بیوہ ماں کے سوتیلے بچے اور…

May 28, 2022

عنوان میں ایک لفظ حذف کر دیا ہے۔ ایک ہندی نژاد لفظ استعمال کئے بنا بات نہیں بن رہی تھی اور اخبار اس لفظ کی اشاعت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اودھ کی تہذیب مٹ چکی۔ اب تو شاید کلکتہ میں دریائے ہگلی کے بائیں کنارے پر مٹیا برج کے آثار بھی کھنڈر ہو چکے ہوں گے۔ ایسے میں لکھنؤ کے محاورے کون سمجھے گا۔ کندہ ناتراش اکثریت کے جبر تلے سانس کا تاوان ادا کرنے والے کس کس کو وضاحت دیتے پھریں گے۔ بہتر ہو گا کہ ماموں کے گھر میں پلنے والے بیوہ ماں کے بچوں کی بپتا کے دو واقعات لکھ دیے جائیں۔ جوش کی خود نوشت ’یادوں کی بارات‘ ہم سب نے پڑھ رکھی ہے۔ ایک گزری ہوئی تہذیب کا مرقع ہے جس میں جوش نے اپنے قریبی اعزا اور احباب کے خاکے بھی شامل کر رکھے ہیں۔ ابرار حسن خان ان کی بیوہ پھوپھی کے صاحبزادے تھے۔ جوش کے والد نے اپنے دونوں بیٹوں اور ابرار کو پانچ سو روپے فی کس دیے کہ جڑاول (موسم سرما کی قیمتی پوشاک) بنوا لیں۔ ابرار نے کہا کہ پانچ سو روپے کم پڑ جائیں گے۔ جوش کے والد نواب بشیر نے پوچھا کہ جوش اور رئیس نے مزید رقم نہیں مانگی، تمہاری جڑاول اتنے روپوں میں کیوں نہیں بن سکتی؟ آنکھ میں آنسو بھر کر بولے، ’ماموں، وہ آپ کے بیٹے ہیں۔ انہیں ضرورت پڑے گی تو آپ سے تقاضا کر لیں گے۔ میں یتیم ہوں، مجھے ہمت نہیں ہو گی۔‘ پنجاب یونیورسٹی کے پرانے طالب علموں میں سے کون ہے جو پروفیسر حمید احمد خان کے لیے احترام کے جذبات نہ رکھتا ہو۔ پروفیسر صاحب علم، وقار اور وضع داری کا امتزاج تھے۔ سنجیدہ موضوعات پر ان جیسی مصفا اردو نثر شاید ہی کسی نے لکھی ہو۔ مولانا ظفر علی خان کے سوتیلے برادر خورد تھے اور مولانا کے صاحبزادے اختر علی خان کے ہم عمر۔ ایک دفعہ فرمایا کہ بچپن میں اختر کو ناشتے میں پراٹھا ملتا تھا اور مجھے سوکھی چپاتی۔ مولانا اختر علی خان اردو صحافت میں نالائقی اور بددیانتی کے ابتدائی نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہماری ثقافت میں بن باپ کے بچے کی محرومی اور پھر اس چٹان کو کاٹ کر برآمد ہونے والے تراشیدہ لعل و گوہر کی ان گنت کہانیاں ملتی ہیں۔ گھریلو نظام کی ستیزہ کاریوں کا تجزیہ مقصود نہیں، کہنا یہ ہے کہ سیاست دان نے اس ملک میں اختیار کی میزان میں ناانصافی، جبر اور سازش کے پہاڑوں سے سر پھوڑتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ واضح رہے کہ سیاست دان اسے کہتے ہیں جو قوم کے مفاد کو اپنی ذات پر مقدم رکھتا ہے۔ خلق خدا کی بہتری سوچتا ہے۔ ملک کی ترقی اور استحکام کی فکر کرتا ہے۔ منصب کو امانت اور ذمہ داری سمجھتا ہے۔ سیاست دان اسے نہیں کہتے جس کے بارے میں حبیب جالب نے لکھا تھا۔ ’آدمی ہے وہ بڑا، در پہ جو رہے پڑا‘۔ اب تو خیر ایسا زمانہ آن لگا ہے کہ در پر پڑے رہنے والے محل سرا کی چوکھٹ کا نمبر بتانے میں بھی عار نہیں سمجھتے۔ سادہ اصول یہ ہے کہ کسی طبقے، شعبے یا گروہ کی قدر پیمائی اس کے بہترین نمونوں سے کی جاتی ہے، بدترین سے نہیں۔

