سید کمال کی تفریح سے بھرپور معاشرتی فلم ’’انسان اور گدھا‘‘

January 24, 2023

جمعہ 14؍ ستمبر 1973ء کو پاکستانی سنیما پرایک دل چسپ فلم ’’انسان اور گدھا‘‘ کے نام سے پیش کی گئی، اس فلم کو انوکھی اس لیے کہا گیا کہ پہلی بار ایک جانور ’’گدھا‘‘ کو مرکزی خیال بنا کر کہانی کا پلاٹ تیار کیا گیا۔ اس مرکزی خیال کو فلمی مصنف تنویر کاظمی نے پیش کیا اور کہانی خود سید کمال نے لکھی، جواس فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار بھی تھے۔ انہوں نے فلم میں ہیرو کا کردار بھی پلے کیا۔

اداکارہ نِشو، ان کے مدمقابل ہیروئن تھیں ۔ کامیڈی کے بادشاہ ’’رنگیلا‘‘ نے اس فلم میں ٹائٹل رول کیا، یعنی وہ ’’انسان اور گدھا‘‘ بنے۔ اس کہانی میں اس مال بردارجانور کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہایت جرات اور انوکھے اندز میں دکھایا گیا۔ فلم کے منظرنامے میں مکمل تفریح کو مدنظر رکھتے ہوئے بے حد موثر انداز میں انسانوں پر جہاں طنز کیا گیا، وہاں ایک جانور ’’گدھا‘‘ جو اپنے مالک کے دن رات ظلم و زیادتیوں سے تنگ آکر ایک روز اپنے خدا سےدُ عا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ڈھنگ انسانیت کا سکھا دے، اے خدا مجھ کو انساں بنادے‘‘۔ اللہ اس کی التجا اور دُعا سُن کر اس مظلوم جانور کو انسان ’’رنگیلا‘‘کی شکل میں بنادیتا ہے۔

فلمی تمثیل بہت ہی عمدہ انداز میں فوٹو گرافر اظہر زیدی نے فلمائی، جس میں ہدایت کار کی ذہنی قابلیت اور فوٹو گرافر کے تجربے نے فلم بینوں کو اس منظر میں جب گدھا، انسان کے روپ میں آتا ہے، تو محو حیرت کردیا۔ اس منظر اور فلم کے مرکزی خیال سے متاثر ہو کر بالی وڈ کے سپر اسٹار عامر خان کی فلم ’’پی کے‘‘بنائی گئی۔ ’’انسان اور گدھا‘‘ میں جن اداکاروں نے کردار نگاری کی ان میں شکیل، روزینہ، حنیف، نرالا، اسلم پرویز، ریشماں، محمود علی، سکندر، فومی، افضال احمد، خالد سلیم موٹا ، سلطان راہی، کیفی کے نام شامل تھے۔

اس فلم کی کہانی کراچی کی قدیم بستی، لیاری کے رہنے والے محنت کش مزدور، جو شہر میں مال برداری کے لیےگدھا گاڑی چلاکراپنے کنبے کا پیٹ پالتے ہیں، ایسے ہی ایک گدھا گاڑی والے عبدل (کمال) جو شہر میں مال برداری کرتا ہے۔عبدل کے پاس دو گدھے تھے، جس میں ایک کا نام عبدل نے منگو رکھا تھا، منگو گدھا عبدل کو بہت پیارا تھا۔ ایک روز بستی کا ایک اور گدھا گاڑی والا بھولا (نرالا) جس کا گدھا مر جانے کے بعد وہ بے روزگار ہوجاتا ہے، تو ایک روز عبدل سے گدھا لینے کے لیے درخواست کرتا ہے۔

