توبہ کی حقیقت اور اُس کے آداب

December 02, 2022

خورشید عالم قاسمی

انسان سے خطا ونسیان اور گناہ ومعصیت کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ اگر کسی آدمی سے کبیرہ (بڑا) گناہ ہوجائے، تو اس کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ قرآن وحدیث میں بار بار اُمتِ مسلمہ کو توبہ واستغفار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں توبہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آدمی سے جب بھی کوئی کبیرہ (بڑا) گناہ ہوجائے تو اسے فوراً اپنے گناہ سے سچی توبہ کرنی چاہیے، پھر اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بندے کے اس گناہ کو معاف فرمادیتا ہے اور بندہ پاک صاف ہوجاتا ہے۔ توبہ کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کیا شرطیں ہیں؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟ سچی توبہ کسے کہتے ہیں؟ اس حوالے سے چند سطورپیش خدمت ہیں۔

توبہ کی تعریف:۔توبہ کا معنیٰ عود ورجوع یعنی لوٹنا اور واپس ہونا ہے۔ جب اس لفظ کی نسبت کسی بندے کی طرف ہوتی ہے، تو اس وقت اس کامعنی اپنے گناہ وخطا کو چھوڑ دینا اور اپنے کیے ہوئے عمل پر نادم وپشیماں ہونا ہے۔ توبہ کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں: ’’بندہ اپنے گناہوں سے باز آجائے اور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہو اور گناہ سے یہ توبہ اس وجہ سے ہو کہ وہ گناہ ہے، اس لیے نہ ہو کہ اس میں کوئی جانی ومالی نقصان ہے اور یہ عزم وارادہ کرے کہ حتی المقدور دوبارہ یہ گناہ نہیں کرے گا۔‘‘(روح المعانی،ج: ۲۸، ص:۱۵۸)

توبہ کی شرائط:۔توبہ کےلیے کچھ شرطیں بھی ہیں۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کو ملحوظ رکھ کر توبہ کرتا ہے تو اُمید ہے کہ وہ توبہ اس کے لیے مفید اور نافع ہوگی۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کا لحاظ نہیں کرتا ، توممکن ہے کہ وہ توبہ مفید اور ثمر آور نہ ہو۔ توبہ کی قبولیت کے لیے کتابوں میں متعدد شرطیں مذکور ہیں، مگر اس حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو چھ شرطیں بیان کی ہیں، وہ نہایت ہی جامع اور سب کے نزدیک مسلّم ہیں۔ وہ شرطیں یہ ہیں : اپنےگزشتہ برے عمل پر ندامت۔ جو فرائض وواجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہیں، ان کی قضا۔ کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا، تو اس کی واپسی۔کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی، تو اس سے معافی۔ آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم وارادہ۔اور یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے، اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے۔ (معارف القرآن، ج:۸، ص:۵۰۶)

عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کے بعد توبہ کرلینے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے،مگر یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر کسی نے کسی بندے کا حق مار رکھا ہےیا کسی کا حق زور زبردستی چھین لیاہے، تو اس صورت میں صرف توبہ اور ندامت وپشیمانی کافی نہیں ہو گی، بلکہ جس بندے کا حق مارا گیا یا چھینا گیا ہے، اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے، پھر جاکر توبہ قبول ہوگی۔

موسوعہ فقہیہ میں ہے: ’’توبہ بمعنیٰ گزشتہ اعمال پر ندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم وارادہ، حقوق العباد میں سے کسی کا حق ساقط کرنے کے لیے توبہ کافی نہیں ہوگی، چنانچہ اگر کوئی کسی کا مال چرائے یا اسے غصب کرلے یا کسی اور طرح سے برا سلوک کرے تو محض ندامت وپشیمانی اور گناہوں سے رک جانے اور دوبارہ نہ کرنے کے عزم سے ان مسائل سے وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا، بلکہ حق کا ادا کرنا ضروری ہے، یہ فقہاء کے یہاں متفق علیہ مسئلہ ہے۔‘‘ (موسوعہ فقہیہ، ج:۱۴، ص:۱۵۷)

توبہ کا شرعی حکم:۔جب گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوجائے، تو اس سے توبہ کرنا فرض ہے۔ یہ واضح رہے کہ تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص صرف بعض گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو علماء کے نزدیک ان گناہوں سے اس کی توبہ درست ہے اور باقی گناہوں سے توبہ کرنا اس کے ذمےباقی رہے گا۔

توبہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ توبہ کرنا فرض ہے۔ یہ حکم قرآن وحدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ علمائے کرام نے توبہ کی فرضیت کی دلیل میں اس آیتِ کریمہ کو پیش کیا ہے: ترجمہ: ’’اور اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو،تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔‘‘(سورۃ النور:۳۱)ایک حدیث شریف میں ہے: ’’اے لوگو! مرنے سے پہلے تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،: ۱۰۸۱)

توبہ کب تک کی جاسکتی ہے؟:۔جب بندہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’اور وہی ہے جو اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو،اس کا پورا علم رکھتا ہے۔‘‘(سورۃ الشوریٰ:۲۵) جہاں تک توبہ کی قبولیت کے وقت کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک توبہ قبول فرمائے گا، جب تک کہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یعنی سورج کا پچھم سے طلوع ہونا شروع نہ ہوجائے۔ روایت میں ہے: یعنی اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرمائے گا، جب تک اس بندے میں موت کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں۔(صحیح مسلم،: ۲۷۰۳) حدیث میں ہے: ’’یقیناً اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، جب تک کہ وہ جاں کنی کے عالم میں نہ ہو۔‘‘(سنن ترمذی: ۳۵۳۷)

گناہ سے فوراً توبہ کیجیے: آدمی سے گناہ ومعصیت کا ہونا فطری بات ہے، مگر جوں ہی ہمیں احساس ہو کہ ہم نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں بدکار اورفاسق وفاجر شخص کی طرح گناہ سے بے اعتنائی نہیں برتنی چاہیے، گناہ کو معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے، ہمیں مومن جیسے اوصاف اپنانے چاہئیں۔

جب ہم سے کسی گناہ کا صدور ہوجائے تو ہمیں اس گناہ کو پہاڑ جیسا بوجھ سمجھنا چاہیے اور اس سے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں’’بے شک مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے، جیسا کہ وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ڈررہا ہے کہ وہ اس پر گر پڑے، جب کہ بدکار اپنے گناہوں کو اس مکھی کی طرح دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزر گئی۔‘‘(صحیح بخاری،: ۶۳۰۸)

ہمیں پتا نہیں کہ کب ہم اس دنیا سے رخصت ہوجائیں، اس لیے ہمیں توبہ کرنے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے، بلکہ عجلت سے کام لینا چاہیے۔ توبہ کے بعد ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت ہر وقت ہماری توبہ کی منتظر ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف مسلمان بلکہ توبہ کے بعد کفار ومشرکین کو بھی معاف فرما دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نصاریٰ کے کفر وشرک کو بیان کرنے کے بعد قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: ’’کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے؟ حالاں کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ :۷۴) علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں: ’’یہ اسی غفورو رحیم کی شان ہے کہ جب ایسے ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہوکر اور اصلاح کا عزم کرکے حاضر ہوں، تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرمادیتا ہے۔‘‘ (تفسیر عثمانی)

توبۃا لنصوح کیجیے:گناہِ کبیرہ کے ارتکاب کے بعد ہمیں اپنے رب کے سامنے ’’توبۃ النصوح‘‘ کرنی چاہیے۔ قرآن کریم میں ’’توبہ نصوح‘‘ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ توبہ نصوح کیا ہے؟ ایک روایت میں ’’توبہ نصوح‘‘ کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے: ترجمہ: ’’ بندہ اس گناہ پر نادم ہو جس کا اس نے ارتکاب کیا، پھر اللہ کے سامنے معذرت پیش کرے، پھر بندہ اس گناہ کی طرف نہ لوٹے، جیسا کہ دودھ تھن میں نہیں لوٹتا۔‘‘ (الدر المنثور،ج:۸، ص:۲۲۷)

حضرت ابن عباس ؓکے نزدیک توبہ نصوح یہ ہے: ’’دل میں گناہ پر شرمندگی ہو، زبان سے استغفار کرے، بالکلیہ گناہ ترک کردے اور دوبارہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔‘‘(القاموس الفقہی لغۃً واصطلاحاً، ص: ۵۰)توبہ نصوح کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر جو احسان فرمائے گا، اس کا ذکر بھی اسی آیتِ کریمہ میں فرماتے ہیں جس میں توبہ نصوح کا حکم ہے: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم اللہ کے آگے سچی توبہ کرو، اُمید ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جس دن کہ اللہ تعالیٰ نبی ﷺکو اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہیں انہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا، یوں دعا کرتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارے اس نور کو اخیر تک رکھیے اور ہماری مغفرت فرمادیجیے، آپ ہر شئے پر قادر ہیں۔‘‘(سورۃ التحريم:۸) (جاری ہے)