جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں؟

June 24, 2022

تفہیم المسائل

سوال: جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں، اُس کی قربانی کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ مفتی نوراللہ بصیر پوری ؒ نے اپنے فتویٰ میں علامہ قاضی خان کے حوالے سے اس عیب کا قربانی سے مانع ہونا قرار نہیں دیا۔(محمد رمیز احمد، کراچی)

جواب: جس جانور کے پیدائشی طور پر دونوں یا ایک کان نہ ہوں یا جس جانور کا کان تہائی سے زائد کٹا ہوا ہو ،اُس کی قربانی جائز نہیں ہے۔

اَحادیثِ مبارکہ میں ہے:(۱) ترجمہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے کن کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے ،(سُنن ابو داؤد: 2805)‘‘۔ (۲)ترجمہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم خوب اچھی طرح قربانی کے جانو رکی آنکھوں اور دونوں کانوں کو دیکھ لیں اور ہم نہ تو اندھے جانور کی قربانی کریں اور نہ اُس جانور کی جس کے کان کا اگلا یا پچھلا حصہ (تہائی سے زائد)کٹا ہواہو، اور نہ ہی اُس جانور کی قربانی کریں ، جس کے کانوں کو چیرہ لگایاگیاہو،(سُنن ابو داؤد:2804)‘‘۔

جس جانور کے پیدائشی ایک یا دونوں کان نہ ہوں، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی قربانی اگرچہ جائز ہے، چنانچہ علامہ حسن بن منصور اوزجندی المعروف قاضی خان ؒنے امام اعظم ابوحنیفہؒ کاموقف اختیار فرمایا،آپ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جس بکری کے کان اوردُم پیدائشی طورپر نہ ہو،تو اس کی قربانی جائز ہے ۔حضرت امام ابومحمد رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ایسا (جانور ) نہیں ہوتا اور اگر ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں اور’’ مبسوط ‘‘میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ اس کی قربانی جائز ہے، (فتاویٰ قاضی خان ، جلد 3،ص:210)‘‘۔

لیکن امام محمد وامام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے جانور کی قربانی ناجائز ہے اور ہمارے مشایخ اَحناف نے کُتب متون وشروح میں عدمِ جواز کو اختیار فرمایا ہے اور اس مسئلے میں امام صاحب کا اختلاف انھوں نے نقل نہیں کیا:

(۱)شمس الأئمہ امام محمد بن احمد السرخسی مُتوفی 483ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ (امام محمد شیبانی نے) فرمایا: ایسی بکری جس کے پیدائشی دونوں کان نہ ہوں ، اس کی قربانی جائز نہیں ہے، ایسے جانور کو ’’سَکّاء ‘‘کہتے ہیں،اس لیے کہ جب کَن کٹا ہونا قربانی جائز ہونے سے مانع ہے ،پس اصلاًکان نہ ہونا بدرجۂ اَولیٰ قربانی کے جواز سے مانع ہوگا، (اَلْمَبْسُوط لِلسَّرَخَسِی، جلد12، ص:17)‘‘۔

(۲) علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی مُتوفی 587ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جس( جانور )کے کان کٹے ہوں اور چکتی نہ ہو ،اور جس کے پیدائشی کان نہ ہوں ، امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ سے اُس کے بارے میں سوال کیاگیا ، آپ نے فرمایا: کیا ایسا جانور ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے، توقربانی جائز نہیں اور چھوٹے کان والے جانور کی قربانی جائز ہے، ایک کان کامل کٹا ہواور جس کا پیدائشی ایک ہی کان ہو ، (اس کی قربانی ) ناجائز ہے ،(بدائع الصنائع ، جلد5،ص:75)‘‘۔

(۳)علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر فرغانی حنفی مُتوفی593ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جس جانور کا کان اور دُم کٹی ہو ، اس کی قربانی جائز نہیں ہے ،پس کان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’آنکھ اورکان کو بغور دیکھو ‘‘، یعنی اُس کے دونوں اعضا ء کی سلامتی طلب کرو،(ہدایہ ، جلد7،ص:165)‘‘۔ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ سَکّاء وہ ہے ،جس کا پیدائشی کان نہ ہو، اُس کی قربانی جائز نہیں ،اس لیے کہ جب کسی جانور کے کان کا اکثر (تہائی )حصہ کٹا ہو ،تو اس کی قربانی جائز نہیں ، پس جس کا کان ہی نہ ہو ، اُس کی قربانی بدرجۂ اَولیٰ جائز نہیں ہوگی ،(ہدایہ ، جلد7، ص:167)‘‘۔

(۴)علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اندھے اور بھینگے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، دونوں کان کٹے ہوں ، چکتی اور دُم بالکل نہ ہو ،اسی طرح جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں، اُن کی قربانی جائز نہیں ہے اور چھوٹے کان والے جانور کی قربانی جائز ہے، ایک کان کامل کٹا ہواور جس کا پیدائشی ایک ہی کان ہو ، (اس کی قربانی ) ناجائز ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد5، ص:297)‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ حاصل یہ ہے اور انصاف کی بات جسے طبیعتِ سلیمہ قبول کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں مفتی اُس قول پر فتوی دے گا، جسے مشایخ نے اختیار فرمایا اور علامہ ابن شلبی نے بھی اپنے فتاویٰ میں اسی کو اختیار فرمایا،( مَنحۃ الخالق ،جلد 6،ص:293)‘‘۔

امامِ اہلسنّت امام احمد رضاخان قادریؒ اس مسئلے پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جس جانور کی اصل پیدائش میں کان اور دُم نہ ہوں، امام اعظم ؒ کے نزدیک اُس کی قربانی جائز ہے اور امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناجائز اور معتمد قول امام اعظمؒ کا ہے۔ خانیہ میں ہے: ترجمہ:’’بکری کے اگر پیدائشی طور پر کان اور دم نہ ہوں تو جائز ہے اور امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایسا جانور نہیں ہوتا اگر ہو تو قربانی جائز نہیں ہے۔ اور مبسوط (اصل) میں امام ابوحنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ یہ جائز ہے، (فتاویٰ قاضی خاں، کتاب الاضحیۃ)۔

اسی طرح اجناس وخلاصہ وبزازیہ میں ہے۔ غالبا ًیہ ہے جس پر اشتہار میں اعتماد کیا اورواقع میں وہ قابل اعتماد نہ تھا۔اولا ً : متون وشروح نے عدم جواز پر جزم کیا اور قول خلاف کا نام تک نہ لیا، مختصر امام کرخی پھر غایۃ البیان علامہ اتقانی میں ہے :ترجمہ:’’ ہشام نے کہا :میں نے امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ سے ’’سَکّاء ‘‘کے متعلق سوال کیا اور یہ وہ ہے: جس کے پیدائشی طور پر سینگ نہ ہوں، تو انھوں نے فرمایا :جائز ہے اور اگر کان نہ ہوں ،تو ناجائز ہے ،یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے،( غایۃ البیان)۔ (جاری ہے)