’’اگر غالب ہمارا نہیں ہے تو ہم اپنے ہی نہیں‘‘

June 15, 2022

اردو ادب میں افادیت کے سب سے پہلے علمبر دار حالی نے غالب کی موت پر زار زار رونے اور ہائے ہائے کرنے کے باوجود یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کا م بند ہیں ؟غالب کا نہایت عمدہ اور دلگداز مرثیہ لکھنے کے بعد جب حالی اس عقیدت کی عقلی بنیادیں تلاش کرنے لگے تو انھیں ’’غالب کی زندگی میں شاعر ی اور انشاپردازی کے سوا کوئی بڑا اور مفید کام نظر نہ آیا ‘‘۔ ’’یاد گارِ غالب ‘‘معذرت کے ساتھ پیش کی گئی اور اس کے ’’دیباچہ‘‘اور ’’خاتمہ ‘‘ میں بار بار اعتراف کرتے بنی کہ غالب کی ’’ ذات سے قوم کو کوئی براہ راست فائدہ نہیں پہنچا ‘‘ اور یہ کتاب (کہ ’’عقل کی صوابدید‘‘ کی بجائے ’’معتقد انہ جوشِ عصبیت ‘‘ اور ’’دوستوں کے تقاضوں‘‘سے وجود میں آئی ہے) ’’ان تصنیفات میں شمار نہیں ہوسکتی جن کی آج کل ملک میں ضرورت سمجھی جاتی ہے‘‘…یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بلادِ اسلامیہ ٔ ہند کو برطانوی ہند کے نام نامی سے منسوب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہواتھا مگر انگریزوں کے زیر اثرایک نو آبادیاتی ذہنیت تیزی سے تشکیل پارہی تھی۔

علم وادب کی دنیا میں اس ذہنیت نے پہلے پہل حالی اور ان کے پاسبان عقل سرسیّد کے ہاں ظہور پایا ۔ حالی کی ابتدائی تربیت تہذیبِ فن کے قدیم اصولوں پر ہوئی تھی۔ اس لیے پہلی نظر میں تو انھیں غالب کی شاعری سرمایۂ افتخار نظر آئی اور زندگی مر قعِ عبرت۔ مگر بے تہ عقلیت پسندی اور سطحی افادیت پرستی کے نئے معیاروں کی روشنی میں جب انھوں نے زندگی اور فن پر دوسری نظرڈالی تو ’’یادگارِغالب ‘‘کی افادیت کے بارے میں تذبذب میں پڑگئے …جب سے لے کر اب تک ہم گومگوکی اس کیفیت سے نجات نہیں پاسکے ۔

یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہنوز نو آبادیاتی طرزِ فکر واحساس کی آبیاری میں مشغول دانشوروں کو غالب کی فنی عظمت کا اعتراف ہے مگر غالب کو اپنا شاعر کہنے میں تامل ہے۔ حالانکہ غالب کا عالم گیر قدوقامت اپنے مخصوص تہذیبی گردو پیش سے زندہ تعلق اور دلیرانہ تصادم ہی کا عطیہ ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے لفظوں میں ’’اگر غالب ہمارا نہیں ہے تو ہم اپنے ہی نہیں‘‘۔ اس لیے کہ غالب کے بغیر ہماری فکری تاریخ کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور ہماری تہذیبی معنویت خطرے میں پڑجاتی ہے۔

غالب ہماری فکری اور تہذیبی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر نمودار ہوئے جب ہمارے ذہن میں قرون وسطیٰ کے دھند لکوں سے عہدِ جدید کی روشنیوں کی طرف قدم بڑھانے کی کشمکش برپاتھی۔ تاریخی اور تہذیبی ماحول کی نسبت سے غالب کے فنی اور فکری نشو ونما کا خیال کرتا ہوں تو مجھے غالب کے کارنامۂ فن اور ان کے ہم عصر علمائے دین کی اصلاحی اور انقلابی جدو جہد میں ایک خاص ربط نظر آتا ہے۔

