• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی اردو کانفرنس میں ،ریڈیو ،ٹی وی ،تھیٹر اور فن کاروں سے ملاقات کے سیشن کا مختصر احوال
عالمی اردو کانفرنس میں ،ریڈیو ،ٹی وی ،تھیٹر اور فن کاروں سے ملاقات کے سیشن کا مختصر احوال

چار روزہ عالمی اُردو کانفرنس میں ہر روز فن کاروں کے ساتھ’’میں ہوں کراچی ‘‘ کے عنوان سےسیشن ہوئے۔ اس موقع پر مداح اپنے پسندیدہ فن کاروں کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے۔ پہلے روز5 دسمبر کو پاکستانی کامیڈین، جیو نیوز کے پروگرام’’ ہنسنا منع ہے ‘‘کے میزبان تابش ہاشمی اور اینکر وسیم بادامی نے طنز ومزاح سے بھر پور گفتگو سے حاضرین سے خوب داد وصول کی، آخری روز فرید ایاز اور ابو محمد فرید قوال نے صُوفیانہ اور عار فانہ کلام پیش کرکے حاضرین کی سماعتوں میں رس گھولا۔

’’جشن کراچی ‘‘ میں ایک سیشن’تھیٹر ،ریڈیو ،ٹی وی اور فلم کہانی ‘‘ کے حوالے سے ہوا ،جس میں افتخار عارف، منور سعید،خوش بخت شجاعت، اختر وقار عظیم، امجد شاہ نے سیر حاصل گفتگو کی۔ نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیے۔ افتخار عارف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو پاکستان کا آغاز لاہور سے ہوا بعد میں کراچی میں ریڈیواسٹیشن قائم ہوا۔ 

ریڈیو پاکستان آرٹسٹوں کا گہوارہ تھا ، اس نے بڑے بڑے نام ٹی وی کو دیے اسکرپٹ کے بغیر کوئی ڈرامہ کامیاب نہیں ہوتا، سب سے پہلے ناول کو ڈراموں میں پی ٹی وی نے پیش کیا ۔ پہلا ڈرامہ شوکت صدیقی کے ناول ’’خدا کی بستی ‘‘ پر بنایا گیا ۔پی ٹی وی کے شروع کے پندرہ برس بہترین تھے۔ اختر وقار عظیم نے کہاکہ شہر میں ادیب بہت ہیں۔ 

ریڈیو پاکستان کو دانشوروں کا گڑھ کہا جاتا تھا،لٹریچر کو ڈرامے بنانے میں افتخار عارف نے اہم کردار ادا کیا ،ناول’’ خدا کی بستی‘‘ پر ڈرامہ بنانے کا مشورہ انہیں کا تھا۔ عظیم بیگ چغتائی کے ناولز انہوں نے سلیکٹ کیں کہ ان پر ڈرامے بننے چاہیے ۔فاطمہ ثریا بجیا نے بہترین ڈرامےتشکیل دئیے۔ 

’’میں ہوں کراچی ‘‘کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں معروف اداکارہ بشریٰ انصاری اور اداکار عمران اشرف گفتگو کرتے ہوئے
’’میں ہوں کراچی ‘‘کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں معروف اداکارہ بشریٰ انصاری اور اداکار عمران اشرف گفتگو کرتے ہوئے

خوش بخت شجاعت کا پہلا پروگرام فیروزاں تھا، ضیاء محی الدین پروگرام میں شرکت کی اور اتنا بہتر ین بولیں کہ ان کو طلباء کے ساتھ ایک پروگرام کرنے کی پیشکش ہوئی اور’’ فروزاں‘‘ پروگرام کی اینکر بنیں۔ پروین شاکر ِخوش بخت کے پروگرام کے اسکرپٹ لکھا کرتی تھیں، پہلے ہر کام ٹیم ورک کے ذریعے ہوتا تھا، خوش گفتار لوگ تھے، باتوں سے بھی کام کرا لیتے تھے۔

