ہم کہاں کھڑے ہیں …؟

August 16, 2022

تحریر:غلام نبی عامر۔۔۔۔یوکے
آج ملک بھر میں 75واں یوم آزادی انتہائی جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ تمام تر محرومیوں کے باوجود لوگوں کے چہرے خوشی اور مسرت سے دمک رہے ہیں۔آزادی کے 75سال گزرنے کے باوجود ہماری آزادی اب تک ایک سوال بنی ہوئی ہے۔آج جب ہم اپنی پون صدی پر پھیلی ملکی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ندامت اور پشیمانی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔گزشتہ صدی کا آخری نصف حصہ انسانی تاریخ کی ترقی،وسعت اور کشادگی کا دور تھا،انسانی معاشرے نے سماجی،اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے اس قدر تیز رفتاری سے ترقی کی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی،ایجادات اور تسخیر فطرت کے جو کارنامے اس عرصے میں سامنے آئے وہ گزشتہ سیکڑوں سال کی انسانی فتوحات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ آزادی کے 75برس گزرنے کے باوجود آج بھی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ہم نے اپنی 75سالہ عبرت انگیز تاریخ سے سبق سیکھنا تو درکنار کبھی اس کی کوشش بھی نہیں کی۔دنیا ستاروں پر کمند ڈال رہی ہے اورہم اپنے اداروں کا قبلہ تک درست نہیں کرسکے۔قیام پاکستان کے وقت برصغیر میں آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی گئی تھی اور انسانی اقدار کی جس طرح پامالی کی گئی تھی،اس کے اسباب خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں عملاً آج بھی ہم ان ہی طوفانوں کی زد میں ہیں۔انسانی زندگی کی ارزانی،معصوم و نہتے شہریوں کی ہلاکتیں اور وحشت و درندگی کے جو مظاہر اس وقت دیکھنے میں آئے تھے وہ کسی نہ کسی شکل میں اب بھی ہمارے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔انسانی وقار اور شرف انسانی کی دھجیاں ویسے ہی اڑائی جارہی ہیں،عورتوں اور بچوں پر مظالم کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے،معاشرے میں تفریق اور امتیاز کے مظاہر ویسے ہی موجود ہیں جیسے اس وقت تھے بلکہ ان میں شاید کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اور ہم سے قریب قریب آزاد ہونے والے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں تو ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں، مگر اس احساس زیاں کے باوجود ہم انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے اصلاح احوال کے لئے عملی اقدامات سے گریزاں ہیں اور یہی مجموعی طور پر اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو ہے۔انتہائی تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم نے لٹ پٹ کر آنے والے ان لاکھوں کروڑوں افراد اور خاندانوں کی بے مثال قربانیوں کو بھی فراموش کردیا جو گھربار اور مال و دولت لٹا کر یہاں تک پہنچے تھے بلکہ جن کی عزتیں اور آبروئیں بھی اس ملک خداداد کے قیام کی کوششوں کے دوران پامال ہوئیں لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ آزادی کے باوجود ظلم و جبر اور بے حسی و فراموشی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے غلاموں کی مانند زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