• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جیو فلمز کی شاہکار اینی میٹڈ فلم ’’گلاس ورکر‘‘

کئی برس پہلے بعض لوگوں کو ناممکن نظر آنے والی فلم ”گلاس ورکر“ آج کل قومی اور بین الاقوامی سطح پر خوب دھوم مچارہی ہے۔ 10 برس کے طویل عرصے کے بعد بننے والی فلم ”جیوفلمز“ کی پیشکش ہے ،جسے مانو اینی میشن اسٹوڈیوز نے تیار کیا ہے۔ 

پاکستان کی سب سے خوبصورت اور پہلی ہاتھ سے بنائی جانے والی فلم کو مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کے بینر تلے پاکستان بھر کے سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردیا گیا ہے۔ اس فلم نے ریلیز سے پہلے ہی دُنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھادی تھی، نوجوانوں کیساتھ ساتھ ہر عمر کے لوگ اس فلم کا بے صبری سے انتظار کررہے تھے۔

فلم پاکستان میں اُردو جب کہ بین الاقوامی سطح کے لیے انگریزی زبان میں ڈب کی گئی ہے۔ ”گلاس ورکر“ جب سینما کے بڑے پردے کی زینت بنی تو اس نے ایسی دھوم مچائی کہ پہلے ہی ویک اینڈ میں ایک کروڑ سے زائد کا بزنس سمیٹ لیا۔ صرف اوپننگ ویک اینڈ میں ہی اینی میٹڈ فلم کا 10ملین کے بزنس نے یقینا ًباکس آفس پر تاریخ رقم کردی۔ 

یہ فلم اس وقت پاکستان کے 30 سے زیادہ سینما گھروں اور 200 سے زیادہ اسکرینوں پر دکھائی جارہی ہے۔ ’’گلاس ورکر“ برصغیر کی پہلی فلم ہے جسے اینیسی انٹرنیشنل اینیمیشن فلم فیسٹیول میں مقابلے کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ فلم کانز فلم فیسٹیول میں بھی پیش کی گئی۔ 

فلم کو شنگھائی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی زبردست پذیرائی ملی ۔ لوگ اسے دیکھنے کے لیے جوق در جوق سینما گھروں کا رُخ کررہے ہیں۔ فلم کے لیے منعقد کی گئی ایک تقریب (پریمیئر) نے بھی لوگوں میں کشش پیدا کی، جس میں میڈیا، فیشن اور اینی میشن انڈسٹری میں دلچسپی رکھنے والے نوجوان، شہر کی ادبی، سماجی اور فلمی شخصیات کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک نئی اور بڑی فلم میں شرکت کرکے تقریب کو رونق بخشی۔ 

اس موقع پر فلم کی کاسٹ جن میں ڈائریکٹر عثمان ریاض خان، پروڈیوسر خضر ریاض، صدا کار ڈینو علی،مورو، مریم ریاض پراچہ، احمد ریاض، ماہم معظم، فائزہ قاضی، عائشہ شیخ، عثمان ریاض، خلیفہ سجیر الدین عائشہ شیخ اور شوبز کی معروف شخصیات نے بھی شرکت کی، جس میں فیصل قریشی، احسن رحیم، ثاقب ملک، پی ٹی وی کراچی کے جی ایم امجد شاہ، عذرا محی الدین، جاوید جبار اور دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ فلم ”گلاس ورکر“ دیکھنے والا ہر شخص اس فلم کے گن گا رہا ہے، فلم کے ہر شعبے اور مہارت کی تعریف کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ 