خوش بخت شجاعت کا کہنا تھا کہ اس میں طلبہ، خواتین کے الگ پروگرام ہوتے تھے۔ ریڈیو کا ذکر ہو اور یاور مہدی کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ جب ٹی وی میں آئیں تو عہدِ افتخار( افتخار عارف) میں آنکھ کھولی۔ افتخار عارف، عبیداللہ بیگ سے بہت کچھ سیکھا ۔پہلے ریڈیو اور ٹی وی میں تہذیب اور کلچر کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ریڈیو کی اپنی ایک تہذیب تھی ،کلچرتھا ،دائرہ کار تھا۔

ریڈیو ،ٹی وی کا کلچر ادبی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ایک تربیت گاہ تھا۔ دھیمی آواز میں بولنا، شائستہ گفتگو کرنا ،تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات کرنا ،انکساری کس کو کہتے ہیں ،جھک کر اپنے قد کو بڑھانے کا ہنر ہم نے ریڈیو سے سیکھا ،مگر آج یہ چیزیں کمزوری کی علامت کہلاتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ریڈیو ایک اسکول تھا اور ٹی وی اکیڈمی کا درجہ رکھتا تھا۔

A Session Of Legend کے عنوان سے ہونے والی سیشن میں منور سعید، جاوید شیخ، مصطفیٰ قریشی اظہار ِخیال کرتے ہوئے، جب کہ احسن خان نظامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں
"A Session Of Legend" کے عنوان سے ہونے والی سیشن میں منور سعید، جاوید شیخ، مصطفیٰ قریشی اظہار ِخیال کرتے ہوئے، جب کہ احسن خان نظامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں

منور سعید کا اس بارے میں کہنا تھا کہ گنڈاسا اور اکھاڑا جیسے ڈرامے شروع کیے ان ڈراموں کو دیکھ کر فلم کی آفر ہوئی ۔ خواجہ معین الدین تھیٹر کا بہت بڑا نام تھا۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ امجد شاہ نے کہا کہ بڑے نام ریڈیو سے ٹی وی پر آئے۔ تھیٹر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

’’میں ہوں کراچی ‘‘ کے عنوان سے ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا ،جس میں عصرِحاضر کی معروف اداکارہ ماہرہ خان مدعو تھیں، نظامت کے فرائض اینکر وسیم بادامی نے انجام دئیے ۔ وسیم بادامی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ایسے پروگرامز کا انعقاد شہر کے زندہ دل ہونے کی دلیل ہے۔ماہرہ خان نے اس موقع پر کراچی سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر ان کے دل کے قریب ہے اور انہوں نے اپنی زندگی کے اہم لمحات یہاں گزارے ہیں۔

میرا تعلق کراچی سے ہے، یہاں پیدا ہوئی اور اسی شہر میں میری شادی ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے دادا ،دادی بھارت سے ہجرت کرکے کراچی آئےاور کراچی کی زندگی کے حسین لمحات ان کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔ ماہرہ خان نے کراچی کی ثقافت اور شہری مزاج کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کسی کی شناخت یا پس منظر کو نہیں دیکھتا۔ یہاں کا مزاج تحمل اور برداشت کا حامل ہے ، یہی کراچی کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ یہاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ 

اس شہر میں میرے دوستوں کی تعداد بھی بہت ہے۔ کراچی کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے ماہرہ خان نے کہا کہ اپنے بچپن کو بہت مس کرتی ہیں، خاص طور پر زینب مارکیٹ جانا اور گول گپے کھانا۔ کبھی کبھار دل چاہتا ہے کہ برقعہ پہن کر شہر کی گلیوں میں گھوموں اور پرانی یادوں کو دوبارہ زندہ کروں، تاہم لوگوں کی پہچان کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں۔

سیشن میں ایک سوال کے جواب میں، ماہرہ خان نے کوئٹہ میں حالیہ پیش آنے والے واقعے پر بھی بات کی اور کہا کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اس طرح کے ایونٹس کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ کوئٹہ میں اس طرح کے ایونٹس ہونے چاہیے، تاکہ بدمزگی کے واقعات پیش نہ آئیں۔ 

ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی اورفلم کی کہانی کے عنوان سے ہونے والے سیشن میں منور سعید، امجد شاہ ،اختر وقار عظیم ،افتخار عارف ،خوش بخت شجاعت، نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیئے
ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی اورفلم کی کہانی کے عنوان سے ہونے والے سیشن میں منور سعید، امجد شاہ ،اختر وقار عظیم ،افتخار عارف ،خوش بخت شجاعت، نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیئے

