’’کینسر ‘‘ یہ نام سنتے ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔آنکھیں خوف سے جھپکنا بھول جاتی ہیں، لب کچھ کہنے سے قاصر اور چہرہ کملا جاتاہے ۔ایسا لگتا ہے یہ بیماری موت کا پیغام لے کرآئی ہے۔ لیکن ایسے جی دار لوگ بھی ہیں جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی سے لڑتے ہیں ۔یقین نہیں آرہا تو زیر نظر مضمون پڑھ کر اندازہ ہوجائے گا۔ کچھ نے کینسر کا جواں مردی سے مقابلہ کیا اور زندہ دلی سے جی رہے ہیں ،کچھ نے ہمت تو نہیں ہاری لیکن زندگی ہار کردی۔
بھارتی اداکار رشی کپور بھی کینسر کو شکست نہ دے سکے اور دنیا سے چلے گئے۔
اداکارہ نرگس اور فیروز خان بھی کینسر میں زندگی کی بازی ہار گئے، جب کہ اداکار سنجے دت ،راکیش روشن کینسر کو شکست دینے میں کامیاب رہے ۔ پاکستان کے اداکار ارشد حسین ، اظہار قاضی، اداکار اور کامیڈی کے بادشاہ سکندر صنم بھی گئے ۔ اداکارہ، یاسمین اسماعیل، ہیر سنگھاراور رُخسانہ سید بھی کینسر میں جان کی بازی ہار کر اس دنیا فانی سے کوچ کر گئیں۔
سونالی بیندرے
بالی وڈ کی مقبول اداکارہ سونالی بیندرے کوجولائی 2018 ء میں ہائی گریڈ میٹا اسٹیٹک کینسر تشخیص ہوا تو انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹویٹر ) پراپنے مداحوں کو بتایا کہ ،میں زندگی کے دوراہے پر کھڑی ہوں۔ کینسر میرے جسم میں داخل ہوگیا ہے‘‘ بعد ازاںوہ علاج کی غرض سے امریکا چلی گئیں ۔ دوسال علاج کے بعد وہ ملک واپس آئیں، مگر تاحال مستقل چیک اَپ کرواتی رہتی ہیں، جس کے لیے امریکا جاتی رہتی ہیں۔
علاج کے بعدبھارت واپس آنے سے قبل سونالی بیندرے نے انسٹاگرام پر لکھا ، ’’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے لیکن میں خوش ہوں اور خوشی کے اس وقفے کا استقبال کر رہی ہوں۔ اب میرے سامنے ایک نئی زندگی ہے اور میں اسے بغل گیر ہونے کے لیے بےصبر ہورہی ہوں۔ سورج کی روشنی میں نہانے کے لیے، کھیلنے کے لیے، زندگی بھر کی مہم کے لیے‘‘۔ سونالی نے کیموتھراپی کے بعد اپنی بغیر بالوں والی تصاویر بھی پوسٹ کی ،ان کی مشہور فلموں میں سرفروش، ہمارا دل آپ کے پاس ہے، ہم ساتھ ساتھ ہیں ،زخم ،میجر صاحب، ڈپلیکیٹ، ترازو اور دل جلے شامل ہیں۔
ونود کھنہ
بولی وڈ کے لیجنڈ اداکار ماچومین ونود کھنہ مثانے کےکینسر میں مبتلا تھے۔ونود کھنہ نے اپنی بیماری کے بارے میں 6 سال تک کسی کو کچھ نہیں بتایا، اس دوران علاج کے لیے متعدد بار بیرون ملک بھی گئے۔ وہ سیاسی میدان میں بھی کافی فعال تھے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تھے۔ انہیں اپنی بیماری کے بارے میں اس وقت بتانا پڑا جب وہ اپنے حلقے میں کچھ عرصے کے لیے غیر حاضر رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ، اگر وہ سیاستدان نہ ہوتے تو اپنی بیماری کے بارے میں کبھی بھی کسی کو نہیں بتاتے ۔1946 ء میں پشاور میں پیدا ہونے والے ونود کھنہ نے 140 سے زائد فلموں میں کام کیا۔انھوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز بطور وِلن کیا تھا لیکن دلکش شخصیت کے باعث وہ جلد ہی ہیرو کے کردار کرنے لگے۔