فلم بینوں کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے بنائی گئی اس دلکش فلم کی کہانی، عکس بندی، میوزک، کمپوزنگ، آرٹ، اینی میشن اور صداکاری ہمارے نوجوان فلم میکرز کی صلاحیت اور تجربے کا زبردست نچوڑ ہے۔ ہر عمر کے لوگ اس فلم کو دیکھنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں ہیں۔ فلم بین کہہ رہے ہیں کہ عثمان ریاض فلم بینوں کو شاندار تحفہ دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ محبت اور آگ کے شعلوں میں گھری ہوئی محبت کی دل چھولینے والی کہانی میں ہر طرح کا مسالہ موجود ہے جو عوام کی بڑی تعداد کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔

تھیٹر سے نکلنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ فلم میکرز نے اینی میشن کی صنعت کو معیاری اور تفریحی فلم دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ہے۔ شیشے کا کام کرنے والے لوگوں پر لاجواب کہانی فلمائی گئی ہے۔ پاکستان نے ایسی فلم بنانے کی کوشش کی ہے، جسے ہالی ووڈ بھی بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس فلم کی تعریف کے لیے ہمارے پاس الفاظ ختم ہوگئے ہیں، ایسے منفرد کام ہوتے رہنے چاہئیں، ہمیں اپنی اس فلم پر فخر ہے۔ عالمی سطح پر پذیرائی فلم کی ہی نہیں پورے پاکستان کی ہورہی ہے۔

فلم گلاس ورکر کے ڈائریکٹر عثمان ریاض اور ان کی ٹیم کے ارکان
فلم گلاس ورکر کے ڈائریکٹر عثمان ریاض اور ان کی ٹیم کے ارکان 

یقین نہیں آرہا کہ یہ پاکستانی آرٹسٹوں کا کام ہے۔ دُنیا میں کچھ لوگ خداد صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں جو کچھ الگ کام کرنے کی ٹھان لیں تو پھر وہ کام کرکے ہی دَم لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان عثمان ریاض ہیں جو اس فلم کے ہدایتکار ہیں۔ اپنی فلم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عثمان ریاض کا کہنا تھا کہ جب میں نے پہلی بار اس فلم کو بنانے کے لیے پینسل اٹھائی اور خاکہ بنانا شروع کیا تب معلوم نہیں تھا کہ اس فلم کو بنانے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔ فلم میں جنگ سے تباہ ہال ملک میں ”محبت“ کی داستان پیش کی گئی۔ 

اس کی تکمیل میں 10 سال لگ گئے ،برسوں کا یہ انتظار میرے لئے آسان نہیں تھا۔ میں نے اپنی تخلیقی بھوک مٹانے کے لیے اس فلم کو بڑے پردے کی زینت بنایا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید یہ فلم کبھی مکمل نہیں ہوپائے گی،مگر فلم ریلیز ہونے کے بعد عوام کے تاثرات نے میرے جنون کو مزید بڑھادیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس فلم کا ایک ایک فریم ہاتھ سے بنایا گیا ہے۔ 

یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک چلتی پھرتی پینٹنگ ہے۔ ٹوڈی اینیمیشن فلم میں ہرفریم کو ہاتھ سے بنایا جاتا ہے۔ بیک گراؤنڈز الگ سے پینٹ ہوتے ہیں اور پھر کرداروں کی تمام حرکات اور ایکٹنگ یا ہر چھوٹے سے چھوٹا اسٹیپ ہاتھ سے ہی بنایا جاتا ہے۔

اگر اس فلم کے لیے ”فریم بائے فریم اینیمیشن“ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ بہت محنت اور باریکی کا کام ہے، جسے ہر کوئی نہیں کرسکتا۔ عثمان نے یہ بھی بتایا کہ فلم میں کرداروں کے ملبوسات، بازاروں اور مناظرمیں پاکستان کی جھلک نظر آئے گی۔ فلم میں نظر آنے والے مقامات پاکستان میں موجود نوآبادیاتی تعمیرات سے متاثر ہیں۔ 