اس موقع پر ماہرہ خان نے اپنے گھر میں پیش آنے والے چوری کے واقعے کا ذکر بھی کیا، جس پر حاضرین محفل خوب محظوظ ہوئے۔ ریپڈ فائر کے مرحلے میں وسیم بادامی کے دلچسپ سوالات اور ماہرہ خان کے جوابات نے محفل کو گرما دیا۔ آخر میں، ماہرہ خان نے ایوارڈ شوز کے انعقاد کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ ان ایونٹس میں نئے ٹیلنٹ کو سراہا جاتا ہے اور فنکاروں کو ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع ملتا ہے۔

ایک سیشن جس میں سینئر اداکار ہمایوں سعید اور گلوکار عاصم اظہر نے گفتگو کی ،نظامت کے فرائض ابصا کومل نے اپنے خوبصورت انداز میں انجام دئیے۔ ہمایوں سعید نے بتایا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے اور یہا ں کی گلیوں میں کرکٹ کھیل کر بڑے ہوئے، کراچی سے متعلق پرانی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے یہ شہر بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا ، مگر سب پہلے جیسا نہیں رہا ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شہر کو پہلے کی طرح اچھا کردے۔ اداکاری کے سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے ہمایوں سعید نے کہا کہ، مجھے شروع سے ہی ہیرو بننے کا شوق تھا۔ 

نامور لکھاری انور مقصود عالمی اُردوکانفرنس کے دوران
نامور لکھاری انور مقصود عالمی اُردو
کانفرنس کے دوران

عمر سے متعلق سوال کے جواب میں ہمایوں سعید نے کہا کہ دنیا بھر میں ہیرو اور ہیروئن کی عمر معنی نہیں رکھتی ، آج بھی عمر رسیدہ ہیرو اور ہیروئن ہالی وڈ کی فلموں میں دکھائی دیتے ہیں ، وہاں ہیرو ہیروئن کا مطلب مرکزی کردار ہوتا ہے ، انہوں نے سینما ’’سنی پلیکس ‘‘کی تعمیر کو ملک میں سینما کی واپسی قرار دیا، ہمایوں سعید نے سیشن میں ساتھ موجود گلوکار عاصم اظہر کے ایکٹنگ ٹیلنٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عاصم کی اداکاری دیکھی ہے وہ نیچرل ایکٹر ہیں، نوجوان نسل کے پسندیدہ گلوگار عاصم اظہر نے ہمایوں سعید کی جانب سے انکی ایکٹنگ کی تعریف کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی صرف گلوکاری پر ہی توجہ مرکوز رکھنا چاہتا ہوں، بغیر سیکھے اداکاری میں آنے کا ارادہ نہیں ہے، عاصم اظہر نے کہا کہ جن معاشروں میں آرٹ کو پذیرائی دی جاتی ہے، ان کی ترقی دنیا کے سامنے ہے ۔ دونوں فنکاروں نے نوجوانوں کو اپنے اندر تحمل پیدا کرنے کی تلقین کی ۔آخر میں عاصم اظہر نے اپنے ایک گانے کی چند لائنز گا کر بھی سنائیں۔

معروف سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ سیشن کی میزبانی نوجوان نسل کے پسندیدہ اداکار عمران اشرف نے کی، حاضرین کی بڑی تعداد اپنے پسندیدہ فنکاروں کو اپنے درمیان دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھی، بشریٰ انصاری نے تیز و تند جملوں اور اپنے پرانے کرداروں کے معروف ڈائیلاگز سنا کر حاضرین کو بہت محظوظ کیا، نشست کے آغاز پر آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے بشریٰ انصاری کو کروڑوں دلوں کی دھڑکن قرار دیا اور ان کے ساتھ میوزک پلے کرنے والے معروف کی بورڑ پلئیر اور نوجوان نسل کے پسندیدہ گلوگار عاصم اظہر کے والد اظہر حسین کے لیے حاضرین سے تالیاں بجوائیں۔ 

