برطانیہ میں پاکستانی بچوں کی تعلیمی ناکامی

July 06, 2022

خیال تازہ … شہزادعلی
پاکستانی کشمیری والدین بہتر زندگی کی آسائشوں سے خود کو مالا مال کرنے کے لیے برطانیہ آئے تھے ان کی آنکھوں میں یہ خواب بھی سجے تھے کہ ان کی اولادیں برطانیہ کی عظیم اور عظمت والی درسگاہوں سے تعیلم کے اعلیٰ زیور سے بھی آراستہ ہوں گی لیکن آج برطانیہ میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کی موجودہ ملینیم نسل کی قابل ذکر تعداد والدین کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام نظر آتی ہے، بہت سے عوامل ہیں جنہوں نے برطانوی پاکستانیوں کی نوجوانوں کی تعلیمی ناکامی میں کردار ادا کیا ہے،ان عوامل میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور تعصب جو کہ برطانوی معاشرے میں موجود ہے، ایسے بہت سارے مطالعات کیے گئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ برطانوی پاکستانیوں کو انتہائی تعصب کا سامنا ہے تاہم نئی نسل کو اپنے والدین کی اس ملک سے ہجرت کی اصل وجہ سے آگاہ ہونا چاہیے تاکہ وہ انسپائریش لے کر اگے بڑھ سکیں اور ان مشکلات اور مصائب سے بھی واقفیت حاصل کرنی چاہئے جن سے پہلی نسلوں کے پاکستانی کشمیری گزرے ہیں ، برطانیہ کو اس ملک کی تعمیر نو کے لیے اپنی سابقہ ​​کالونیوں سے مزدور بھرتی کی ضرورت تھی یہ ہم کیریبین، پاکستان آزادکشمیر، ہندوستان اور (بعد میں بننے والے) بنگلہ دیش پر مرکوز تھی، پاکستان سے آنے والے ابتدائی مہاجرین میں سے کتنے ایسے تھے جو برطانیہ سے پیسے کما کر بالآخر وطن واپس جا کر سکونت اختیار کرنا چاہتے تھے مگر ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ پچھلی نسلوں نے بعد میں سوچا کہ اپنے خاندانوں کو بھی برطانیہ لایا جائے تاکہ ان سب کا مستقبل بہتر اور روشن ہو سکے، برطانیہ کی حکومت نے دولت مشترکہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یہاں رہنے کا حق دیا تاہم اس قانون نے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کو احتجاج اور مظاہرے کرنے اور منافرت پھیلانے کا بہانہ بھی فراہم کر دیا، یہ گروہ جیسا کہ برٹش نیشنل فرنٹ اور بعد کی ایک انگلش ڈیفنس لیگ یہ سبھی تارکین وطن کے خلاف منفی پروپیگنڈے کرتے تھے حالانکہ زیادہ تر تارکین وطن محنتی لوگ ہیں جنہوں نے برطانیہ کی تعمیر نو میں اپنے اپنے حصے کا کردار خوبصورتی سے ادا کیا مگر انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کا مقصد سفید فام برطانوی آبادی میں خوف و ہراس کا زہریلا ماحول پیدا کرنا تھا، خوش قسمتی سے ان گروپس کو عوامی حمایت کی کمی کا مسئلہ رہا، سفید فام برطانوی آبادی کی اکثریت اس پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئی، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سفید فام آبادی کی اکثریت کے لیے معیشت کے اعتبار سے خوشحالی بڑھ رہی تھی لیکن ظاہر ہے کہ برطانوی سوسائٹی میں ایسے لوگ بھی رہے ہیں جنہوں نے دوسری قوموں کے لوگوں کو دل سے قبول نہیں کیا، خاص طور پر افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے سیاہ فام لوگوں کے خلاف بہت متعصبانہ رویوں کا مظاہرہ کیا گیا جس کے اثرات پاکستان کے باشندوں پر بھی مرتب ہوئے ،برطانوی معاشرے میں تارکین وطن کے خلاف منافرت پھیلانے کی ایک وجہ ملازمتوں کے معاملے میں عدم اطمینان بھی ہے، اقلیتی برادریوں سے متعلق بعض افراد سفید فام لوگوں کے مقابلے لندن بس ڈرائیور اور کلینر کے طور پر بہت کم اجرت قبول کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں، اس عنصر کو متعصبانہ رویوں کے حامل لوگوں خوب بھڑکاتے رہتے ہیں،نسلی تعصب کا پس منظر 1950 کے آخر میں ویسٹ انڈین کمیونٹی سے شروع ہوا، پاکستانی کمیونٹی جس کی 1970 کی دہائی میں تیزی سے یہاں امد ہوئی، انہیں بھی ویسٹ انڈینز کی طرح امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، اسلام مذہب اور سیاست کا ایک طاقتور مرکب ہے جس میں بہت مضبوط بین الحکومتی روابط ہیں، چونکہ پاکستانی کشمیری اپنے مذہب اور ثقافت سے گہری کمٹمنٹ دکھاتے ہیں شاید یہ بات بھی بعض منافرت کے پرچارک برداشت نہیں کر پاتے جس سے اس