شہرِ آشوب

June 29, 2022

جی۔ ایم اصغر

آشوب کے لغوی معنی ہیں ’’بربادی، بگاڑ، فتنہ و فساد‘‘۔ نوراللغات میں شہر آشوب کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :’’وہ نظم جس میں کسی شہر کی پریشانی، گردش آسمانی اور زمانے کی ناقدری کا ذکر ہو۔‘‘ فرہنگ آصفیہ میں شہر آشوب کے تین معنی ملتے ہیں:

1۔کسی شہر کی نسبت سے مدح یا ٭٭ذم کے اشعار۔2۔کسی شہر کے اُجڑنے یا برباد ہونے کا ماتم ۔3۔وہ شخص جو اپنے حُسن و جمال کے باعث آشوب بندہ شہر ہو ۔

سید عبداللہ ان تعریفوں سے مطمئن نہیں ۔وہ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں:’’مضمون کے لحاظ سے ابتدا میں شہر آشوب کی بنیادی صفت صرف اس قدر تھی کہ اس میں باشندگانِ شہر کے مختلف طبقات سے متعلق کسی آشوب انگیز اَمر کا ذکر ہجو،مرثیے یا نوحے کے انداز میں منظوم ہوتا تھا ۔‘‘

شہر آشوب کی شعری روایت مغربی ایشیا کے ممالک سے ہوتے ہوئےترکی اور فارسی کے ذریعے ہندوستان پہنچی۔ ترکی اور فارسی میں جب ابتدائی شہر آشوب لکھے گئے تو اس وقت ان کے مقاصد معمولی تھے۔ جاگیردارانہ ماحول کے زیر اَثر اس وقت کے شہر آشوب ناپسندیدہ اور جاگیردارانہ تعیش اور بدتہذیبی کی بنیاد پر محمول نظر آتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس وقت شہر آشوب کے نام پر ایک ایسی صنف کی تشکیل کی گئی جس کا اوّلین مقصد کسی پیشہ ور طبقے کا مذاق اُڑانا تھا ۔

اُردو کے ابتدائی شہر آشوبوں میں سماج کے محنت کش اور ہنر مند طبقات کو جو معاشرتی اور معاشی طور پر کمزور تھے بے جا طنز کا نشانہ بنایا گیا تاکہ اس دور کی اشرافیہ کے تفنّن طبع کا سامان مہیا کیا جاسکے۔غالباً اسی وجہ سے سید مسعود حسن رضوی ادیب نے اسے لطیفہ گوئی قرار دیا۔ لیکن شہر آشوب کے آخری دور میں زمانے کی بدحالی اور عمومی زوال کے مناظر بھی اس صنفِ اَدب میں شامل کیے گئے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ تھی کہ اس دور میں بادشاہت اور جاگیردارانہ نطام کے پرخچے اُڑنا شروع ہوگئے تھے۔ یہی وہ دور ہے جب اُردو میں بڑی کثرت سے شہر آشوب لکھے گئے۔

مرزا رفیع سودا اور میر تقی میر کے شہر آشوب میں عوام کی بے روزگاری، اقتصادی بدحالی اور دِلّی کی تباہی اور بربادی کا ذکر ہے ، اُردو کے یادگار شہر آشوب ہیں۔نظیر اکبر آبادی نے اپنے شہر آشوبوں میں آگرہ کی معاشی بدحالی، فوج کی حالت زار اور شرفا کی نا قدری کے خوب صورت مرقع پیش کیے۔1857ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد دِلّی پر جو قیامت ٹوٹی اسے بھی دَبستانِ دہلی کے شعرا نے اپنا موضوعِ سخن بنایا۔ ان میں مرزا غالب، داغ دہلوی اورمولانا حالی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔شہر آشوب کے حوالے سے علامہ اقبال کی نظم’’صقیلیہ‘‘(بحیرۂ روم کا سب سے بڑا جزیرہ سسلی جس پر مسلمانوں نے قریباً پانچ سو سال حکومت کی) بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

موضوع کے اعتبار سے شہر آشوب کسی علاقے کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی انحطاط کا منظوم نوحہ ہے ۔کسی علاقے کی طوائف الملوکی یا کسی بڑے حادثے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے دوران وہاں کے دست کاروں، پیشہ وروں، صنّاعوں اور کاری گروں کی پریشانی و بد حالی کا تذکرہ شہر آشوب کا خاص موضوع رہا ہے۔