عبدل کو بھولے کے حالات پر ترس آتا ہے اور وہ اسے اپنا پیارا گدھا منگو دیتا ہے اور ساتھ یہ تاکید کرتاہے کہ ’’منگو‘‘ اسے بہت پیارا ہے۔ اس پر ظلم نہ کرنا اور اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لینا، مگر بھولا اس کے برعکس عمل کرتا ہے۔ وہ منگو کو بے حد مارتا پیٹتا ہے اور رات بھر اسے کھانے کو بھی نہیں دیتا، جس سےمنگو بھولے سے بدظن ہوجاتا ہے اور ایک رات کو وہ اس کے یہاں سے فرار ہو کر سڑکوں پر نکل آتا ہے۔ جانور جب اپنے اردگرد ظلم و ناانصافی دیکھتا ہے، تو وہ اپنے رب سے انسان بننے کی دُعا مانگتا ہے۔ اللہ تعالی کی قدرت جوش میں آکر اسے انسانی روپ میں لاتی ہے۔

بنا کپڑوں کے منگو اب انسان بن کر رنگیلا کی شکل میں آتا ہے، تو سب سے پہلے اپنے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے بھولا کے گھر جاکر اس کے کپڑے پہن کر سڑک پر آتا ہے، تو اسے ہر جگہ دھوکا فریب نظر آتا ہے، پھراسے ایک جیل سے فرار ہونے والا قیدی ملتا ہے، جو منگو کی معصومیت سے فائدہ اٹھا کر اس کے کپڑے خود پہن کر اسے اپنے قیدی والے کپڑے دیتا ہے، جسے پہن کر منگو سڑکوں پر گھومتے ہوئے پولیس کی نظروں میں آکر جیل چلاجاتا ہے۔ جیل میں تھانیدار کے کمرے کے سارے پودے کھاجاتا ہے، اس کا مالک عبدل تھانے میں آتا ہے، تو وہ مالک مالک کہہ کر اسے پکارتا ہے، عبدل کو اس پر رحم آتا ہے، اس قیدی کے پکڑے جانے کےبعد منگو جیل سے رہا ہو کر ایک پارک میں جاکر سوتا ہے، تو وہاں ایک سیٹھ سکندر کو قاتلوں سے بچاتا ہے۔

سیٹھ اس پر مہربان ہو کر اپنے ساتھ لاتا ہے اور اس کا حلیہ بدل دیتا ہے۔ منگو کے پاس اب دنیا کی ہر سہولت ہوتی ہے، مگر وہ اپنی گدھے والی حرکتیں نہیں بھولتا۔ سیٹھ سکندر ایک روز مرنے سے قبل اپنی ساری جائیداد منگو کے نام کرجاتا ہے، منگو اپنے مالک عبدل کے نام آدھی جائیداد کرکے اس کی شادی نِشی (نشو) سے کرواتا ہے۔ سیٹھ سکندرکا بھتیجا سلیم (شکیل) نشی سے شادی کا خواہش مند ہوتا ہے ، جو ایک عیاش طبیعت شخص تھا۔ عبدل اور نشی کی شادی رکوانے کے لیے وہ شہر کے ایک بڑے بدمعاش دلاور (اسلم پرویز) کی مدد لیتا ہے۔ عبدل کی بستی کا رہنے والا راجہ (حنیف) بھی اسی دلاور کا کارندہ تھا، جو بستی کی ایک ناچنے والی لڑکی رانی (روزینہ) کو بے آبرو کردیتا ہے۔

رانی، سڑکوں پر ناچتی ہے ، عبدل سے پیار کرتی ہے، مگر عبدل نشی کو چاہتا ہے۔ رانی ایک روز راجہ اور عبدل کی لڑائی میں راجہ کی گولی کا شکار ہو کراپنی جان دے دیتی ہے۔ عبدل اور نشی کی شادی والے دن دلاور اپنے ساتھیوں کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے، اس بلوے میں سلیم، دلاور کی گولی سے ہلاک ہوجاتا ہے، الزام منگو پرآتا ہے اور منگو کو عدالت اس قتل کے جُرم میں سزائےموت سناتی ہے۔ منگو عدالت میں چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں، میں نے سلیم کا قتل نہیں کیا، مگر جھوٹے گواہوں کی وجہ سے اسے سزائے موت ملتی ہے، جب اسے پھانسی کے لیے لے جایا جاتا ہے، تو ایک بار پھر وہ اپنے رب سے حیوان بننے کی دُعا کرتا ہے اور اس کی دُعا قبول ہوتی ہے، وہ پھانسی گھاٹ پر دوبارہ ایک گدھے کی صورت میں آجاتا ہے، جسے دیکھ کر سب حیران ہوجاتے ہیں کہ منگو واقعی بے گناہ تھا۔