ستر سے 80 کی دہائی کے دوران ونود کھنہ کا شمار بالی وڈ کے بہترین اداکاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی پہلی فلم من کا میت تھی، جس میں انھوں نے سنیل دت کے مد مقابل بطور وِلن کام کیا تھا۔ پورب اور پچھم‘،میرا گاؤں میرا دیش میں بھی انھوں نے وِلن کا کردار کیا لیکن بعد میں وہ بطور ہیرو جلوہ گر ہوئے۔ امر اکبر اینتھونی، پرورش، ہیرا پھیری اور مقدر کا سکندر، جیسی سپرہٹ فلموں میں ونود کھنہ نے اپنی اداکاری کےبہترین جوہر دکھائے۔ طویل علالت کے بعد2017 ء میں 70برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
راجیش کھنہ
بھارتی فلم انڈسٹری پر برسوں تک راج کرنے والے اداکار، راجیش کھنہ کا 2012 ء میں سرطان سےجنگ لڑتے ہوئے انتقال ہوا ۔راجیش کھنہ کوجب اپنی بیماری کا علم ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر سے کہا ،’’ جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب بتاؤ میرے پاس کتنے دن کا ویزا باقی ہے؟ ‘‘وہ اکثر اپنے ڈاکٹر سے کہتے کہ،میری زندگی میں آنند کی طرح جینا لکھا ہے۔
’’آنند‘‘ راجیش کھنہ کی مشہور فلم تھی۔ فلم کا مرکزی کردار آنند تھا،جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھا۔ انہوں نے امردیپ، دو راستے، بے وفائی، محبوب کی مہندی، آرادھنا، کٹی پتنگ اورآنند جیسی مقبول ترین فلموں میں کام کیا ہے۔ راجیش کھنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندی فلم کے پہلے ایسے ہیرو تھے، جنہوں نے لگاتار پندرہ سپرہٹ فلموں میں کام کیا ہے۔
منیشا کوئرالہ
نامور اداکارہ منیشا کوئرالہ کو2012ء میں جب کینسر تشخیص ہوا تو اُس وقت وہ ‘‘42‘‘ سال کی تھیں۔ بقول منیشا کے بیماری کا سن کر میں قطعاً گھبرائی نہیں۔ امریکا میں علاج کرایا، کئی تھیراپیز اور طویل علاج کے بعد 2015 میں ٹیسٹ ہوئے تو پتا چلا میں نے کینسر کو شکست دے دی ۔اس کے بعد کئ فلموں میں کام کیا ،جن میں ڈیئر مایا، لسٹ اسٹوریز، سنجو، پرستھانم شامل ہیں۔
منیشا اسپتال میں کیمو تھراپی کے دوران اپنے تجربات قلم بند کرتی ر ہیںاور مکمل صحت یابی کے بعد ایک کتاب ’’Healed: How Cancer Gave Me a New Life‘‘ لکھی ،جس میں کینسر میں مبتلا لوگوں کو دوبارہ زیست کی طرف لوٹنے اور خود میں جیتنے کی امنگ پیدا کرنے کی مختلف راہیں بتائی ہیں۔
حنا خان
بالی وڈ کی مقبول اداکارہ حنا خان چند سال سے کینسر کا علاج کرارہی ہیں، حال ہی میں حنا نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا ،جسے سن کر اُن کے مداح خوش بھی ہوئے اور حیران بھی۔ خوش اس لیے کہ وہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں اور حیران یوں ہوئے کہ کیموتھراپی میں بال گر جاتے ہیں لیکن قبل اس کے کہ حنا کے بال ختم ہوتے انہوں نے خود اپنے بالوں کو کاٹ دیا، اس حوالے سے دل کو چھونے والی ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں وہ آئینے کے سامنے بیٹھی ہیں، پس منظر میں ان کی والدہ کی روتی ہوئی آواز ہے، جب وہ ایک ایسے منظر کو دیکھنے کی تیاری کر رہی ہیں، جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
حنا نے ایک ٹوئٹ شیئر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ،’’ اگرچہ میرے لیے اپنے بال کھونا مشکل تھا، لیکن اصل تاج تو میری ہمت اور طاقت ہے۔ بال اور بھنوؤں کے بال دوبارہ آ جائیں گے، نشانات مٹ جائیں گے، لیکن روح کو مکمل رہنا چاہیے۔‘‘ ٹوئٹ کے اختتام پر حنا نے لکھا کہ ’’خدا میرے درد کو کم کرے اور مجھے فاتح بننے کی طاقت دے۔ برائے مہربانی میرے لئے دعا کریں۔‘‘حنا خان نے یہ بھی کہا کہ وہ کینسر کی جنگ کے دوران پہننے کے لئے وگ میں اپنےکٹے ہوئے بالوں کا استعمال کریں گی۔