عالمی اُردو کانفرنس میں اختتامی تقریب میں ہونے والی قوالی نائٹ کا ایک منظر
عالمی اُردو کانفرنس میں اختتامی تقریب میں ہونے والی قوالی نائٹ کا ایک منظر

اس موقع پر عمران اشرف نے کہا کہ بشریٰ انصاری جیسی بڑی فنکارہ کے ساتھ بیٹھنا بھی ایک اعزاز ہے، ملک کے نامور میوزیشن اظہر حسین کے بارے میں بات کرتے ہوئے بشریٰ انصاری نے بتایا کہ میں آٹھویں کلاس سے ان کو جانتی ہوں، بچپن میں ان سے بہت ڈرتی تھی، یہ ملک کے سب سے بڑے کی بورڈسٹ ہیں اور میرے گانوں میں موسیقی ہمیشہ یہی دیتے آرہے ہیں۔ 

عمران اشرف کا کہنا تھا کہ بشریٰ کا اردو اور پنجابی دونوں زبانوں سے گہرا تعلق ہے ،جس کے جواب میں بشریٰ انصاری نے کہا کہ شروع میں طویل عرصے تک لوگ مجھے اردو اسپیکنگ ہی سمجھتے تھے، لاہور میں رہنے کے باوجود بھی میری اردو خاصی بہتر تھی، معروف ڈرامہ نگار زہرا نگاہ کے لکھے ڈرامے میں لکھنوی انداز کا کردار بھی نبھایا۔ 

جیو کے پروگرام ’’ہنسنا منع ہے ‘‘ کے میزبان تابش ہاشمی افتتاحی تقریب میں محو گفتگو ہے
جیو کے پروگرام ’’ہنسنا منع ہے ‘‘
کے میزبان تابش ہاشمی افتتاحی 
تقریب میں محو گفتگو ہے

بشریٰ انصاری نے حاضرین کی فرمائش پر سندھی، پنجابی اور پشتو زبانوں میں گانے سنا کر خوب داد سمیٹی، عمران اشرف نے بھی شرکا کی پرزور فرمائش پر اپنے مشہور کرداروں کے ڈائیلاگز سنائے ، سیشن کے اختتام پر بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ آرٹس کونسل میں کثیر تعداد میں عوام کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو ادب کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ، ہمارے نوجوان اردو کو محفوظ رکھیں گے۔

جشن کراچی میں ایک سیشن "A Session With Legend "کے عنوان سے منعقد ہوا ،جس کی میزبانی اداکار احسن خان نے کی جب کہ شرکائے گفتگو میں فلم انڈسٹری کے عظیم فن کار مصطفیٰ قریشی ،منور سعید اور جاوید شیخ شامل تھے۔

سیشن کی ابتدا ء میں احسن خان نے کہا کہ کراچی ایسا شہر ہے جو سب کو اپنے اندر سمو لیتا ہے یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہ شہر محبتیں بکھیرتا اور ہر طرف دوستی اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ کراچی سے اُبھرنے والے آرٹسٹ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے۔ مصطفی قریشی نے کہا کہ سندھی ان کی مادری زبان ہے، اردو انہوں نے کراچی سے اپنا فلمی کیریئر شروع کرنے کے بعد سیکھی، اس سے پہلے اردو نہیں پڑھی تھی۔ 

پاکستان فلم انڈسٹری کو کسی بھی حکومت نے اتنی اہمیت نہیں دی جتنی احمد شاہ نے دی ہے، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری زوال سے دوچار ہوئی تو ہم نے وفاقی اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ فلمی صنعت کی از سر نو بحالی کے لیے کچھ کریں اور ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو ٹیلنٹ کے اظہار کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں۔

جاوید شیخ نے کہا کہ میں آج جو بھی ہوں یہ سب مجھے کراچی نے دیا ہے، میں راولپنڈی میں پیدا ہوا اور اداکاری کا شوق مجھے کراچی کھینچ لایا، کراچی صرف سب کو اپنے اندر سموتا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو پالتا بھی ہے۔ 

ماہرہ خان ایک سیشن میں کراچی کے حوالے سے اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے، نظامت اینکر وسیم بادامی کررہے ہیں
ماہرہ خان ایک سیشن میں کراچی کے حوالے سے اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے، نظامت اینکر وسیم بادامی کررہے ہیں