اداکار کمال نے اس فلم میں عبدل گدھا گاڑی والے کا عوامی رول اوراپنے توتلے لہجے میں مکالموں کی ادائیگی سے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔ ماضی کی خُوب صورت چارمنگ اداکارہ روزینہ نے سڑکوں پر ناچنے گانے والی لڑکی رانی کے کردار میں عمدہ رقص اور اداکاری کی، جو فلم کا اصل حُسن ثابت ہوئی۔ اداکارہ نِشو نے اس فلم میں ہیروئن کا کردار کیا تھا۔ ٹی وی اداکار محمود علی کی بیٹی نشی جو ایک الٹرا ماڈرن لڑکی ہوتی ہے۔

پھر کہانی کے ایک موڑ پر عبدل گدھا گاڑی والے سے محبت کرتی ہے اور اس کے توتلے پن کا علاج کرواتی ہے۔ ٹی وی کے معروف اداکار شکیل نے اس فلم میں اپنے منفی کردار میں مناسب کردار نگاری کی۔ وہ اس طرح کے کرداروں کے لیے موزوں چہرہ نہ تھے، پھر بھی سید کمال کی فلم میں انہوں نے ایس ایم یوسف کی ہونہار کے بعد وِلن کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ ناموراداکار اسلم پرویز نے حسب معمول ایک بار پھر اس فلم میں اپنے ولن کے کردار کو بڑی عمدگی سے ادا کیا۔ دلاور کا کرداربہت پسند کیا گیا، ان کے کارندے کے رول میں ماضی کے ایک اور ولن اداکار حنیف بھی مناسب رہے، اداکار سکندر نے سیٹھ کا کردار بہ خوبی ادا کیا۔

فلم ساز سید کمال نے اس فلم کی پروڈکشن میں اپنی ذہنی اور تفریحی صلاحیتوں کا بہت عمدہ اظہار کیا ہے۔ پاکستانی سنیما پر پہلی بار کسی جانور کو مرکزی خیال بنا کرکہانی کا اسکرپٹ لکھوایا گیا۔ بہ طور ہدایت کار اور اداکار بھی سید کمال اس فلم میں بے حد کام یاب رہے ۔ انہوں نے ایک بہترین ٹیم اپنے ساتھ بنائی۔ موسیقار ناشاد نے کہانی اور سچویشن کو مدنظر رکھتے ہوئے نغمات کی دھنیں مرتب کیں اور ان دھنوں پر تسلیم فاضلی کے بول بھی بے حد عمدہ غمازی کا حامل رہے۔ تدوین کار اے سعید اور ان کے معاون زیڈ اے زلفی نے پوری فلم کو ایک خاص رفتار اور ردھم کے ساتھ ایڈیٹ کرکے کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ فلم کے کسی سین میں بوریت اور اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔

اداکاروں میں سرفہرست رنگیلا رہے، جنہوں نے بہ یک وقت گدھے اور انسان کے کردار نہایت خوش اسلوبی اور ہنہناتے ہوئے کچھ اس انداز سےا دا کیے کہ وہ جس فریم میں نظر آئے ، فلم بین ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ خاص طور پر جب وہ گدھوں کی کانفرنس بلا کران سے خطاب کرتا ہے، تو ان کا انداز سابق وزیراعظم کی طرح تھا، جس پر سنسر نے اعتراض بھی اٹھایا تھا اور وہ حصہ فلم سے نکال دیا گیا تھا، کیوں کہ یہ ملک بہت ہی بڑا جمہوری ملک ہے۔ انسان اور گدھا، ایک ایسی فلم تھی، جسے آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