نادیہ جمیل
پاکستان کی معروف اداکارہ نادیہ جمیل 2020 ء سے ’’بریسٹ کینسر ‘‘ سے لڑرہی ہیں اور وہ یہ جنگ اپنی ہمت و حوصلے سے جیت کر دوبارہ شوبز کی دنیا میں آگئیں۔ نادیہ کہتی ہیں کہ ’’میں زندگی سے محبت کرتی اور آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘ جب انہیں بریسٹ کینسر کا علم ہوا تو وہ فوری علاج کے لیے لندن چلی گئیں۔ اپریل 2020ء میں پہلی سرجری ہوئی ، جس کے بعد کیموتھراپی کا آغاز ہوا۔
اس دوران نادیہ جمیل نے اپنے سر کے بال کٹوا دئیے اور مداحوں کو سوشل میڈیا پر اپنی صحت سے متعلق آگاہ کیا، بعدازاں چند پوسٹس میں مایوسی کا اظہار کیا۔ مداحوں سے دعاؤں کی درخواست کی۔ جون 2020کے وسط میں نادیہ جمیل کی طبیعت کافی بگڑ گئی تھی ۔ ڈاکٹرز نے انہیں بتایا تھا کہ، جسم میں کوئی وائرس داخل ہو گیا ہے، کورونا ٹیسٹ کیا گیا جو خوش قسمتی سے منفی آیا ۔جون کے وسط میں ہی دماغ کا اسکین کیا گیا۔ کیموتھراپیز کی وجہ سے وہ کافی کمزور ہوگئی تھیں، جب صحت میں بہتری ہوئی تو نادیہ جمیل نے فوٹو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر لکھا کہ،’’ الحمداللہ میرے بال آہستہ آہستہ دوبارہ آرہے ہیں۔
میں سوچ رہی ہوں کہ اب اپنے بال چھوٹے رکھوں گی، کیوںکہ مجھے اپنا سر بہت پسند آیا ہے اور میں اس سے کچھ عرصے تک لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں۔اپنے بارے میں اچھا محسوس کرنا بہت ضروری ہے ،اس کا احساس مجھے دور ان بیماری ہوا۔ میری خود اعتمادی کا انحصار اس چیز پر بہت زیادہ ہے کہ میں اپنے لیے کیا کررہی ہوں، کینسر سے دوچار ہونے سے پہلے میں اس تصور سے نابلد تھی۔
میں زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں، زندگی سے محبت کرنا اور ترقی کی منازل طے کرنا چاہتی ہوں۔ اسی لیے اب جب کوئی بھی چیز جو منتخب ہو کر میری طرف آتی ہے، میں اس سے اچھی طرح سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔ زندگی ایک خوبصورت نعمت ہے، یہ پلک جھپکتے ختم ہوجاتی ہے اور ہم سب ابدی زندگی کی جانب گامزن ہوجاتے ہیں تو اس لیے زندگی کے ہر منٹ،ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔‘‘
اسماء عباس
اداکارہ اسما ء عباس کوجب علم ہوا کہ وہ ’’کینسر ‘‘ میں مبتلا ہوگئی ہیں تو بقول اُن کے وہ قطعاً خوف زدہ ،پریشان نہیں ہوئیں ،جب کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے ،جس کا نام سن کر ہی نیم جاں ہو جاتے ہیں۔لیکن میں اپنی بیماری کا سن کر اپنے روز مرہ کا موں میں ایسے مصروف ہوگئی جیسے کچھ ہواہی نہیں۔ ڈراموں کی شوٹنگ کراتی رہی۔ ایک انٹرویو میں اسماء عباس نے بتایا کہ،2021 ء میں کینسر کا علم ہوا۔
اس سے قبل میری طبیعت گری گری سی رہنے لگی تھی۔ مختلف ٹیسٹ اور بائیوپسی کے بعد پتا چلا کہ میں تو کینسر کو پال رہی ہوں ۔یہ بھی بتادوں کہ ٹیسٹ کرانے کے فوری بعد میں کراچی ایک ڈرامے کی شوٹنگ کرانے چلی گئی تھی، وہیں مجھے اپنی رپورٹ کا پتا چلا تو میں شوٹنگ ادھوری چھوڑ کر راولپنڈی آگئی اور فوری علاج شروع کرادیا ۔دوران علاج آیت کریمہ کا ورد کرتی رہتی ،پھر یہ مرض تاحال مجھ پر چھ بار حملہ آور ہوا ۔خدا کے کرم سے ہر بار بچ گئی۔
