یادوں کا سندر بن

July 13, 2022

سید ناصر زیدی مرحوم 1943ء میں شکر گڑھ یوپی انڈیا میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں پلے بڑھے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے ہی میں ان کی ادبی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آنے لگیں۔ 1960ء سے 1980ء تک ادب لطیف کے ایڈیٹر رہے۔ 1980ء میں وہ اسلام آباد آگئے۔ ناصر زیدی مرحوم نے بھرپور ادبی زندگی گزاری۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ڈوبتے چاند کا منظر ہے۔ وصال، وارفتگی اور اتفات چار شعری مجموعوں کا شاعر 3 جولائی 2020ء کو ابدی نیند سوگیا۔ذیل میں ناصر زیدی پر فرحت پروین ملک کا تحریر کردہ خاکہ’’ ڈوبتے چاند کا نظر‘‘ نذر قارئین ہے۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

احمد زین الدین کے انتقال کے بعد ’’روشنائی‘‘ بند ہوگیا۔ میں کسی معیاری رسالے کی تلاش میں تھی۔ جاوید نے بتایا کہ وہ ’’ادب لطیف‘‘ کے خریدار بن گئے ہیں۔ ایڈیٹر ناصر زیدی ہیں۔ جاوید سے فون نمبر لے کر ناصر زیدی کو فون پر اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے حیرت اور خوشی سے کہا۔ ’’زہے نصیب!‘‘ پھر وہ نظیر صاحب کی باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے۔

’’کبھی آپ کے گھر جانے کا اتفاق نہیں ہوا مگر اکثر نظیر بھائی سے ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔‘‘ اپنی بیماری کا ذکر کیا۔ ’’ہارٹ اٹیک ہوا پھر فالج، اب بہتر ہوں۔‘‘

وزیر تعلیم شفقت محمود نے ایک لاکھ رویپہ دیا۔ فالج کی وجہ سے زبان میں ہلکی سی لکنت آگئی تھی۔

مختار مسعود پر میرا مضمون چھ ماہ سے احمد زین الدین کے پاس تھا، کسی وجہ سے وہ شائع نہ کرسکے۔ وہ میں نے ’’ادب لطیف‘‘ کو بھیج دیا۔ ناصر زیدی نے اگلے ماہ شائع کردیا۔ ’’دربار ادب‘‘ بھی انہیں بھیج دی۔

’’آپ لاہور میں اکیلے کیوں رہتے ہیں؟ آپ کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟‘‘

’’میری بیوی بحریہ ٹائون راولپنڈی میں ایک کروڑ کے گھر میں رہتی ہے۔ بائیس سال سے لاہور میں ہوں، ہماری علیحدگی ہوگئی۔‘‘

’’کیا آپ کی طلاق ہوگئی ہے؟‘‘

’’نہیں… نہیں بھابھی! ایسا نہ کہیں، صرف علیحدگی ہوئی ہے۔‘‘

ان کے لہجے میں تڑپ محسوس ہوئی۔ اگر ان کے سامنے کہتی تو وہ میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیتے۔ اکثر فون پر مجھے اپنے بارے میں بتایا کرتے۔

’’بھابھی! میرے تین بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا حسن اپنی فیملی کے ساتھ ماں کے پاس رہتا ہے۔ دوسرا بیٹا عدیل بھی بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں رہائش پذیر ہے۔ تیسرا بیٹا ندیم دمام میں ہے۔‘‘

’’شکر ہے آپ کی بیٹی نہیں ہے ورنہ مسائل اور بھی بڑھ جاتے۔‘‘

’’کاش بھابھی! ایک بیٹی آجاتی تو میرا گھر بنا رہتا۔‘‘ پھر شگفتہ لہجے میں کہا۔ ’’بس عشق گلے پڑ گیا۔‘‘

’’یااللہ! ایسی لگاوٹ کی شادی کا انجام!‘‘ ناصر زیدی نے وجہ بیگانگی نہیں بتائی اور میں نے پوچھا بھی نہیں۔

ایک بار نظیر صاحب نے بتایا تھا کہ ناصر زیدی کی بیگم راولپنڈی کے کسی کالج میں اردو کی لیکچرار ہیں۔ ایک دن ہم لوگ میلوڈی مارکیٹ میں تھے، نظیر صاحب نے کہا۔ ’’وہ دیکھو ناصر زیدی جارہے ہیں، خوش باش، خوش شکل شاعر ہے۔‘‘

ناصر زیدی سے میں کبھی نہیں ملی، اکثر ٹی وی پر مشاعرے کی نظامت کرتے، شعر پڑھتے دیکھا۔ ان کی گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے عدیل انہیں اپنے گھر لے آئے۔ بیٹے کے پاس وہ بہت خوش تھے۔ بہو کی تعریف کرتے۔ ’’میرا بہت خیال رکھتی ہے۔‘‘ ایک بار فون پر کہا۔ ’’بھابھی! اپنے دربار ادب میں مجھے بھی رکھیں۔‘‘