روز اول ہی سے ہماری سیاسی روایت کمزور تھی۔ بابائے قوم بمبئی کی تعلیم یافتہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں متحدہ ہندوستان کی مسلم سیاست میں استثنیٰ سمجھنا چاہیے۔ لیاقت علی خان تعلقہ دار تھے۔ خوبیاں بہت تھیں، خامیوں سے خالی نہیں تھے لیکن قوم کے لیے خون بہانے کا عہد کیا تھا۔ اپنی بات پر پورے اترے۔ باچا خان آزادی کے مجاہد تھے، سو غدار ٹھہرے اور آزادی کے بعد اٹھارہ برس قید یا نظربندی میں گزارے۔ افتخار الدین کو ابتدا ہی میں نشان زد کر دیا گیا تھا۔ سہروردی نے پاکستان میں گالی سنی۔ پتھر کھانے کی سنت تازہ کی اور چھ برس جرم بے گناہی میں قید رہے۔ عبدالرب نشتر شملہ مذاکرات میں مسلم لیگ کے تین رکنی وفد کا حصہ تھے۔ عمر عزیز کے آخری برس سیاسی تنہائی میں گزر گئے۔ قرارداد پاکستان پیش کرنے والے فضل الحق پر غداری کی تہمت دھری گئی۔ گوادر کے آج کل بہت چرچے ہیں۔ صاحب لوگ جائیداد املاک کا حساب خوب سمجھتے ہیں۔ شنید ہے کہ بلوچستان کے جنوبی ساحلوں پر بہت سی زمینیں خرید لی ہیں۔ ستمبر 1958ء میں گوادر کی بندرگاہ خرید کر پاکستان کا حصہ بنانے والے وزیراعظم فیروز خان نون کا نام تک کسی کو یاد نہیں۔ آمریت کا مقابلہ کرنے والی فاطمہ جناح کے ساتھ ہماری بدسلوکی تاریخ کا حصہ ہے۔ شکست خوردہ پاکستان کی کرچیاں جوڑ کر سرزمین بے آئین کو دستور دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہماری سیاست کا خلاصہ بیان کرتا ہے۔ پچھلے دنوں مریم نواز نے اڈیالہ جیل کی آزمائش کے کچھ اشارے دیے تو مجھے سکھر جیل میں بینظیر بھٹو کی نظربندی یاد آئی۔ حسن ناصر، نذیر عباسی اور حمید بلوچ کا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں۔ غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، شیر محمد مری، گل خان نصیر اور اکبر بگٹی کی کہانیا ں کس نصاب کا حصہ بنیں گی۔ 21 فروری 1952ء سے 4 اپریل 79ء تک ہماری تاریخ کے لہو آلود اوراق پر ایک ہی نام نظر آتا ہے، مسعود محمود۔ 4 جنوری 1965ء کو کراچی کے قتل عام سے اپریل 1993ء کی سازشوں تک روئیداد خان کا نام آتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے شکوہ کناں ہجوم کو شعیب محمد سے لے کر حفیظ شیخ تک ایک طویل فہرست یاد دلانا ہو گی جو قوم کی دست نگری اور عوام کی فلاکت پر منتج ہوئی ہے۔ چور اور ڈاکو کے نعروں کی گردان اب ننگے دشنام تک جا پہنچی ہے۔ کسے بتائیں کہ سیاست دان قوم تعمیر کرتے ہیں۔ اپنے محسنوں کو گردن زدنی قرار دینے والوں کی تقدیر رات کی تاریکی میں بند در وازوں کے پیچھے طے پاتی ہے۔ پنجابی شاعری کا ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجئے۔ واللہ حالیہ واقعات سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

ساڈا بولے نہ وکیل وی چندرا

تے اوہدے ولوں جج بولدا

(ہمارا کم بخت وکیل بھی خاموش ہے اور فریق مخالف کی طرف سے جج دلیل پہ دلیل دے رہا ہے)