سماجی استحصال کے خلاف برسر پیکار راجہ محمد انور

August 15, 2022

تحریر:پرویز فتح ۔۔۔۔۔ لیڈز
راجہ محمد انور ہماری دھرتی کے ایک ایسے منفرد سپوت ہیں جو ترقی پسند ادیب بھی ہیں، کالم نویس بھی، منجھے ہوئے سیاسی کارکن بھی اور گذشتہ 75 برس سے ملک پر مسلط سول و ملٹری آمریت، سامراجی و نوآبادیاتی تسلط اور سماجی جبر و استحصال کے خلاف برسرِ پیکار انقلابی کارکن بھی ہیں، ترقی پسند ادیب ہو یا انقلابی کارکن، معاشرے میں پائے جانے والے تشدد، دنگا فساد، آمرانہ سوچ، جبراً اطاعت، سیاسی قبضے، سماجی استحصال، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کو دیکھے گا تو خاموش نہیں رہ پائے گا۔ اس کے خون میں حرارت بھی پیدا ہو گی اور جذبات بھی بھڑکیں گے، اگر لکھاری ہوا تو اس کے قلم میں جنبش بھی آئے گی، کلر سیداں ضلع راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے گاؤں درکلی شیر شاہی میں 1948ء میں پیدا ہونے والے راجہ انور نے ہوش سنبھالا تو دنیا تہلکا خیر تبدیلیوں سے گذر رہی تھی،راجہ انور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور گورڈن کالج کی اسٹوڈینٹس یونین کی قیادت کرتے ہوئے ملکی سطح پر نوجوان انقلابی کے طور پر ابھرے، متصاد یہ کہ اُنہیں کالج میں پروفیسر خواجہ مسعود کی شفقت اور تربیت نصیب ہو گئی جو میرے سیاسی استاد عابد حسن منٹو کے بھی استاد رہ چکے تھے۔ راجہ انور گورڈن کالج میں اپنے تعلیمی کیریئر کے ساتھ ساتھ ایک ہونہار انقلابی طالب علم رہنما کے طور پر ابھر کر سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوئے اور کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہو گئے، گورڈن کالج میں اس وقت کے فوجی آمر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو راجہ انور نے 7 نومبر 1968کو راولپنڈی میں ایوب خان کے خلاف نوجوانوں کے پہلے جلوس کی قیادت کی جو جلد ہی ملک گیر تحریک بن گئی۔ ایوب خان کو مارچ 1969میں اقتدار چھوڑنا پڑا تو ایوب خان کے جانشین جنرل یحییٰ نے انہیں ایک سال کے لیے سرکاری مہمان بناتے ہوئے جیل میں ڈال دیا، بعد ازاں اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1972ء میں فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، ان کا ریسرچ مقالہ ’’مارکسی اخلاقیات‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا، ان کی مشہور کتاب ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ پنجاب یونیورسٹی کے مہکتے دبستان میں محبت کی آنچ پر پگھلتے جذبات کی حقیقی داستان ہے۔ اس دوران انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں 77-1974ء تک طلباء اور محنت کے مشیر مقرر ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچ گئے۔ ڈکٹیٹر ضیاء کی قیادت میں فوجی بغاوت کے ذریعے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد راجہ انور افغانستان فرار ہو گئے، وہاں قیام کے دوران انہوں نے مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ مل کر الذوالفقار تشکیل دی، جو ضیاء آمریت کا تختہ الٹنے کے لیے پُرعزم تھی اور اپنے آپ کو بائیں بازو کی تحریک تصور کرتی تھی۔ راجہ انور 1980ء میں مرتضیٰ کے پُر تشدد حربوں پر اختلاف کرنے لگے اور انہوں نے پاکستان واپس آ کر جمہوری جدوجہد کے ذریعے ضیاء کے خلاف بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد میں مدد کرنےکی ٹھان لی۔ انہیں اپنی سیاسی وابستگی کی راہیں تبدیل کرنے کی بھرپور قیمت ادا کرنا پڑی اور انہیں کابل کی بدنام زمانہ پل چرخی جیل میں ڈال دیا گیا بعد ازاں مرتضیٰ بھٹو نے اپنی کارروائیوں کا مرکز شام منتقل کر لیا تو راجہ انور کو 1985ء میں رہا کر دیا گیا۔ ایک انقلابی کارکن کی حیثیت سے راجہ انور بہت گہرائی تک سوچتے اور اس کا بے لاگ اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے کالمزمیں لکھتے ہیں کہ پاکستان نے اپنی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی قیمت پر اپنے ایٹمی وجود کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھا لیا ہے لیکن ہمیں نپولین کا یہ مقولہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’فوجیں اپنے پاؤں کے بجائے اپنے معدے کے بَل پر مارچ کرتی ہیں‘‘، اگر ہماری معاشی حالت یوں ہی دگرگوں رہی، سماجی اور معاشی بدامنی کا یہی عالم رہا، فرقہ واریت اور صوبائی منافرت کی یہی کیفیت رہی اور مسائل سے گریز کا بھی یہی رویہ رہا تو پھر یہ خطرہ بعید ازقیاس نہیں کہ ہم روس کے حشر سے دو چار ہو جائیں۔ راجہ انور مذھب کو سیاست سے الگ کرنے کے قائل ہیں اور اپنے کالمزمیں لکھتے ہیں کہ مذہب خدا اور بندے کے درمیان روحانی اور قلبی تعلق ہے۔ ہم نے اس ذاتی تعلق کو ریاست اور خدا کے درمیان رشتے میں بدلنے کی کوشش کی۔ جب ریاست کا مذہب اسلام ہوگا تو اگلا سوال یہ اٹھے گا کہ کون سا اسلام، کس فرقے کی شریعت اور کس کی فقہ، اسلام کو سیاست اور ریاست کے اکھاڑے میں اتارنے کا منطقی نتیجہ فرقہ وارانہ نفرتوں کی شکل میں نکلا، یہی وجہ ہے کہ آج ہم اسلام کے نام پر ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہے ہیں اگر ہم نے اپنا رُخ نہ بدلا تو دوسرے کے بعد تیسرا باب شروع ہو جائے گا، اِس صورتِ حال کا واحد حل یہ ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر سیاست کے گندے کھیل کو ممنوع قرار دیا جائے۔ ایسے مذہبی مکاتب اور مذہبی تنظیموں پر پابندی عائد کر دی جائے جو سماج میں نفرت پھیلانے اور مخالفین کا گلا کاٹنے کی تربیت دیتے ہوں۔ اپنے مضمونایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اگر قومیں مذہب کے نام پر وجود میں آتی ہیں تو پھر ہم اپنی آدھی قوم تقسیم کے ساتھ ہی واہگہ کے اُس پار ہندوستان میں پھینک آئے تھے۔ وسطِ ہند کے جن مسلمانوں نے اپنی ہڈیوں پر پاکستان کی بنیاد رکھی تھی، ہم نے اُنہیں عملاً دو قومی نظریے کی تعبیر و تشریح سے ہی خارج کر ڈالا 1971ء میں بنگال کا اخراج ہوا اور اب بلوچوں، سندھیوں اور مہاجروں پر بھی حسبِ ضرورت دو قومی نظرئیے سے انحراف کے فتوے جاری ہوتے رہتے ہیں حالانکہ آج کے پاکستان میں نہ تو کوئی دوسری قوم آباد ہے اور نہ کوئی ایسا مذہب موجود ہے جِس سے ملک کو کوئی خطرہ درپیش ہوا لہٰذا اگر پاکستان بنانے کے لیے ’’دو قومی نظریے‘‘ کا جواز لازم تھا تو آج اُسے قائم رکھنے کے لیے ’’ایک قومی نظریے‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ایک قومی واحدت میں ڈھالا جا سکے۔ راجہ انور نے بازگشت کا انتساب بالخصوص برِصغیر اور بالعموم دنیا بھر کے اُن عظیم محنت کش شہداء کے نام کیا ہے جو نیک نیتی اور محنت کشوں کے نظریہ سے لگن و جنون کی بنیاد پر سیاسی، معاشی اور سماجی انقلابات کی لگن و جنون میں مبتلا، استحصال سے پاک اور انصاف و مساوات پر مبنی انسانی سماج کا سنگ بنیاد رکھنے کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تاریک راہوں ہیں مارے گئے! یقیناً وہ تاریخ میں درخشندہ ستاروں کی مانند آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ تاریخ کبھی بھی اُنہیں فراموش کرنے کی فحش غلطی جیسا عمل کرنے کی جسارت نہیں کر سکتی۔ راجہ انور کے اس انتساب کا اگر اُن کی عملی سیاست کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ اُس سے یقیناً مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ اپنی عملی سیاست کی ابتدا میں ہی رولنگ الیٹ کی سیاست کے اسیر ہو گئے تھے۔ ہاں اُن کی تحریریں ہمیشہ اُن کے نظریات کی عکاسی کرتی رہیں اور اُنہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق بھی سیکھا اور ملٹی کلاس سیاسی جماعتوں میں رہتے ہوئے بھی نفاست، شفافیت اور بھرپور محنت کا لوہا منوایا۔