اُس وقت مجھے ایسا لگا کہ خدا کو مجھ سے بہت پیار ہے لیکن لوگوں کے رویّوں نے مجھے بہت دکھی کیا ،کچھ نے سوشل میڈیا پر مجھے نصیحتیں کیں ،کچھ نے میرے بلاک پر کمنٹس کیے ،کہا کہ نماز پڑھیں ،سر پر دوپٹا لیں اور نہ جانے کیا کچھ کہتے رہتے ۔کبھی اُن کی باتوں کا جواب دیتی ،کبھی خاموش ہوجاتی لیکن دکھ بہت ہوتا ۔ عبادت اللہ کے لیے ہوتی ہے، بندوں کے لیے نہیں ۔اپنا حساب کتاب میں نے دینا ہے کسی دوسرے نے نہیں۔
تنقید کرنے والوں کو یہ تک تو معلوم نہیں کہ، دل آزاری کتنا بڑا گناہ ہے۔ بہرحال وہ جانیں اُن کے کام۔ میرے حوصلے اور اللہ پر ایمان نے مجھے صحت یاب کردیا۔ بس جو لوگ اس مرض سے دوچار ہیں، اُن سے اتنا کہوں گی کہ وہ علاج میں غفلت نہ کریں اور دوسروں کی تلخ باتوں کو نظر انداز کردیں۔ اسماء عباس کے مشہور ڈراموں میں ننھی ،من کے موتی، دیوار ِشب شامل ہیں ۔دوران بیماری وعلاج انہوں نے بیٹی، داستان، رانجھا رانجھا کردی اور گوہر ِنایاب ڈراموں میں کام کیا۔
اسماء نبیل
ڈراما رائٹر،اسما ء نبیل کے نام کے ساتھ کئی مقبول ڈرامے جڑے ہوئے ہیں۔ ’’جیو‘‘ چینل کی مشہور سیریل ’’خانی ‘‘نے تو ریکارڈ ہی توڑدیا تھا ،اس کے علاوہ ’’باندی ‘‘ اور ’’سر خ چاندنی ‘‘ نے مقبولیت کے ہمالیہ سر کیے ۔اسماء اب ہم میں نہیں ہیں۔ کینسر سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئیں ۔وہ اس مرض کے خلاف موثر آواز بننا چاہتی تھیں ،ان کا ارادہ سر طان کے موضوع پر فیچر فلم بنانے کا تھا۔
اس ضمن میں اسماء نبیل کا کہنا تھا ،’’ا س فلم کی کہانی کو خوب صورت، پیار بھرے انداز میں رقم کروں گی، جس میں کینسر کا مریض ولن کا رول کرے گا ، گرچہ اس وقت فلم بنانا کافی مشکل ہے لیکن کوشش کرلینے میں حرج بھی نہیں ۔‘‘ایک انٹرویو میں اُن سے سوال کیا گیا کہ ،آپ ڈراما رائٹر کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں ،پھر آپ نے بریسٹ کینسر جیسے حساس موضوع پر ڈرامہ بنانے کا کیوں نہیں سوچا، جب کہ پاکستان میں ڈرامہ فلم سے بہت زیادہ مقبول ہے۔
اس بارے میں اسما نبیل نے وضاحت کی کہ میں نے ابتدا میں ڈراما بنانے کی ہی کوشش کی تھی، مگر کیونکہ ڈرامہ ایک مختلف سطح پر دیکھا جاتا ہے اور اس میں اس موضوع میں کچھ حساسیت زیادہ تھی اور شاید بہت کھلی باتیں بھی ،جو نہیں ہوسکتی تھیں ،اس لیے سوچا کہ فلم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں بہت سی باتیں کھلے انداز میں کر سکتے ہیں۔ اس فلم کو موبائل سینما کے ذریعے گاؤں گاؤں پہنچانے کا منصوبہ بھی ہے اور یہ کام ہر صورت کرنا چاہتی ہوں۔ اسماء نے اکتوبر 2020 میں فلم ریلیز کرنے کا سوچ بھی لیا تھا ،کیوںکہ یہ ماہ بریسٹ کینسر سے آگاہی کا ہوتا ہے۔
ڈرامے لکھنے سے قبل، اسماء ایک ایڈ ورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرتی تھیں اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتی رہتی تھیں۔ کینسر سے جنگ کے دوران ہی انہیں طویل کہانیاں لکھنے کا خیال آیا اور پھر اس کو عملی جامہ پہنا دیا۔ ان کا پہلا ڈرامہ ’’خدا میرا بھی ہے‘‘تھا،اس کے فوری بعد’ ’خانی‘‘اور’ ’باندی‘‘ لکھا ، پھر تویہ سلسلہ چل نکلا۔
