دروازے کھلے رکھیں

May 26, 2022

فکرفردا…راجہ اکبر داد خان
تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے حسب وعدہ25 مئی کو اپنے اسلام آبادمارچ کا اعلان کیا اور اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ مذکورہ تاریخ کو سرینگرہائی وے پرن کااستقبال کرینگے۔ شاہراہ کشمیر اسلام آباد کے مرکز میں سے گزرتی ایک طویل دورویہ سڑک ہے جس پر کوئی ایسا نقطہ نہیں ہے جہاں معقول سطح کا ہجوم ایک جگہ جمع ہو سکے۔ عمران خان نے جس طریقہ سےحکومت کو انگیج کیا ہے اور جہاںان کے پاس بہت کم آپشنز ہیں ثابت کرتا ہے کہ سابق وزیراعظم نے اپنے دورانیہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور آج وہ زیادہ بہتر سیاستدان بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت پچھلے کئی ہفتوں سے لانگ مارچ کا تذکرہ کرتی چلی آرہی تھی اور جب لوگوں کاہجوم کچھ کرنے پر آجاتا ہے تو اسے روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس تجربہ کار حکومت کو خود آگے بڑھ کر پی ٹی آئی سے روابط قائم کرلینے چاہئے تھے تاکہ مارچ کے حوا لے سے اکثر امور پر اتفاق پیدا ہوتا اور مارچ ہینڈلنگ میں آسانیاں ر ہتی۔ حکومت کے اندر مرکزیت کا فقدان بھی ہے اور ایک پرہجوم حکومت کیلئے اہم امور پر ڈیلیور کرنا مشکل بھی ہو رہا ہے۔ کوئی بھی14جماعتی حکومت کسی بھی معاشرہ میں توقعات پر پوری نہیں اتر پاتی اور یہاں بھی یہی حال ہے۔مرکزی اسلام آباد تک لوگوں کی رسائی مختلف کینٹنر لگا کر محدود کر دی گئی ہے ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ پوری پی ڈی ایم حکومت مشینری کے ماتحت ہر طرف سے سابق وزیراعظم پر حملہ آور ہو رہی ہے اور دوسری طرف پی ٹی آئی قیادت حکومت کو اپنے اقدامات کے ذریعہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ آئیں بات چیت کے ذریعہ احتجاج سے جڑے انتظامی معاملات طے کرلیں لیکن حکومت مست ہاتھی کی طرح ان پیغامات پر توجہ نہیں دے رہی۔ حکومت کے پاس نہ ہی معقول بیانیہ ہے اور نہ ہی وہ کسی لحاظ سے اپرمارل گرائونڈ حاصل کر سکی ہے۔ جبکہ آج کی حزب اختلاف اپنے مقاصد کے حصول کیلئے فوکسٹڈ بھی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد کیلئے اپرمارل گرائونڈ پر بیٹھی ہے جہاں اسے ریاستی تشدد اور جبر کا سامنا ہے۔اگر مقتدرہ کی بھی یہ رائے ہے کہ پہلے معیشت کو سنبھال لیا جائے جسکے لئے کم و بیش دو سال کا وقت درکار ہوگا تو اس پراجیکٹ کو آگے بڑھانے کیلئے ایک عبوری حکومت کو آن بورڈ کر لیا جائے جو معیشت درست کر دے اور گھر چلی جائے۔ مختصر مدت کی حکومتیں اپنے لوگوں کو فائدہ دینے کیلئے عدالتی وینڈل ازم کرتی ہیں اور ایسے اقدامات کو روکنا اعلیٰ عدالتی احکامات ہیں۔ نئے انتخابات پر قوم بٹ چکی ہے ایک طرف14جماعتی اتحاد ہے جو الیکشن نہیں چاہتا اور دوسری طرف پی ٹی آئی اور خاموش اکثریت ہے جو چاہتی ہے کہ جلد انتخابات ہو جائیں تاکہ ملک کسی طرف لگ سکے۔ ہمارا کام صرف یہی نہیں ہے کہ آئے دن قومی سطح کے احتجاج منظم کرتے رہیں۔ کسی نے اس ملک کو سنبھالنا ہے اور آگے بڑھانا ہے۔ حکومت نے ملک کے دوسرے حصوں سے آنیوالے بیشتر راستے رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیئے ہیں اور اسلام آباد کے گرد ایک حفاظتی حصار کھڑی کر دی ہے۔ پی ٹی آئی کے ملک بھر سے قافلوں کو مخصوص مقامات پر روکاجارہا ہے۔ حکومت کو پی ٹی آئی قیادت کو جلسہ گاہ تک پہنچنے کی اجازت دینا ہوگی ورنہ حکومت اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرے گی۔ ملک کے کئی حصوں میں پی ٹی آئی قائدین کی گرفتاریوں کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور کئی درجن گرفتاریوں کی گئی ہیں۔ حکومت اس مشکل صورتحال کے پیش نظر کئی آپشنز پر غور کر رہی ہے اور یہاں سب سے اہم آپشن جو ہمہ وقت پیش نظر رہنا چاہئے کہ پولیس کے اقدامات کے نتیجے میں مظاہرین پر تسددنہ کیا جائے اور میں آنسو گیس کے بے تحاشہ استعمال کو پرتشدد اقدامات تصور کرتا ہوں۔ خان صاحب کا ہجوم اگر پرامن انداز میں بیٹھ کر اپنے قائدین کے خطابات سننا پسند کرتا ہے تو جذبات اور ناراضگی کے اس ٹنڈر باکس سے چھیڑ خانی درست قدم نہ ہوگا۔ حکومت کو گرفتاریاں کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے ٹکرائو اور لڑائی جھگڑے کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور دنگا فساد کرنے میں ہر کسی کا نقصان ہے۔ سیاسی زعماء اور ملک کے اہم لوگ ان حالات میں گفت و شنید کیلئے توقع ہے کہ میدان عمل میں اتر چکے ہوں گے۔ خان صاحب نے فراخدلی سے الیکشن اعلان کے ساتھ یہ شرط عائد نہیں کی کہ آئندہ انتخابات کس وقت تک ہو جانے چاہیں؟ انہوں نے اس معاملہ پر گفت و شنید کیلئے دروازہ کھلا رکھا ہے جو ایک مصالحانہ رویہ کی نشانی ہے۔ تمام معاملات بالاخر بات چیت پر اختتام پذیر ہوتے ہیں اور یہاں بھی معاملات اسی طرح اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ انتخابات پر اتفاق رائے پیدا ہو جانے کو نہ ہی کسی کی جیت تصور کیا جائے اور نہ ہی ہار۔ مومنٹم پی ٹی آئی کے پاس ہے اور نہ ہی بقیہ پارلیمنٹ کی عمر بہت زیادہ ہے کہ حکومت بہت زیادہ فائدہ اٹھا لے گی۔ اگر اگلے چھ ماہ میں انتخابات ہو جاتے ہیں تو یہ اچھا فیصلہ ہوگا۔ یہی دعا ہے کہ مارچ کے معاملات اچھے طریقے سے نمٹ جائیں اور ہر کوئی اطمینان بھرے انداز میں اپنی زندگی میں واپس لوٹ جائے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