کمیونٹی کے آگے بڑھنے میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہی ہیں، پاکستانی نوجوان تعلیمی لحاظ سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیوں نہیں کر رہے، اس کو اوپر بالا صورتحال میں سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے یعنی امتیازی سلوک کے کچھ عوامل جو پاکستانی کشمیری نوجوانوں کو تعلیمی ناکامی کی وجہ سے بری طرح متاثر کر رہے ہیں جیسے کہ اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور تعصب، ان کی تفصیل سے تحقیق کی جانی چاہئے لیکن ایک اہم ترین عنصر کو بھی شامل کیا جانا چاہئے اور وہ ہے ہماری اپنی کوتاہیاں، یہ جو ایک طرح سے اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کا ہمارا کلچر سا بن گیا ہے، ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی بہت وقت پاکستانی کشمیری سیاست پر صَرف کر دیتا ہے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتا دیگر تارکین وطن گروپس جیسے کہ ویتنامی، چینی اور ہندوستانی تارکین وطن بھی تو ہیں جنہوں نے برطانیہ میں کئی طرح کی رکاوٹوں کے باوجو اعلیٰ تعلیمی کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم ہمارے سامنے یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ زیادہ تر پاکستانی محنت کش طبقے کے پس منظر سے ہیں، مثال کے طور پر مقابلتا ہندوستانی کمیونٹی کی تعداد متمول گھروں سے ہے اور کچھ ہندوستانیوں کے برعکس ( مثال کے طور پر رشی سوناک کی طرح جن کی اہلیہ کا خاندان کروڑ پتی یا ارب پتی ہے) پاکستانی کمیونٹی کو زیادہ تر تر غربت اور افلاس کا سامنا ہے لہذا ہندوستانی چونکہ اعلیٰ طبقے کے ہیں، ان کے بچوں کو زیادہ بہتر مواقع ملتے ہیں۔ پاکستانی خاندانوں جنہوں نے یہاں ایک بہتر زندگی اور پاکستان اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے ہجرت کی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی توجہ اپنی بقا پر تھی لیکن اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ ان کے بچوں کو بہت سے مسائل سے نمٹنا ہے جیسا کہ ان پر اچھی کامیابی حاصل کرنے کا بوجھ ہے لیکن ان کی شناخت کے مسائل بھی ہیں کہ آیا وہ پاکستانی کے طور پر پہچان رکھتے ہیں یا برطانوی یا مسلمان یا تینوں کا مرکب یعنی شناخت کا بحران بھی ہے پھر چونکہ ان کے والدین میں سے کچھ زیادہ یا کوئی انگریزی نہیں بولتے تھے اس لیے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسکولوں میں ترجمان کا کردار ادا کیا انہیں انگریزی سے اردو یا پہاڑی، پنجابی وغیرہ میں چیزوں کی تشریح کرنی پڑتی تھی،یہ بھی دیکھا گیا کہ والدین کی برطانیہ کے تعلیم کے نظام سے ناواقفیت کا اثر ان کے بچوں کی تعلیم پر بھی پڑتا ہے، آخر میں، اسکول اور مذہبی اداروں کے درمیان شراکت کی کمی کی نشاندہی کی گئی ہے، ہمارے خیال میں ان بچوں کی اکیڈمک سوشلائزیشن میں والد کا کردار بہت اہم ہے یہ کردار مگر پاکستانی کشمیری اعتبار سے غائب ہے، والد جس کا کردار متعین ہے اور بچے کی پروش اور پروان چڑھانے میں والدہ کے اہم ترین کردار کے باوصف والد کے کردار کی اپنی اہمیت ہے مگر پاکستانی کشمیری کیس میں یہ کردار عموما کم ہی فعال ہے ،والد، عام طور پر گھر سے غائب رہتے ہیں، اکثریت ٹیکسی چلانے میں مصروف ہیں یا پھر دیگر طویل اوقات کار کے روزگار میں مصروف اور پھر ایک بھاری تعداد پاکستانی کشمیری سیاست میں مشغول رہتی ہے، مائیں زیادہ تر کھانا پکانے اور صفائی ستھرائی کے لیے وقف ہیں، باالفاظ دیگر والدین بچوں کو تفریح مقامات ، لائبریریوں اور عجائب گھروں میں لے جانے سے قاصر ہیں، وہ اساتذہ اور پیرنٹس ایوننگز سے بھی اکثر لاتعلق سے دکھائی دیتے ہیں اور انہیں اپنے بچوں کیلئے موجودہ تعلیمی مواقع کا بہت کم علم ہے ۔مذکورہ بالا صورتحال کی وجہ سے پاکستانی بچے برطانوی ثقافتی زندگی اور تعلیم کی سہولیات سے کماحقہ مستفید نہیں ہو رہے ہیں اور برطانوی تعلیمی نظام میں پیچھے رہ گئے ہیں سو ایک تو بطور تارک الوطن اور دوسرا خود ہمارے والدین کے اپنے رویے بھی بچوں کی مناسب نشوونما اور تعیلم کے میدان میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