اسماء کا کہنا تھا کہ، کینسر سے لڑنا پڑتا ہے، اگر آپ کینسر کے سامنے ہار مان لیتے ہیں تو یہ آپ کو کھا جاتا ہے۔اسماء کے مرض کی تشخیص 2012 کے آخر میں ہوئی تھی، جس کے بعد ان کے دو آپریشن ہوئے ،اسی دوران نہ صرف ان کا وزن بڑھ گیا بلکہ کیمو کے بعدبال بھی جھڑ گئے اور جلد بھی خراب ہوگئی۔ اسماء کا خوب ادھورا رہا، وہ کینسر پر فیچر فلم نہ بنا سکیں اورفانی دنیا سے کوچ کرگئیں۔
نائلہ جعفری
نائلہ جعفری، ناظرین کی پسندیدہ اداکارہ تھیں۔ اداکاری کے ساتھ فیشن ڈیزائنر بھی تھیں اور ایک بوتیک کی مالک بھی۔ نائلہ 2016ء میں کینسر میں مبتلا ہوئیں۔ ابتدائی طور پر ان میں اوورین کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، بعد ازاں معدے میں بھی کینسر داخل ہو گیا۔ ان کا انتقال 17 جولائی 2021ء کو 56 سال کی عمر میں ہوا۔ دوران علاج سوشل میڈیا پر نائلہ جعفری کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ، جس میں انہوں نے مالی مدد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں کینسر میں مبتلا ہوں، اس کا علاج کرانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
حکومت اور پالیسی سازوں کو علاج معالجے کے بارے میں اقدامات کرنے چاہیں، کیوںکہ یہ مجھ جیسے سینئر آرٹسٹ کے لیے بہت اچھا ہوگا جن کے لیے بہت سی چیزیں مینیج کرنا بہت مشکل ہے۔ نائلہ جعفری کے مشہور ڈراموں میں پہچان ،الزام ،نور پور کی رانی ،عکس ،سرخ جوڑا اوردل ہے چھوٹاسا شامل ہیں۔
عظمٰی گیلانی
پاکستان ٹیلی ویژن اورریڈیو کی مقبول ترین اداکارہ عظمیٰ گیلانی نے کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ دیدہ دلیری سے کرکےاسے مات دے دی ۔انہیں حلق کا کینسر ہوا، جس سے ان کی آواز بھی متاثر ہوئی ۔لیکن اب صحت یاب ہوگئی ہیں ، دیار ِغیر میں رہتی ہیں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ایک محبت سو افسانے، وارث، دہلیز اور کیسا ہے نصیباں شامل ہیں۔ بیماری کا دور ان کی زندگی کا سیاہ ترین دورتھا، ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کچھ لوگ بیماری اور پریشانیوں میں بہادر بنتے ہیں اور تکلیف میں ہونے کے باوجود جتاتے ہیں کہ انہیں بیماری سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان کے نزدیک یہ جھوٹی بہادری ہے۔
اگر انسان کو کوئی بیماری ہے یا وہ کسی تکلیف میں ہے تو اسے اس کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ اپنی تکلیف کو جھوٹی ہنسی کے پیچھے چھپالینا چاہیے، گرچہ میں بھی ایسی ہی تھی کسی پر اپنی تکلیف ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی لیکن بیماری کے دوران احساس ہوا کہ میں نے اپنے ساتھ بہت زیادتی کی۔ خدا نے آپ کو جو جذبات دئیے ہیں چاہے وہ غم کے ہوں یا خوشی ان کا اظہار ضرور کرناچاہیے۔
لیلیٰ واسطی
اداکارہ لیلیٰ واسطی، مشہور اداکارہ طاہرہ واسطی مرحومہ کی بیٹی ہیں،جن کوبھی کینسر تھا اور اُسی میں وہ جان کی بازی ہار گئیں۔ لیلیٰ واسطی 10سال لیو کیمیا کینسر میں مبتلا رہیں ہیں۔ وہ گرین کارڈ کے لیے 2008 میں امریکا گئی تھیں،وہاں ان کی طبیعت خراب ہوئی تو اسپتال گئیں، جہاں مختلف ٹیسٹوں کے بعدکینسر کی تشخیص ہوئی۔ اس وقت وہ امریکا میں رشتے دار کے ساتھ رہتی تھیں، والدین اور شوہر پاکستان میں تھے۔