کراچی سے اپنے فلمی کیریئر کے آغاز کی روداد بھی سنائی اور نوجوانوں سے کہا کہ آپ کسی بھی شعبے میں جائیں کامیابی کے لئے تین شرائط یاد رکھیں، شوق، عشق اور شخصیت۔ سینئر اداکار منور سعید نے ہندوستان سے اپنے فلمی کیریئر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میراتعلق امروہہ سے ہے میں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، 1960 میں میراخاندان پاکستان ہجرت کرکے کراچی آیا اور یہاں پی آئی بی کالونی کو اپنا مسکن بنایا۔ 

بھارتی فلم ساز کمال امروہوی میرے چچا تھے ،جب کہ نامور مصور اور خطاط صادقین امروہہ میں میرےڈرائنگ ٹیچر تھے، کراچی آنے کے بعد گورنمنٹ کالج آف کراچی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اسی کالج میں ٹیچر کی ملازمت شروع کر دی،ساتھ ہی اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ منور سعید نے اداکاری کا شوق رکھنے والے نوجوانوں سے کہا کہ کامیابی کے لیے جنون و دیوانگی ہونی چاہیے اور وہ محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنے ملک اپنی زبان سب سے محبت کریں اور خوب محنت کر کے اپنے جنون کو کامیاب بنائیں۔

جشن کراچی ادب و فنون کی تمام رنگینیاں سمیٹتے ہوئے وائے ایم سی اے گراؤنڈ میں اختتام پذیر ہوا۔ کانفرنس کا اختتام قوالی سے ہوا۔ ایاز فرید اور ابو محمد نے محفل میں سماں باندھا۔ ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

سترھویں عالمی اُردو کانفرنس ’’جشن ِکراچی ‘‘ میں شرکاء ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں
سترھویں عالمی اُردو کانفرنس ’’جشن ِکراچی ‘‘ میں شرکاء ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں

کراچی کی گلیوں اور سڑکوں پر کھیلتا تھا، کرکٹ کی دنیا کے اسٹار، شاہد آفریدی

ایک سیشن معروف کھلاڑی ’’شاہد آفریدی‘‘کے ساتھ ہوا۔ نظامت کے فرائض جیو نیوز کے اینکر عبداللہ سلطان نے انجام دئیے۔ شاہد آفریدی نے اپنی گفتگو سے نوجوانوں کے دل جیت لیے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا کراچی سے تعلق بہت مضبوط ہے یہی میرا شہر ہے، مجھے بچپن سے ہی کرکٹ کا شوق تھا کراچی کی گلیوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلتا تھا ،جس وقت شہر کے حالات خراب اور ہر طرف لسانی فسادات پھیلے ہوئے تھے اس وقت بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑا ،مگر وہ وقت بھی گزر گیا۔ 

مشکل حالات میں اللہ پر بھروسہ تھا تو سب کام آسان ہو گئے، میں نے  انڈر 14 سے کرکٹ کھیلنا شروع کیا، اچھی پرفارمنس رہی پھر انڈر 19 میں سلیکشن ہوئی اور پھر قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنا، شاہد آفریدی کو ٹیم کا ہٹر قرار دیا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کے جب بھی وہ پچ پر آتے سنگل ڈبل کے بجائے چھکے چوکے مارتے اور گراؤنڈ میں بوم بوم آفریدی کے نعرے لگتے۔ کرکٹ کے علاوہ انہوں نے اپنے فلاحی کاموں اور اس کے لیے بنائی گئی تنظیم ’’ہوپ ناٹ آؤٹ‘‘ کی تشکیل پر بھی بات کی۔

اس حوالے سے ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس تنظیم کی شروعات ایک گاؤں میں کلینک سے ہوئی جہاں خواتین علاج کے لیے سیکڑوں میل دور کا سفر کرتی تھیں۔ تاہم ،اس کلینک میں انہیں یہ سہولت ملی کہ اب انہیں کہیں دور نہیں جانا پڑتا اور وہ معیاری طبی سہولیات سمیت اپنے گاؤں میں علاج کرواتی ہیں۔ 

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید