واقع فلیٹ میں چھاپہ مارا تو معلوم ہوا کہ پرویز رحمان کا 6 ماہ قبل انتقال ہو چکا ہے، پرویز رحمان کے انتقال کے بعد موٹرسائیکل نوکر صابر کو دے دی تھی، صابر کی گرفتاری کے لیے قریبی گوٹھ میں چھاپہ مارا گیا، توصابر چھاپے سے قبل ہی فرار ہوگیا تھا اور اس کافون بھی بند ہے۔ پولیس صابر کی تلاش کے لیے مزید چھاپے مار رہی ہے۔

شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کےباوجود سی ٹی ڈی کے انسپکٹرراجا عمر خطاب دھماکا ہو نے کے بعد روایتی طور پر تاخیر سے پہنچتے ،راجا عمر خطاب کا کہنا ہے کہ موٹرسائیکل میں آئی ڈی پلانٹ کی گئی تھی ، گشت پر معمور پولیس موبائل کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ، بولٹن مارکیٹ اور صد بم دھماکے میں مماثلت پائی جا تی ہے، دھماکے میں بال بئیرنگ کا استعمال کیا گیا ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جو دھماکے کے روز پیر کی شام کو چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کے ہمراہ متحدہ عرب امارات کے حکم ران کے انتقال پر تعزیت کے لیے ابوظبی گئے ہو گئے تھے ، دھماکے کی اطلاع ملنے پر فوری نوٹس لے کرآئی جی سندھ کو فون کرکے فوری تفیصلی رپورٹ طلب کی اور بعد ازاں دورہ مختصر کر کے رات گئےپولیس افسران کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔

اجلاس میں ایڈیشنل آنی جی کراچی غلام نبی میمن اور ایڈیشنل آنی جی اسپیشل برانچ جاوید اوڈھو ،ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی عمران یعقوب بھی شریک ہوئے، اس موقع پر وزیر اعلیٰ پولیس افسران پر سخت برہم ہو گئے، انھوں نے کہا کہ پولیس کیا کر رہی ہے - مجھے ٹھوس نتیجہ چاہیے، اگر آپ پرفارم نہیں کر سکے تو سخت ایکشن لوں گا، وزیر اعلیٰ نے سختی سے کہا کہ یہ مسلسل تیسرا واقعہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد متحرک ہو رہے ہیں ، انھوں نےکہا کہ پولیس اور انٹیلیجنس ادارے اپنا کام تیز کریں، میں شہر اور شہریوں کو کسی صورت یرغمال ہونے نہیں دوں گا۔ اس شہر کے امن کے لیے ہم سب نے قیمت چکائی ہے۔

وزیر اعلیٰ نےدو ٹوک اندازمیں پولیس افسران کو ہدایت کی ہے کہ مجھے ہرصورت دہشت گرد سلاخوں کے پیچھے چا ہیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے سخت ایکشن کے فوری بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے کراچی بھر کے پولیس افسران کا اہم اجلاس طلب کرلیا،جس میں تمام ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز، ایس پیز، ایس ڈی پی اوز اور کراچی کے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوزنے شرکت کی۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے کراچی میں ہونے والے حالیہ بم دھماکوں اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی نے شہر کے تمام پولیس افسران کو ہدایت کی ہے کہ کراچی کے جس علاقے میں بال بیئرنگ اور کیمیکل کی فروخت ہوتی ہو، ان دکانوں کا ریکارڈ چیک کریں، اور ان کی نگرانی کریں، اجلاس میں ڈی آئی جی سی آئی اے سمیت ٹریفک پولیس کے افسران نے بھی شرکت کی ، انھوں نےکہا کہ کراچی پولیس انٹیلیجنس نظام کو بہتر کرے ۔ انھوں نے افسران سے کہا کہ انفارمیشن کے نظام کو بہتر بنائیں، اور اگر سنگین جرائم سے متعلق کوئی انفارمر دُرست خبر دیتا ہے، تو میرے سرکاری اکاؤنٹ فنڈز موجود ہیں،جتنی رقم کی ضرورت ہو میں دوں گا، لیکن انفارمیشن دُرست ہونی چاہیے، اجلاس میں انھوں نےکراچی بھر میں غیر قانونی پارکنگ کے خلاف بھی بھر پور کارروائی کا حکم دیا ہے۔

کراچی پو لیس سے کالی بھیڑوں کا صاف کرنے کا عزم رکھنےوالےایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے نااہل، بد عنوان اور اختیارات سے تجاوز کر نے والے تھانے داروں کےخلاف ڈنڈا اٹھا ہی لیا۔ 3 ایس ایچ اوز کو عہدے سے سے ہٹا کر ہیڈ کواٹر بی کمپنی میں بھیج دیا گیا ،جن میں ایس ایچ او بلال کالونی نواز بروہی ایس ایچ او اتحاد ٹاؤن ایاز خان،ایس ایچ او جیکسن ارشد جنجوعہ شامل ہیں ،پولیس ذرائع کے مطابق دیگر ایس ایچ اوز کے تبادلےبھی متوقع ہیں ، یادر ہے کہ کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے ایس ایچ او زمان ٹاون صفدر مشوانی کو بد عنوانی اور اختیارات سے تجاوز کر نے پر پہلےہی معطل کردیا تھا۔

کراچی کے شہری جو پہلے ہی اسٹریٹ کرمنلز اورڈاکوؤں کے رحم و کرم تھے ، اب خطرناک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے دعوے داروں کو اب عملی ثبوت دیتے ہوئےدہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لا نا،ناگزیر ہو چکا ہے ۔ شہر کےامن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے صرف سیکیورٹی ادارے ہی نہیں، بلکہ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرناہو گا، جس کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کی اس وقت اشدضرورت ہے،جس میں سب سے ا ہم کردار تاجر برادری و میڈیا ادا کرسکتی ہے۔

ہر تھانے کے ایس ایچ اوز کو تھانوں میں بنائے گے جدید آرائشی ٹھنڈے ریسٹ رومز سے باہر نکلناہو گا اور اپنی حدود میں واقع مارکیٹوں، اسکولز مساجد انتظامیہ سے بہتر روابط قائم کرکے پولیس بہت اہم معلومات حا صل کر سکتی ہے ، کیوں کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات سے لگتا ہے کہ دہشت گردوں کا ہدف مارکیٹیں اور پُر ہجوم مقامات ہیں، جس کے سد باب مشتر کہ جدوجہد وقت کا تقاضاہے۔

تازہ اطلاع یہ ہے کہ ترجمان سی ٹی ڈی سندھ کے مطابق کالعدم سندھ ریولویشن آرمی کے ہلاک دھشت گردوں کا تعلق ضلع تھر پار کر کے گاؤں جیسی جو پارتعلقہ چھاچرو سے ہے۔ مزید گرفتاریوں کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دے کر کراچی و اندرون سندہ روانہ کر دی گئیں ہیں، ہلاک دھشت گردوں کے متعلق دیگر تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