آزادکشمیر کے آئین میں 15 ویں ترمیم

August 09, 2022

بولٹن کی ڈائری ۔۔۔۔ابرار حسین
برطانیہ میں کم و بیش 15سے16 لاکھ آزاد کشمیر کے باشندے آباد ہیں، جن کی قابل ذکر تعداد وطن عزیز کے معاملات سے جڑی ہوئی ہے، مسئلہ کشمیر پر برطانیہ کے کشمیریوں کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے، 5اگست 2019 کو بھارت نے جب مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق خود اپنے آئین سے بھی ماروا اقدامات کیے تو اس وقت بھی برطانوی کشمیری کمیونٹی اس سے پیدا شدہ صورتحال کو مختلف سطح پر اجاگر کرنے میں بدستور مصروف عمل ہے ، تاہم پھر ساتھ ہی آزاد کشمیر کے حوالے سے بھی تشویشناک قسم کی باتیں زیر بحث آنا شروع ہو گئی ہیں، سب سے زیادہ معاملہ جو سردست فکر اور توجہ کا مرکز بنا ہوا،ہے وہ ہے آزادکشمیر کے ایکٹ 1974 کی 15ویں آئینی ترمیم کا،26 صفحات پر مشتمل مجوزہ مسودہ اگلے روز ہمارے جنگ لندن نے انہی صفحات پر قارئین کی سہولت کے لیے تفصیل سے شائع کیا ہے، اس پر کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد جو اسے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیتی ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنگ کی اس کاوش کو اہم قرار دیا ہے اور روزنامہ جنگ لندن کے ادارتی عملے کی اعلیٰ بصیرت اور قومی لگن کو سراہا ہے، تاہم اس اہم ایشو پر کمیونٹی کے زیادہ سے زیادہ تاثرات سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ بولٹن نارتھ ویسٹ کی متعدد شخصیات، جو بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر پر نصف صدی سے زائد عرصے سے متحرک چلی آرہی ہیں، ان کی اس معاملے پر تشویش واضح ہے۔ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف سیاسی اور سماجی رہنمائوں نے اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت پاکستان نے آزادکشمیر حکومت سے مالی اختیارات واپس لینے کے ساتھ ساتھ صوبہ کے برابر لاتے ہوئے وفاقی اکائی بنانے کی کارروائی شروع کردی ہےجیسا کہ جنگ لندن میں شائع کئے گئے مجوزہ مسودے میں شامل ہے اور یہ کہ محکمہ قانون وانصاف پارلیمانی امور اور انسانی حقوق کا ترتیب دیا ہوا مجوزہ مسودہ (کانفیڈنشل) جو نمبر 2202-10-103/leg/LD. بتاریخ 29جون 2022کو حتمی ہوا اور روزنامہ جنگ لندن کے مطابق آزادکشمیر سے وزیر زراعت سردار میر اکبر، وزیر تعلیم دیوان چغتائی، وزیر شہری دفاع چوہدری اکبر ابراہیم، وزیر خزانہ عبدالماجد خان، وزیر تعمیرات عامہ اظہر صادق، وزیر قانون فہیم اختر ربانی، وزیر ہاؤسنگ یاسر سلطان اور سیکرٹری حکومت ارشاد قریشی پر مشتمل کمیٹی نے یہ حتمی مسودہ تیار کیا ہے، کیا ایسا سوچا جا سکتا ہے کہ کشمیری خود کسی ایسے مسودہ میں شریک ہو سکتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچا کہ مستقبل قریب میں اس کے نتیجے میں کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اگر خدانخواستہ لفظ ریاست ختم کر دیا جائے تو تحریک آزادی کے اس سفر کو کتنا نقصان پہنچے گا۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ 15ویں ترمیم پر خود مختار کشمیر سے متعلق اکثر بعض حلقے تو یہ تاثر دے رہے تھے کہ ایسا کوئی مسودہ مبینہ طور پر پاکستان کے ادارے لا رہے ہیں مگر اب جو یہ بات سامنے آئی ہے کہ خود آزاد کشمیر کی حکومت بھی اس میں شامل ہے، اس لیے حکومت آزاد کشمیر کو اپنے کردار کی وضاحت کرنا چاہئے اور ردعمل دینا چاہئے تاکہ عام کشمیریوں کو اصل صورتحال کا علم ہوسکے، اس ترمیم میں مزید یہ طے کیا گیا ہے کہ کونسل بحال کرتے ہوئے اس میں وزیراعظم پاکستان، وزیر دفاع پاکستان، وزیر خارجہ پاکستان سمیت7 ممبرز اسلام آباد اور6 آزاد کشمیر سے رکھے جانے کی تجویز ہے اور یہ کہ کونسل کے فیصلوں کو نہ ہی اسمبلی میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے اور نہ کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، اس پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ نارتھ ویسٹ کی کشمیری کمیونٹی کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے چیف جسٹس صاحبان، اعلیٰ عدلیہ کے ججز، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار اگر وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہو جائے گا اور ان تقرریوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو پھر آزاد کشمیر کی حکومت کی حیثیت اور اس کا کردار کیا رہ جائے گا۔ کشمیری کمیونٹی کو ان ترامیم، جن کے ذریعے آزاد کشمیر اسمبلی کا کردار محدود کئے جانے پر اعتراض ہے۔ ان کے خیال میں اس سے آزاد کشمیر حکومت، جو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے بیس کیمپ کی حیثیت رکھتی ہے، کے رول کو سخت نقصان پہنچے گا، اس لئے اس طرح کی ترامیم کے بجائے آزادکشمیر حکومت کے کردار کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، باالفاظ دیگر ریاست ختم۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال کا اظہار ہے، جس کی حکومت آزادکشمیر اور پاکستان کے ارباب اختیار کو وضاحت کرنی چاہئے۔ عوامی رائے میں کشمیر کا مسئلہ ایک حساس معاملہ ہے، حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کو اس سے متعلق کوئی بھی نئی پالیسی وضع کرتے وقت قومی سطح پر وسیع مشاورت کے ساتھ ہی بنانی چاہئے۔ پاکستان کشمیری عوام کا وکیل بھی ہے اور مسئلہ کشمیر پر فریق بھی، اس لئے کوئی ایسا تاثر نہیں دیا جانا چاہئے، جس سے مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچے اور پاکستان کے رول پر سوالیہ نشان لگ جائے۔