گلاس ورکر پروجیکٹ میں نوجوان اور باصلاحیت فنکار شامل ہیں، ٹیم میں کام کرنے والوں کی اوسط عمر 27 سال ہے اور 52 فی صد خواتین ہیں۔ ”گلاس ورکر“ کیلئے قومی اور بین الاقوامی کاسٹ اور عملے سمیت کل 250 لوگوں نے کام کیا۔ اگرچہ ”گلاس ورکر“ اینیمیٹڈ فلم ہے لیکن مجھے اُمید ہے کہ لوگ اس کے کرداروں اور کہانی میں اپنائیت محسوس کریں گے۔ فلم کے پروڈیوسر خضر ریاض نے کہا کہ بین الاقوامی اینی میشن انڈسٹری کی طرف سے فلم کو تسلیم کیا جانا ایک خواب کا پورا ہونا ہے۔

ڈائریکٹر عثمان ریاض، مریم ریاض اور پروڈیوسر خضر ریاض
ڈائریکٹر عثمان ریاض، مریم ریاض اور پروڈیوسر خضر ریاض

فلم کے پریزنٹنگ پارٹنر اور ”جیو فلمز“ کے ایگزیکٹیو فیضان مبارک کا کہنا تھا کہ ”جیو فلمز“ ہمیشہ پاکستانی سینما اور ناظرین کے لیے نئی اور آؤٹ آف دی باکس فلمیں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں ”گلاس ورکر“ کے ساتھ شراکت اور اِسے پیش کرنے پر فخر ہے اور سامعین کی زبردست پذیرائی سے بہت زیادہ حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ 

مانو اینی میشن اسٹوڈیوز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ”گلاس ورکر“ نے نا ممکن کو ممکن کردکھایا ہے، خوشی ہے کہ عوام کی بڑی تعداد اس فلم سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ اس فلم کے لیے ہم سب نے بہت زیادہ محنت کی ہے۔ ”گلاس ورکر“ مانڈووی والا انٹرٹینمنٹ کے سربراہ ندیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ”گلاس ورکر“ کا شاندار آغاز دیکھ کر نا صرف ہم بلکہ شائقین بھی بہت زیادہ خوش اور پُرجوش ہیں۔ ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستانی عوام معیاری کام کو بے حد سراہتے ہیں۔ 

”دی گلاس ورکر“ کی کہانی محبت اور آگ کے شعلوں میں لپٹی ہوئی محبت کی دل چھولینے والی داستان ہے، کہانی میں ونسنٹ اپنے والد کے ساتھ شیشے کی ایک ورکشاپ چلاتے ہیں۔ ان کی زندگی اس وقت بدلتی ہے جب فلم کی کردار الیس کی اپنے والدین سمیت ان کے علاقے میں آمد ہوتی ہے۔ فوج کے ایک کرنل کی بیٹی الیس وائلن بجانے کا ہنر جانتی ہے، ملک میں ہونے والی جنگ سب کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ 

اسی دوران ونسنٹ اور ایلیز کے درمیان پیدا ہونے والی محبت کو ان کے باپ دادا کے مختلف خیالات سے مسلسل چیلنج کیا جاتا ہے۔ فلم میں ایک ایسا دور بھی دکھایا گیا ہے، جس میں حب الوطنی اور سماجی موقف کو آزاد فکر اور فنکارانہ مشاغل سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے اور جہاں محبت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ فلم کے کرداروں کی کہانیاں، ملبوسات، عمارتیں پاکستان سے متاثرہیں۔ 

یاد رہے کہ ”جیو فلمز“ اس سے قبل سنیما کی بحالی کے لیے ’خدا کے لیے‘، ’بول‘، ’طیفا اِن ٹربل‘، ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ اور ’ڈونکی کنگ‘ جیسی کئی مشہور اور شاہکار فلمیں پیش کر چکا ہے۔ جنہوں نے ناظرین میں بے انتہا مقبولیت حاصل کی ہے۔ فلم 26 جولائی کو ریلیز کی گئی ہے، مگر پکچر ابھی باقی ہے۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید