سیاست دان عقل سے کام لیں

May 27, 2022

تحریر:خواجہ محمد سلیمان .....برمنگھم
پااکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھااس کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں اور مقصد یہ تھا کہ یہاں پر ایک ایسی ریاست بنے گی جس میں اسلامی تعلیم کے مطابق معاملات حل ہوں گے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اس ملک کے لئے سب زیادہ قربانیاں غریب مسلمانوں نے دی تھیں اس لئے کہ انگریز کے دور غلامی میں ان کے حقوق برائے نام تھے مراعات یافتہ طبقہ انگریزوں کے دور حکومت میں بھی عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتا تھا اور آج بھی یہی صورت حال ہے جب بھی پاکستان کے اندر کسی سیاست دان نے غریب عوام کی بہتری کے لئے نعرہ لگایا تو عوام نے ایسے لیڈر کا ساتھ دیا لیکن اقتدار جب مل جاتا ہے تو یہی لیڈر عوام کو بھول جاتے ہیں اور اپنے مفادات کو ہی مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں اپناتے ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں ۔اس وقت پاکستان کی صورت حال دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی اس وطن کے لئے فکر مند ہے کیونکہ سیاست دانوں نے معاشرے میں عدم برداشت کی یہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے کسی کی بھی اس ملک میں عزت محفوظ نہیں ہے ایسا پتا چلتا ہے کہ یہاں دشمنی ہی دشمنی ہے حالانکہ اسلام تو بھائی چارے کا درس دیتا ہے پاکستان کے دشمن اس سارے سیاسی کھیل کوکر دیکھ کر خوشیاں منا رہے ہیں کہ پاکستان تباہی کی طرف خود جارہا ہے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پاکستان جب ایٹمی قوت بنا تو ساری امت مسلمہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ آخر مسلم ممالک میں سے ایک ایسا ملک تو ہے جو دفاعی طور پر ایک مضبوط ملک ہے جو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اسی طرح پاکستان کی افواج بھی دنیا کی بہترین تربیت یافتہ آرمی ہے جو کسی بھی جارحانہ صورت حا ل کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں ان کو پاکستانی عوام کی حمایت حاصل ہے کسی کو زیادہ ہے کسی کو کم اب ان پارٹیوں کے لیڈروں کو چاہئے کہ وہ مل بیٹھ کر اس ملک کی بہتری کے لئے سوچیں اگر اسی طرح وہ ایک دوسرے کے ساتھ دست گریباں رہے تو یہ ملک تباہ و برباد ہوجائے گا۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے آپس میں اقتدار کیلئے لڑتے تھے لیکن انہوں نے شاید اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کر لیا ہے اب ان کا مقابلہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ہے ملک کی بہتری تو اسی میں ہے کہ سارے سیاست دان مل بیٹھ کر ایسا پروگرام طے کریں جس سے ملک کے معاشی حالات ٹھیک ہوں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے دشمنی بڑھے گی جس کا کسی کو بھی فائدہ نہیں۔ اسلامی اصولوں کے مطابق اس ملک کو اگر چلایا جائے تو سارے معاملات درست ہو سکتے ہیں موجودہ سیاسی دشمنی بھائی چارے میں بد ل سکتی ہے اقتدار کا نشہ تو ہے لیکن ہر حکمران کو سوچنا چاہئے کہ ایک دن اس نے اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینا ہے اس زندگی میں تو انسان انسانوں کو دھوکہ دے سکتا ہے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر سکتا ہے لیکن آخرت میں ایک ایسی عدالت ہے جس میں اعمال سچ کی بنیاد پر تولے جائیں گے وہاں پر تو ان حکمرانوں کی کوئی مدد نہیں کرے گا اس دن ہر آدمی کو اپنی فکر ہوگی اگر کوئی عوامی خدمت کے جذبے سے اقتدار حاصل کرتا ہے اور وہ نیک نیتی سے حکمرانی کے فرائض انجام دیتا ہے تو اس کیلئے دوہرا اجر ہے لیکن جو کرپشن کرکے مال ودولت اکھٹی کرتا ہے اس کا انجام بڑا برا ہے اب بھی وقت ہے کہ سارے سیاست دان عقل سے کام لیں موجودہ حالات میںجو اقتدار میں بیٹھے ہیں اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ سب اپنی زبانوں کو لگام دیں اور اس سیاسی دشمنی کو ملک وقوم کی بہتری کیلئے دوستی میں بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو کم از کم تنقید کو تہذیب کے دائرے میں تو ضرور رکھیں کیونکہ الفاظ اثر رکھتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں ہی نے عام عوام کی تربیت کرنا ہوتی ہے اگر دشمنی پھیلائی گئی تو یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں اگر آج پی ٹی آئی اور عمران خان احتجاج کرکے موجودہ حکومت کو ناکام کر سکتے ہیں تو کل کوئی اور لیڈر ان کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے جمہوریت نے ایک طریقہ سکھایا ہے کہ جس کو عوام اقتدار سونپے حکمرانی کا حق اس کا ہے اور ہر حکمران عوام کے آگے جواب دہ ہے اگر اس فارمولے کو سب صدق دل سے مان لیں تو نئے الیکشن ہی موجودہ صورت حال کا حل ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو ہارنے والا کب اپنی ہار مناتا ہے پھر دھندلی کا شور مچا کر نئی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ اصل میں ہمارے سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کے اند ر جمہوریت کی روح موجود نہیں جب تک وہ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک شاید پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا۔