اگر سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ملانا بھول گیا

August 05, 2022

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص نے چار رکعات نماز سنّت کی نیت کی ، سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ملانا بھول گیا ، رکوع میں یاد آیا کہ سورت ملانا رہ گئی ہے ،اس صورت میں کیا سجدۂ سہو سے نماز ہوجائے گی ؟(حافظ محمد ارشاد، کراچی)

جواب: سورۂ فاتحہ کے بعد جہاں سورت ملانا واجب ہے،اگرسورت ملانا بھول گیا، رکوع یا قومہ میں یاد آیا ،تو قیام کی طرف لوٹنا واجب ہے، سورت ملائے ، دوبارہ رکوع کرے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے، نماز مکمل ہوجائے گی۔ علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں: ’’ اگر اسے سورت یاد آجائے ،قیام کی طرف لوٹے اور سورت پڑھے ، پھر دوبارہ رکوع کرے ،کیونکہ نماز میں قرأ ت میں سے جو کچھ واقع ہوگا ،وہ فرض ہوگا ، تو رکوع بھی فرض ہوگا اور اس کا اعادہ لازم ہوگا ،کیونکہ قرأ ت اور رکوع کے درمیان ترتیب فرض ہے ،جیسا کہ واجبات میں اس کا بیان گزر چکاہے ، حتیٰ کہ اگر دوبارہ رکوع نہ کیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی ،بلکہ اگر قرأ ت کے لیے کھڑاہوا ، پھر اس پر ظاہر ہواتو اس نے سجدہ کیا اور تلاوت نہ کی اور دوبارہ رکوع بھی نہ کیا ،تو بعض علماء نے فرمایا: اس کی نماز فاسد ہوگی اور بعض نے کہا: فاسد نہیں ہوگی ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ، جلد:3 ، ص:446، دمشق)‘‘۔

رکوع میں یاد آنے کے بعد اگر نہ لوٹا ،تو جان بوجھ کر واجب چھوڑنے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ یعنی دوبارہ پڑھنا ہوگی، سجدۂ سہو کفایت نہیں کرے گا۔ اگر قیام کی طرف لوٹا،لیکن قرأ ت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ رکوع نہیں کیا، تو نماز فاسد ہوجائے گی، کیونکہ رکوع دوبارہ کرنا فرض ہے۔علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’ (نماز کے فرائض میں سے) ایک قرأ ت ہے: امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اگرچہ ایک چھوٹی آیت پڑھنے ہی سے فرض ادا ہوجاتا ہے ، ’’محیط ‘‘ اور ’’خلاصہ‘‘ میں اسی طرح ہے اور یہی صحیح ترین ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1،ص:69)‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں:’’ اگر ایک رکعت میں بھی قرأ ت نہیں کی یا صرف ایک رکعت میں قرأ ت کی ،تو نماز فاسد ہوجائے گی ، ’’ شَرحُ النّقَایَہ الشُّمنِی ‘‘ میں اسی طرح لکھا ہے ،وتر اور نفل کی تمام رکعات میں قرأت فرض ہے،’’محیط‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد1، ص:69)‘‘۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں: ’’اگر سجدہ میں جانے سے پہلے رکوع میں خواہ قومہ بعد الرکوع میں یاد آجائیں ، تو واجب ہے کہ قرأ ت پوری کر ے اور رکوع کا پھر اعادہ کرے ،اگر قرأ ت پوری نہ کی تو اب پھر قصداً ترک واجب ہوگا اور نماز کا اعادہ کرنا پڑے گا۔ اگر قرأ ت بعدَالرُّکوع پوری کرلی اور رکوع دوبارہ نہ کیا تو نماز ہی جاتی رہی کہ فرض ترک ہوا۔ ترجمہ:’’ اس لیے کہ قرأ ت کی طرف لوٹنے کی وجہ سے رکوع ختم ہوگیا، کیونکہ قرأت جتنی بھی کی جائے، خواہ تمام قرآن پاک کی قرأ ت ہو ، اس سے ایک ہی فرض ادا ہوگا، جیسا کہ اس پر فقہاء نے تصریح کی ہے ‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد:6، ص:330)‘‘۔