لیلیٰ واسطی کے بقول میرا علاج دنیا کے بہترین کینسر اسپتال میں ہو ا۔ڈاکٹرز نے بتایا تھا کہ ’’میرے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف 48 گھنٹے ہیں، کیوں کہ میرابلڈ کاؤنٹ کم اور حالت تشویشناک تھی لیکن مجھے اللہ نے زندگی دی، آج تک سانس لے رہی ہوں۔ زندگی ،موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ،کوئی نہیں بتا سکتا کہ ،کس کے کتنے سانس باقی ہیں۔
فردوس جمال
سینئر اداکار فردوس جمال کو 2022 ء میں بڑی آنت کے کینسر (کولون کینسر) کی تشخیص ہوئی ۔جولائی 2023 ء میں فردوس جمال کی 12 گھنٹے کی طویل سرجری ہوئی ،بعدازاں ان کی کیمو اور ریڈیو تھراپی کی گئی اور اب انہوں نے اپنے صحت مند ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
حال میں فردوس جمال نے ایک پروگرام میں اپنے کیرئیر اور دیگر معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، جوانی میں اداکاری کے جنون میں سخت بخار میں بھی شوٹنگ کی ،کیوں کہ میں کبھی بھی کسی کو بیماری سے متعلق نہیں پتا چلنے دیتا تھا۔ جب کینسر ہوا ،تب بھی کسی کو نہیں بتایا۔ لیکن لوگوں کو پتا چل ہی گیا۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ، میں صحت یاب ہوگیا ہوں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں وارث، دہلیز، دھوپ دیوار اور کرن شامل ہیں۔
نام ور بھارتی اداکار عرفان خان نیورواینڈوکرائن کینسر میں مبتلا تھے جو بعض اوقات آپریشن یا کیمو تھراپی سے ختم ہوجاتا ہے لیکن عرفان کا کینسر بڑھتا گیا۔ وہ اسے شکست نہ دے سکے اور 2020ء میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔ انہوں نے مرنے سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر ایک خط شیئر کیا تھا ،جس میں انہوںنے لکھا تھا کہ ’’مجھ میں اورکھیلے جانے والے کھیل میں ایک چیز مشترک ہے ،’’ بے یقینی‘‘۔ نہ لارڈز کے کرکٹ گراونڈمیں پتا ہوتاہے کہ اگلی گیند پر کیا ہو گا، نہ اسپتال میں اگلی سانس کا پتاہے۔ کامل بے یقینی۔
یہ احساس جیسے میرے اندر اتر گیا۔اب مجھے کائنات کی وسعت، اس کی طاقت اور اس کا نظام، سب کچھ کہیں نہ کہیں سمجھ آنا شروع ہو گئے تھے۔ آخر میرا اسپتال ایک کھیل کے میدان کے سامنے کیوں تھا؟ اور صرف میں نے ہی اس بات کو اتنی شدت سے محسوس کیوں کیا؟ یہ سب مجھے آپس میں جڑا ہوا لگنے لگا۔ تو سمجھو کہ بس جو چیز یقینی ہے، وہ بے یقینی ہے۔ یعنی بے یقینی کے علاوہ اس پوری کائنات میں کچھ بھی ایسا نہیں جسے یقینی کہا جا سکے۔
کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد مجھے انداز ہوا کہ حقیقت میں آزادی کا مطلب ہے کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مجھے کوئی بڑی کام یابی ملی ہے۔ جیسے زندگی کا جادو بھرا ذائقہ مجھے پہلی بار چکھنے کو ملا ہے اور یہ سب میرے جسم کے ایک ایک پور میں اتر چکا تھا‘‘۔دنیا سے رخصت ہونے سے قبل عرفان خان نے اپنی اہلیہ سے کہا:’’ دیکھوامّاں مجھے لینے آئی ہیں ، وہ میری تکلیف کم کرنے آئی ہیں۔‘‘انہوں نے آخری لمحات میں یہ بھی کہاتھا:’ ’ میں ہار چکا ہوں، اب مجھے یقین ہے کہ میں مرجاؤں گا، امّاں کمرے میں موجود ہیں، دیکھو وہ میرے ساتھ بیٹھی ہیں، مجھے لینے آئی ہیں۔‘‘