’’ضرور بھائی صاحب! بالکل آپ ہیں۔‘‘

’’اب میں ’’ادب لطیف‘‘ کا کام یہاں سے کروں گا، مستقل عدیل کے پاس رہوں گا۔‘‘

پنڈی میں دوبارہ طبیعت ناساز ہوئی۔ بحریہ ٹائون کے اسپتال میں علاج ہوا۔ علاج سے بہت خوش اور مطمئن تھے، جلد ہی گھر آگئے۔ ایک دن ’’ادب لطیف‘‘ لے کر حسن کے ساتھ ہمارے گھر آئے مگر کورونا کی وجہ سے گاڑی ہی میں بیٹھے رہے۔ میں نے بھی باہر سے انہیں دیکھا اور سلام کیا۔

’’میں جلدی میں آیا ہوں، میرا سامان لاہور میں ہے۔‘‘

چند کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ’’اختر وقار عظیم بھی کتابیں دے گئے ہیں، نظیر صدیقی کی ’’ارد ادب کے مغربی دریچے‘‘ اور انور فرہاد کی ’’یہی دسمبر کا مہینہ تھا‘‘ وغیرہ میری کتاب یھی طلب کی۔

’’پڑھ کر واپس کردوں گا۔ آپ کی کتاب لاہور میں ہے، بیماری کی وجہ سے پڑھ نہیں سکا۔ اب میں ’’ادب لطیف‘‘ دینے پوتی ملیح آبادی کے یہاں جارہا ہوں۔‘‘

’’آپ تبسم اخلاق (جوش ملیح آبادی کی پوتی) کو کہہ رہے ہیں؟‘‘

چند دنوں کے بعد فون پر انور فرہاد کی کتاب کی تعریف کرنے لگے۔ ’’اسی طرح کی کتاب آنی چاہئے تاکہ بنگلہ دیش کی صحیح صورت حال کا علم ہو۔ بھابھی! آپ نے لکھا ہے کہ کچھ لوگ کہہ جاتے ہیں، کچھ سہ جاتے ہیں۔ میں سہ جانے والوں میں سے ہوں۔‘‘

تین ماہ کے دوران ناصر زیدی نے کبھی اپنی بیگم کے بارے میں منفی بات نہیں کی بلکہ کسی نہ کسی بہانے شگفتگی سے بیوی کا ذکر ضرور کرتے۔

شادی کے دس سال کے بعد میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ شاعر شوہر کو پابند وفا نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ شاعری آب و ہوا چاہتی ہے۔ خدا معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اس لئے اپنے مجازی خدا کو بھی معاف کرتے رہنا چاہئے۔ دل ٹوٹے تو ٹوٹے، گھر نہیں ٹوٹنا چاہئے۔

’’آپ کی کتاب‘‘ ’’دربار ادب‘‘ دو بار پڑھی اور ساری رات روتا رہا۔‘‘

’’ایسی کیا بات ہے کتاب میں کہ آپ ساری رات روتے رہے؟‘‘

’’کئی مقامات ہیں، میں ’’دربار ادب‘‘ پر مضمون لکھوں گا تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔‘‘

پہلی بار ان کے لہجے میں اداسی محسوس ہوئی لیکن بہت جلد نارمل ہوگئے۔

’’میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایم اسلم نے اپنی نظم علامہ اقبال کو سنائی، علامہ صاحب نے کہا۔ آپ نثر اچھی لکھتے ہیں۔‘‘

مجھے ہنسی آگئی۔ ’’بھائی صاحب! اب میں نے نثری نظم سے توبہ کرلی ہے۔ میں بھی آپ کو سلیم احمد اور قمر جمیل کا مکالمہ سناتی ہوں۔ قمر جمیل مرحوم (ادیب، شاعر، نقاد اور مصور) نثری نظم کے کرتا دھرتا، سلیم احمد نثری نظم کے سخت مخالف! سلیم احمد نے کہا۔ قمر جمیل! تمہاری سارہ شگفتہ ایک دن خودکشی کرلے گی، نثری نظم ذہنی انتشار کی پیداوار ہے۔‘‘

واقعی سارہ شگفتہ نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کرلی۔ اس کے ہاتھ میں قرۃ العین حیدر کی ایک کتاب تھی۔ سارہ شگفتہ کو نثری نظم کی اعلیٰ شاعرہ ہونے کا اعزاز ہے۔ قمر جمیل نے سارہ شگفتہ کے انتقال کے بعد ان کی کتاب ’’آنکھیں‘‘ شائع کی۔

ناصر زیدی نڈر مدیر تھے۔ مسعود مفتی مرحوم نے ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ 1965ء کی جنگ کے بعد انہوں نے مضمون تحریر کیا، اسے احمد ندیم قاسمی کو بھیجا۔انہوں نے انہیں سمجھا کر خط لکھا۔ آپ اسے زمین میں دفن کردیں۔ ایڈیٹر ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کو دیا تو انہوں نے ہاتھ جوڑ دیئے، یہ مضمون شائع نہیں کرسکتا۔ ان دونوں سے مایوس ہوکر ناصر زیدی کو دیا، انہوں نے بے خوف ہوکر مضمون ’’ادب لطیف‘‘ میں شائع کردیا۔

