سیاسی جماعتوں کا فوج کا استعمال، سول ملٹری عدم توازن کا سبب

July 07, 2022

اسلام آباد (صالح ظافر) سیاسی جماعتوں کا فوج کا استعمال، سول۔ملٹری عدم توازن کا سبب بنتا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ آئین اور بیلیٹ بکس پر انحصار کیا جائے تو کوئی ان پر بالادستی قائم نہیں کرسکتا۔

تفصیلات کے مطابق، سیاسی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوج کو لاٹھی کے طور پر استعمال کرنے سے سول۔فوجی عدم توازن پیدا ہوگا۔ انہوں نے اس حوالے سے قومی مذاکرات کا مطالبہ کیا۔

اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) کی جانب سے مکالمے کی میزبانی کی گئی جو کہ سول۔فوجی عدم توازن کے حوالے سے ایک تھنک ٹینک ہے۔

شرکاء میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ ان میں ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے رہنماء شامل تھے۔

ن لیگ کے رہنماء سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو خود فیصلہ کرنا چاہیئے کہ اسلام آباد کا راستہ راولپنڈی، واشنگٹن یا کسی دارالخلافہ کے ذریعے نہیں بلکہ آئین اور بیلیٹ بکس کے ذریعے ہے۔

اس پر استقامت دکھائی جائے تو کوئی ان پر بالادستی قائم نہیں کرسکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے فوج کا استعمال کریں گی تو فوج ہی ان کے جانے کے وقت کا تعین کرے گی۔

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ مشکل لگتا ہے لیکن سیاسی قوتوں میں اگر ہم آہنگی اور اتحاد قائم ہوجائے تو یہ توازن قائم ہوسکتا ہے۔

انہوں نے پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح انہوں نے مقامی سیاست میں ایگزیکٹیو حکم نامے کے ذریعے آئی ایس آئی کے کردار کو شامل کیا۔ جب کہ پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ فوج سے تعلقات میں عدم توازن کی وجہ سے تینوں جماعتیں ہی متاثر ہوئی ہیں، اس لیے انہیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیئے۔

اس مسئلے پر سیاسی حریفوں کے درمیان تعاون کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہیں ماضی میں پھنسے نہیں رہنا چاہیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم الزام تراشیوں میں لگے رہے تو ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے پر قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