اس کے لیے کسی مخصوص ہیئت کی قید نہیں۔ البتہ مثنوی کی بحر، شہر آشوب کے لیے زیادہ موزوں سمجھی جاتی ہے۔ لیکن مسدس ، مخمس اور کئی دیگر ہیئتوں میں بھی شہر آشوب لکھے گئے ہیں۔ اُردو کی اَدبی تاریخ میں شہر آشوب کا سرمایہ بہت محدود ہے۔ تخلیقی حوالے سے ہمیں ایسا کوئی شاعر دکھائی نہیں دیتا جس نے اس کے حوالے سے اپنی شناخت بنائی ہو جیسا کہ قصیدے کے میدان میں مرزا رفیع سودا یا مرثیے کی صنف میں میر انیس۔

کسی صنف کی بقا اور ترقّی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دائرۂ کار وسیع تر اورنو بہ نو ہوتا چلا جائے۔ شاید یہ بھی اَصنافِ سخن کے ارتقا کے لیے وہ ضروری آنچ ہے جس سے انھیں زندگی کی حرارت حاصل ہوتی ہے۔ شہر آشوب کی صنف نے بعد میں اپنا دائرۂ کار سماجی اعتبار سے پھیلایا اور کوشش کی کہ زوال کے ہمہ جہت زاویے اس میں شامل ہوجائیں۔

لیکن شہنشاہی اور جاگیر دارانہ نظام کے زوال پر شعرا کے جو آنسو بہتے ہیں وہ کیفیت اور رنج و الم غریب و مظلوم عوام کی حالت پر ہمیں نظر نہیں آتے،جب کہ شعرو اَدب کو انسانی سوز کا سچا ترجمان ہونا چاہیے۔ لیکن شہر آشوب کی صنف میں اعلیٰ طبقے کا دُکھ الگ ہے اور اَدنا طبقے کا دُکھ الگ۔ جو صنف سخن اظہار ہمدردی کا اتنا واضح فرق رکھتی ہو وہ دور جدید کے شعور اور جمہوریت کی آندھی میں کس طرح خود کو بچا سکتی تھی، چناں چہ آج شہر آشو ب کا شمار مُردہ اَصناف میں ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عصر حاضر میں شہر آشوب کی صنف کو اَز سر نو زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس کے تن مردہ میں جان ڈالی جاسکتی ہے ؟ عصر حاضر میں ہم جب اپنے اِرد گرد نظر ڈالتے ہیں تو مسائل کا انبار نظر آتا ہے۔ شہر اُجڑے اور ویرا ن اور شہری پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔ ہر ایک دِل آزردہ اور ہر ایک رُوح پژمردہ نظر آتی ہے۔ احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ درانی کے حملوں نے اس خطے کو جو زخم لگائے تھے آج استعماری طاقتوں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں وہی تاریخ دُہرائی جا رہی ہے۔

جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ اس وقت تیزی سے زوال کی سمت گامزن ہے۔شہری سہولتوں کا فقدان، ظلم و جرم کی بڑھتی ہوئی رفتار، اشرافیہ کی لاتعلقی، مقتدر حلقوں کی بے حسی، سرمائے کا ارتکاز اور جاگیر دارانہ سوچ وہ عوامل ہیں جو ایک حساس ذہن کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ آج کے ادبا و شعرا عوام الناس کے اس دُکھ کو محسوس کریں۔ معاشی بد حالی اور معاشرتی بے چینی کا نہ صرف ادراک کریں بلکہ اس کے اسباب و علل پر غور کرتے ہوئے ایک حساس فنکار کی طرح اس سوزِ نہاں کو تخلیقی سطح پر آشکار کریں۔

اس کے لیے شہر آشوب کی صنف زرخیز زمین کا کردارادا کرسکتی ہے۔موجودہ حالات میں شہر آشوب کی صنف عوامی مسائل اور اس سے پیدا ہونے والی کیفیات کےشاعرانہ اظہار کا مؤ ثر ذریعہ بن سکتی ہے۔ تفنّن طبع سے بلند ہوکر عوامی دُکھ کا اظہار عصر نو کا اہم تقاضا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عام آدمی مہنگائی، بے روزگاری، فاقہ کشی اور معاشی استحصال کا شکار ہوکر اپنے زخم چاٹ رہا ہو اور شاعر کی حِس لطافت اس حزن و ملال اور کرب کو محسوس نہ کرے؟

ہنستے بستے گاؤں اور شہر اُجڑ رہے ہوں اور شاعر کی تخلیقی آنکھ اس سے صرفِ نظر کرے؟ نور اللغات کی تعریف کو ذہن میں رکھیں تو بلا شبہ ’’شہر آشوب‘‘ آج کے شعرا کے لیے تخلیق کا ایک وسیع میدان فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے نہ صرف عصری تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں بلکہ تخلیقی سطح پر انفرادیت کا علم بھی بلند کیا جاسکتا ہے۔