اس اعتبار سے غالب کی شاعری اس عہد کے ہندی مسلمان کے اجتماعی دینی اور سیاسی فکر وعمل کا فنی اور جمالیاتی تکملہ ہے بے شک غالب طبقۂ امراء میں سے تھے ۔ان کی زندگی کے مادی آدرش ہمیشہ طبقۂ امراء ہی سے وابستہ رہے اور عملی جدوجہد انگریزوں، ابوظفر بہادر شاہ اور نوابان رامپور سے ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ تک محدود رہی لیکن یہ ان کی زندگی کا محض خارجی رخ ہے۔ غالب کی اندرونی زندگی کی شادابی اور شاعرانہ شخصیت کی توانائی اور دلکشی کا سر چشمہ علمائے حق کی تحریکِ اصلاح و جہاد میں ہے ۔

مولانا حالی کا کہنا ہے کہ غالب ’’احکامِ ظاہری کے بہت کم پابند تھے لیکن مسلمانوں کی ذلت کی کوئی بات سن پاتے تھے تو ان کو سخت رنج ہوتا تھا ‘‘۔ جس زمانے میں غالب تعلیم وتربیت کے ابتدائی مراحل میں تھے ہندی مسلمانوں کا سیاسی اور اخلاقی زوال اپنے آخری مراحل میں تھا ۔ غالب کی ذاتی زندگی میں خاندانی وقار کو برقرار رکھنے کی عملی کوششیں بھی پے در پے پسپائیوں اور ذلتوں سے دو چار ہوتی رہیں۔ ذاتی اور اجتماعی ذلت کا یہ احساس ہی غالب کے ہاں شاعرانہ تجسس اور فکری تشکیک کے امکانات روشن کرتا ہے:

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں

غالب کو جہاں اپنی خاندانی عظمت پر ناز تھا وہاں یہ احساس بھی تھا کہ ’’اس بلندی کے نصیبوں میںہے پستی ایک دن‘‘ ۔ ان کے بزرگ مغلوں ، مرہٹوں، سکھوں اور انگریزوں میں سے ہر ایک کے ساتھ تھوڑی دور چلنے اور ان میں سے کسی ایسے رہبر کو پہنچاننے میں کوشاں تھے جو ان کی جاہ وحشمت کو برقرار رکھ سکے مگر غالب کی تیز نگاہوں کے سامنے زمین سے آسمان تک سوختن کا باب (۱)تھا۔ پیشۂ آباسپہ گری تھا مگر غالب تک پہنچتے پہنچتے تلوار ٹوٹ چکی تھی۔

غالب کا اپنا پیرایۂ بیان مستعار لیا جائے تو غالب نے اپنے آباؤ اجداد کی ٹوٹی ہوئی تلوارکو قلم بنالیا اور سیاسی انتشار اور تمدنی زوال کے سامنے سینہ سپرہوگئے ۔ ابتدائی دور میں غالب کا متاخرین شعرائے فارسی اور خصوصاً بیدل کی طرف متوجہ ہونا مشکل پسندی کی وجہ سے ہے ،نہ کجروی کی بنا پر ، بلکہ بیدل کے محرکاتِ شعری اور غالب کی اندرونی زندگی کے مطالبات میں ایک گونہ مماثلت کے باعث ہے۔

بقول ڈاکٹر خورشیدالاسلام ’’بیدل زوال کو روکنے کی کوشش میں سر گرم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا مقصد مسلمانوں کی حکومت کو برقرار رکھنا اور وہ ان جماعتوں کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں جو مغلوں کی حکومت میں رخنہ پیدا کررہی ہے ‘‘ … چونکہ غالب زوال کو سمجھنے اور روکنے کے جذبے سے متاخرین شعرا ئے فارسی کی طرف متوجہ ہوئے تھے اس لیے غالب نے ان شعراء سے فنی اکتساب پر ہی قناعت نہ کی بلکہ مذہب وتصوف میں اصلاح وتجدید کی ان سرگرمیوں سے بھی تخلیقی روابط قائم رکھے جن کا مقصد ہندی مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی زوال کو روکنا اور اسلام کی اصل اور قدرتی سادگی کو ازسرِ نو دریافت اور رائج کرنا تھا ۔

جس ادبی فضا میں غالب نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس میں تقلید پرستی اور بے عملی کا دور دورہ تھا۔ وہ لسانی تحریک اپنے عروج پر تھی جس کے زیر اثرمناسب لفظی اور متعلقاتِ شعری کافر سودہ نظام ہنوز پسندِ خاص وعام تھا اور زبان وبیان کے پیش پا افتادہ سانچوں میں خیالی او رمثالی زندگی کی عکاسی کا رجحان پنپ رہا تھا۔

غزل کا معشوق قرونِ وسطیٰ کے ناک نقشے کے ساتھ جلوہ گر تھا اور اس کے مثالی عاشقٔ ذاتی تجرباتِ محبت کے بجائے طبقۂ امراء کے قائم کردہ سکہ بند تجربات کی ترجمانی میں مبالغہ آرائی اور محاورہ بندی کے جوہر دکھارہے تھا۔ سادگیِٔ بیان اور روز مرہ سے محبت کے باعث جو مقامی رنگ رواج پارہا تھا وہ ان روایات کو کمزور کررہا تھا جو اُردو شاعری کو ہندوستان سے باہر کے مسلمانوں کے ادب سے ہم رشتہ کرتی تھیں۔

آغازِ کار میں ہی غالب نے اس تحریک کے ساتھ چلنے سے انکار کردیا ۔ وہ قافیہ پیمائی کی بجائے معنی آفرینی پر ناز کرتے ہیں ۔ خالص لسانی اعتبار سے ان کی شاعری کا رُخ روز مرّہ ، محاورے اور مقامی رنگ کی بجائے بدنامِ زمانہ مشکل پسندی کی طرف ہے ۔ غالب کا یہ رُجحان سیاسی اور تمدنی انتشار کے زمانے میں اپنی تہذیبی روایات سے وابستہ رہنے کی ایک غیرشعوری کوشش ہے۔ اسی طرح فارسی زبان سے مستعار یا مکتسبِ امیجری اور علائم ور موز باہر کی اسلامی دنیا سے فنی اور جمالیاتی یک جہتی کی مثبت خواہش کے غماز ہیں۔ لسانی پہلو سے قطع نظر ، فکری اعتبار سے بھی غالب کی شاعری رہ و رسمِ زمانہ کی پیروی سے آزاد ہے۔ وہ مستند اور سکہ بند کیفیات حسن و عشق کی بجائے ذاتی اور منفرد تجرباتِ محبت کے ترجمان ہیں۔ بقول ڈاکٹر خورشید الاسلام :

غالب عشق کے طوفان میں بھی اپنے حواس بر قرار رکھتے ہیں اور یہ نہیں بھول جاتے کہ ان کے چاروں طرف وسیع دنیا پھیلی ہوئی ہے۔ پرواز میں بھی ان کی آنکھ نشیمن پر رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے اشعار میں ہم عاشق سے زیادہ ایک باعمل انسان کی تصویر دیکھتے ہیں ۔‘‘

نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا

گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلیٰ نہ سہی

……٭٭……٭٭……

عالم تمام وحشتِ مجنوں ہے سربسر

کب تک خیالِ طرۂ لیلیٰ کرے کوئی

جذبۂ عشق شخصیت کو حیرت انگیز وسعت او ر توانائی بخشتا ہے اور عاشق کو کائنات اور انسان کے ظاہر وباطن کی تسخیرسے بے پنا ہ امکانات سے دو چار کرتا ہے:

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا مگر بہ تنگیٔ چشمِ حسود تھا

……٭٭……٭٭……

رسمیاتِ عشق پر ہی موقوف نہیں بلکہ سماجی اقدارسے لے کر مذہبی اور صوفیانہ تصورات تک زندگی کا ہر شعبہ غالب کے شاعرانہ استدلال اور فلسفیانہ تشکیک کی زد میں آجاتا ہے :

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساغرِ جم سے میرا جامِ سفال اچھا ہے

……٭٭……٭٭……

کیا کیا خضر نے سکندر سے

اب کِسے رہنما کرے کوئی

……٭٭……٭٭……

غالب نے قرونِ وسطی کے جن تصورات کو رد کیا یا معرضِ شکست میں ڈالا، عہد ِجدید کے آغاز میں ان تصورات کو منسوخ کرنے یا ان کی نئی تفسیر میں آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ اگر غالب جنابِ خضر کو طنز کا نشانہ نہ بناتے تو شاید سرسید احمد خاں ’’کیا خضر کا وجودفرضی ہے ‘‘؟ کے عنوان سے مضمون لکھنے کی جرأت نہ کرسکتے ! ۔ اگر غالب جنت اور دوزخ کے تصورات سے رندانہ شوخیاں نہ کرتے تو شاید اقبال کے لیے اپنے مشہور خطبات میں جنت اور دوزخ کے تصورات کی مادی حیثیت کو ضمنی اور فروعی قراردے کران کی علامتی اہمیت پر اظہار خیال کرنا اتنا آسان نہ ہوتا !:

چاک ’لا‘اندر گریبانِ جہاں افگندہ ایم

بے جہت بیروں خرام از پردۂ پندارِ ما

یہ محض شاعرانہ تعلّی نہیں۔ غالب نے جرأت رندانہ کے ساتھ ان فرسودہ اقدار کو رد کردیا ،جن کی تخریب عہدِ جدید کی تعمیر کے لیے لازم تھی ۔ اس اعتبار سے ہماری فنی اور جمالیاتی تاریخ میں غالب کی حیثیت اس پل کی سی ہے جو قرونِ وسطیٰ کوعہدِ جدید سے ملاتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں مجاز اور حقیقت کے جو صوفیانہ تصوّرات ہماری شاعری کا مابعد الطبیعاتی اور فکری پس منظر مہیا کرتے تھے اور جو غالب کے عہد میں زوال پسند انہ رجحانات کے زیر اثر تخلیقی معنویت کھو چکے تھے، غالب نے انھیں بھی نئی معنویت بخشی۔ غالب نے رومانی لطافت اور مادی کثافت کو یکجان کرکے دنیائے آب وگل پر نظر ڈالی تو ہر ذرہ ٔ خاک کو ساغرِ جلوۂ سرشار اور ہر پارۂ سنگ کو لختِ دل کوہِ طور پایا۔ غالب کے ہاں زندگی کی حرکت اور وفورِ جمال کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خورشید الاسلام لکھتے ہیں :

’’غالب جب خارجی اور مادی دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انھیں معنی سے لبریز دکھائی دیتی ہے۔ غالب اس معنی کو خدا کے نام سے پکارتے ہیں۔ غالب مادی دنیا میں خدا کو تلاش کرتے ہیں لیکن اس کی ذات میں خود کو بھلا نہیں دیتے۔ ان کی خواہش یہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کے کنارے دور تک پھیل جائیں۔ ان کا مقصد یہ نہیں کہ وہ اپنے اندر سمٹ جائیں بلکہ ان کی آرزو یہ ہے کہ انسان اپنے ممکن ذہنی اور روحانی قدو قامت کو پہنچ جائے۔‘‘

اور یوں حقیقت اور مجاز، ماورائیت اور مادیت ، ابدی اور عارضی کو یکجا کر کے غالب نے علمائے حق کی طرف سے مذہب و تصوف کو عملی زندگی سے ہم رشتہ کرنے کی جدوجہد کو تکمیل تک پہنچادیا ۔ غالب کے اس تہذیبی کارنامے کی داداقبال ہی دے سکتے تھے۔ شاید اسی لیے غالب کو اپنے عہد سے گلہ تھا :

کوئی نہیں ہے اب ایسا جہان میں غالب

جو جاگنے کو ملا دیوے آکے خواب کے ساتھ