ناصر زیدی کا پہلا مجموعہ کلام نظیر صدیقی کے پاس آیا۔ ’’ڈوبتے چاند کا منظر‘‘ نظیر صاحب نے ریڈیو پر اس پر تبصرہ بھی کیا تھا۔ مجھے اس نام میں اداسی اور کسک کا احساس ہوا۔ ڈوبتے چاند کا منظر دیکھنے کیلئے رتجگا ضروری ہے۔ یہ کام صرف شاعر حضرات کرسکتے ہیں۔

ازدواجی زندگی کی ناکامی اور مسلسل بیماری کے باوجود ان کا لہجہ شگفتہ رہا۔ پروین شاکر کا ذکر آیا تو کہا۔ ’’بھابھی! نظیر بھائی نے ان پر مضمون لکھ کر قلم توڑ دیا اور اپ سہہ گئیں؟‘‘

عطاء الحق قاسمی کے بارے میں کہا۔ ’’بھابھی! وہ میرا اسکول کا ساتھی ہے مگر جب ان کا عروج تھا تو ملنا ترک کردیا۔ اب زوال آیا ہے تو اکثر فون پر میسج کرتے رہتے ہیں مگر میں جواب نہیں دیتا۔ بھابھی! اگر کوئی مجھ سے یہ وعدہ کرے کہ میرے مرنے کے بعد ’’آدھا مسلمان‘‘ جیسا خاکہ لکھے گا تو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔‘‘

میری زبان پھسل گئی۔ ’’جی ہاں! یہ بات سعادت حسن منٹو نے بھی کہی تھی جب عصمت چغتائی نے ’’دوزخی‘‘ لکھا تھا۔‘‘

’’اگر منٹو نے کہا تو میں بھی یہ کہہ رہا ہوں۔‘‘

یعد میں احساس ہوا کہ مجھے منٹو والی یہ بات نہیں کہنی چاہئے تھی۔

’’بھابھی!آج بدھ ہے، اتوار کو آپ کی کتابیں اور مضمون لے آئوں گا۔‘‘ مگر 3؍جولائی 2020ء کو خبر آئی کہ صبح کے 3؍بجے ناصر زیدی کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ’’ڈوبتے چاند کا منظر‘‘ زمین میں تحلیل ہوگیا۔ عدیل، انور فرہاد اور میری کتاب واپس کرنے آئے۔ مضمون اور دیگر کتابوں کے بارے میں بتایا کہ وہ نہیں ملیں۔ مجھے مضمون گم ہونے کا افسوس اس لئے ہے کہ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کیوں ساری رات روتے رہے۔

اپنی کتاب دیکھی۔ میری نظم ’’تضاد‘‘ پر پسندیدگی کا نشان تھا۔

تضاد…محبوبہ کی ذہانت…

قابل تعریف…بیٹی کی ذہانت

بیوی کی ذہانت…قابل مذمت

قارئین کیلئے شاعر مرحوم کے دو شعرملاحظہ کریں؎

کوئی ہوتا نہیں کسی کا کبھی

ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

یقیناً کچھ کمی باقی ہے میرے سوز پنہاں میں

جو میں روتا ہوں تو ان کو ہنسی معلوم ہوتی ہے

……٭٭……٭٭……٭٭……

بھلا کب تک کوئی تنہا رہے گا

……ناصرزیدی……

بھلا کب تک کوئی تنہا رہے گا

کہاں تک یہ نگر سونا رہے گا

شب فرقت تو کٹ جائے گی لیکن

تمہارے جور کا چرچا رہے گا

ہمیں ترک تعلق بھی گوارا

زمانہ کب مگر چپکا رہے گا

جہاں بھی نام آئے گا تمہارا

یقیناً تذکرہ میرا رہے گا

جنون عشق کی وارفتگی پر

سبک سر مدتوں صحرا رہے گا

……٭٭……٭٭……٭٭……

پھول صحرا میں کھلا دے کوئی

پھول صحرا میں کھلا دے کوئی

میں اکیلا ہوں صدا دے کوئی

کوئی سناٹا سا سناٹا ہے

کاش طوفان اٹھا دے کوئی

جس نے چاہا تھا مجھے پہلے پہل

اس ستم گر کا پتہ دے کوئی

جس سے ٹوٹے مرا پندار وفا

مجھ کو ایسی بھی سزا دے کوئی

رات سوتی ہے تو میں جاگتا ہوں

اس کو جا کر یہ بتا دے کوئی

جو میرے پاس بھی ہے دور بھی ہے

کس طرح اس کو بھلا دے کوئی

عشق کے رنگ لیے پھرتا ہوں

اس کی تصویر بنا دے کوئی

دل کے خرمن میں نہاں ہیں شعلے

اپنے دامن کی ہوا دے کوئی

پھول پھر زخم بنے ہیں ناصرؔ

پھر خزاؤں کو دعا دے کوئی

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی