اسکروٹنی کے نام پر کلبوں کے ساتھ نا انصافی کی گئی

January 24, 2023

چند ہفتے امریکا کے نجی دورے پر تھا لیکن اس دوران پاکستان کرکٹ میں ہونے والی تبدیلیوں نے پورا منظر ہی بدل دیا۔نئے سسٹم کے دوران تین سال سے کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیا البتہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ ٹیموں کی بندش سے سینکڑوں کھلاڑی بےر وز گار ہوگئے۔ نجم سیٹھی کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا ہے اس لئے مجھے علم ہے کہ وہ اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں، ان کے آنے کے بعد پرانے آئین کو بحال کردیا گیا ہے لیکن ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بحالی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت ملک میں جس طرح معاشی مسائل ہیں ڈپارٹمنٹس کو قائل کرنا آسان نہیں ہوگا لیکن نجم سیٹھی کے پرانے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے میں پر امید ہوں کہ وہ کم وقت میں ایک بار پھر اچھے کام کر یں گے۔

میرے امریکا میں قیام کے دوران جس چیز نے سب سے زیادہ خوشی دی وہ پاکستانی ٹیسٹ ٹیم میں سابق کپتان سرفراز احمد کی واپسی تھی۔چار سالوںسے میں بھی شور مچاتا رہا ،سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی مطالبہ کرتے رہے لیکن سرفراز احمد کو باہر بٹھا کر میرٹ کو قتل عام کیا گیا۔ 2019 میں وہ دن سیاہ قرار دیا گیا جب سرفراز کو کپتانی سے ہٹایا گیا تھا اور پھر انھیں ٹیم سے ہی باہر کر دیا گیا۔ اب سرفراز احمد نے ثابت کر دکھایا کہ انہیں باہر بٹھا کر زیادتی کی گئی۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے پانچویں روز 319 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی دوسری اننگز جاری تھی کہ خراب روشنی کی وجہ سے میچ روک دیا گیا۔

نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان اورنیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والا دوسرا ٹیسٹ میچ بھی ڈرا ہو گیا۔پاکستان کو ابھی جیت کے مزید 15 رنز درکار تھے جبکہ نیوزی لینڈ کو جیت کے لیے صرف ایک وکٹ درکار تھی۔پاکستان کے آؤٹ ہونے والے آخری بیٹر سرفراز احمد تھے، جنھوں پاکستان کی جانب سے شاندار سنچری اسکور کی ہے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں سرفراز احمد کی چوتھی سنچری ہے۔ اس سیریز میں تین نصف سنچریاں بھی بنائی۔ سرفراز نے سنچری بنا کر ان سے ایک یقینی جیت چھیننے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف مسلسل اچھی کارکردگی دکھانے پر وکٹ کیپر سرفراز احمد کو پلیئر آف دی میچ اور سیریز کے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ سرفراز احمد نے سیریز میں مجموعی طور پر 335 رنز بنائے۔ انہوں نے دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 78 جبکہ دوسری اننگز میں 118 رنز بنائے۔میچ کے بعد سرفراز احمد نے کہا کہ ’میں نے اللہ سے موقع مانگا تھا اور وہ مجھے مل گیا۔

میں پہلے ٹیسٹ میں بہت دباؤ میں تھا لیکن لڑکوں اور کپتان نے مجھے اعتماد دیا۔ میرے خیال میںسرفراز احمد فارم میں تھے انہیں ون ڈے سیریز میں کھلانی چاہئے تھی۔ محمد رضوان کے ساتھ سرفراز احمد کو ون ڈے سیریز میں موقع دیا جاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا انگلینڈ جوز بٹلر کے ساتھ جونی بریسٹو کو کھلا سکتا ہے تو رضوان اور سرفراز ایک ساتھ کیوں نہیں کھیل سکتے۔

دراصل گذشتہ چار سالوں کے دوران نئے سسٹم کو بنیاد بناکر چند لوگوں نے جس طرح میرٹ کی دھجیاں اڑائیں ،وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ نجم سیٹھی کے آنے سے اب خوشی اس بات کی ہے کہ کراچی کے کھلاڑیوں سرفراز احمد، میر حمزہ، ابرار احمد اور سعود شکیل کو ایک ساتھ موقع مل گیا۔ورنہ ایک وقت وہ تھا کہ جب کراچی کے کھلاڑی پاکستانی ٹیم میں جگہ بنانے میں مشکلات سے دوچار ہوجاتے تھے۔ 2014کے آئین کو بحال کرکے اب ریجن کے انتخابات کرائے جائیں اور اسکروٹنی کے نام پر جس طرح کلبوں کےساتھ سلوک کیا گیا اس کا بھی تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔

شاہد آفریدی کو چیف سلیکٹر بناکر اچھا فیصلہ کیا گیا تھا۔ شاہد نے اپنے انداز میں دبنگ فیصلے کئے لیکن ایک سیریز کے بعد انہیں سلیکشن کمیٹی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ پاکستان کرکٹ کو شاہد آفریدی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔مجھے شاہد آفریدی کا انداز پسند آیا جب وہ کہہ رہے تھے کہ سلیکشن کے دوران ہماری دلائل کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں سے متعلق بحث، ان کی ماضی اور ڈومیسٹک کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر ٹیم بناتے ہیں۔ بڑے اچھے ماحول میں سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کا رابطہ تھا۔

بابر اعظم کے بارے میں یہ رائے سامنے آرہی تھی کہ وہ من مانیاں کررہے تھے لیکن شاہد آفریدی نے اس تاثر کو بھی زائل کیا۔ نجم سیٹھی نے پی سی بی میں ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے لیکن انہیں اپنی انتظامی ٹیم کے ساتھ اس گاڑی کو منزل پر پہنچانے کے لئے سخت فیصلہ کرنا ہوں گے۔ اس طرح کے فیصلے وہ ماضی میں کر چکے ہیں۔ مجھے ان سے مزید اچھے فیصلوں کی امید ہے۔ وہ فیصلہ سازی میں پختہ ہیں اور یہی ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