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒلکھتے ہیں: ’’سورت ملانا بھول گیا، رکوع میں یاد آیا، تو کھڑا ہو جائے اور سورت ملائے پھر رکوع کرے اور اخیر میں سجدۂ سہو کرے، اگر رکوع دوبارہ نہ کرے گا تو نماز نہیں ہوگی،(بہارِ شریعت،جلد:1،ص:545)‘‘۔ لیکن اگر سجدہ میں یا سجدہ کرنے کے بعد یاد آیا کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ملانا بھول گیا ہے ، توقیام کی طرف نہ لوٹے بلکہ پچھلی رکعتوں میں سورت پڑھنا واجب ہے اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا واجب ہے۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ’’ اور اگر مثلاً (چار رکعت والے فرائض میں) عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں سورت چھوڑ دی، اگر جان بوجھ کر چھوڑی توپچھلی دو رکعتوں میں بلند آواز میں وجوباً الحمد کے ساتھ سورت کو پڑھے ، بعض نے کہا: استحباباًبالجہر پڑھے ، کیونکہ جہر اور سِرّ کو ایک رکعت میں جمع کرنا معیوب لگتا ہے ‘‘ یعنی فرض کی پچھلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ سِرّی طور پر پڑھنے کا حکم ہے۔

اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’ لفظ مثلاً اس لیے زیادہ کیا کہ اگر ایک رکعت میں سورت ترک کرے ،تو کیا سورت کوتیسری رکعت میں ملائے گا یا چوتھی رکعت میں ؟ اسے اختیار ہوگااور (لفظ مثلاً کو) اس لیے بھی زیادہ کیا، تاکہ عشاء کے علاوہ کو بھی شامل ہوجائے ،جیسے مغرب کی نماز، پس اگر اس کی ایک رکعت میں سورت کو ترک کیا تو اسے تیسری رکعت میں فاتحہ کے ساتھ پڑھے گا اور اگر مغرب کی دونوں رکعتوں میں سورت کو ترک کردیا تو تیسری رکعت میں فاتحہ اور سورت پڑھے گا اور دوسری رکعت والی ترک کردہ سورت فوت ہوجائے گی ،اگر بھول کر سورت چھوڑی ہوگی تو سجدۂ سہو کرے گا۔

اس لیے مثلاً کا لفظ زیادہ کیا، تاکہ چار رکعتوں والی سِرّی نماز (ظہر وعصر) کو بھی شامل ہوجائے ، اس میں بھی آخری دو رکعتوں میں سورت کو لائے گا ، ’’علامہ طحطاوی‘‘ نے یہ فائدہ بیان کیاہے ۔ ’’علامہ علاء الدین حصکفی ‘‘ نے ’’جَہْرًا فِی الْأُخْرَیَیْنِ ‘‘ کے قول کے سبب عشاء کا جو بطور خاص ذکر کیاہے ، یہ دوسری (ثلاثی یا رباعی )نمازوں سے احتراز کی وجہ سے نہیں ہے۔ سو اسی وجہ سے شارح نے عمومیت کی طرف اشارہ کیا ہے، اس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد3، ص:442-443 ، دمشق)‘‘۔

علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں:’’ تین رکعتی یا چار رکعتی نمازوں میں پہلی دورکعات کو فرض قرأ ت کے لیے متعین کرنا واجب ہے، حتیٰ کہ اگر رباعی (چار رکعت والی) نماز میں پہلی دو رکعت کے بجائے پچھلی دو رکعات میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملائی یا پہلی دو رکعات میں سے ایک ہی میں ضَمّ سورت کیا اور پچھلی دورکعات میں سے ایک میں بھول کر ضَمّ سورت کیا ، تواس پر سجدۂ سہو لازم ہوگا ، ’’البحرالرائق ‘‘ میں اسی طرح ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد 1،ص:71)‘‘۔ اس عبارت کا مستفاد یہ ہے کہ اگرچہ جیسی بھی صورت ہو، پچھلی ایک یا دو رکعات میں سورت ملانے کے بعد پہلی ایک یا دو رکعات میں سورت نہ پڑھنے کی تلافی تو ہوگئی، لیکن واجب ترک کرنے پر سجدۂ سہو لازم آئے گا، کیونکہ پہلی دو رکعات ضمّ سورت کے لیے بطور واجب مُتعین ہیں۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheemjanggroup.com.pk