وہ آتو جائے، مگر انتظار ہی کم ہے۔ ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے، زندگی تُو نے ہر قدم پہ مجھے ایک سپنا نیا دکھایا ہے،میرا تجھ سے ایسا بندھن ہے جیسے دل سے رشتہ دھڑکن کا،میرا پیار بھی ہے تُو زندگی بھی ہے تُو،اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے، ایسے ہی ان گنت شاہ کار گیت گانے والے عالمی شہرت یافتہ گائیک غلام عباس کی آواز اور کام سے کون وقف نہیں ہے۔ اُن کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انہوں نے لازوال گیت اپنی آواز میں پیش کیے ہیں۔ درجنوں فلمیں ایسی ہیں، جو ان کے گائے ہوئے گیتوں کی بدولت کام یابی سے ہم کنار ہوئیں۔
کئی برسوں سے ہماری سماعتوں میں رس گھولنے والے غلام عباس اِن دنوں شدیدعلیل ہیں،اُن کو اپنے چاہنے والوں کی دُعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔آج ہم اُن کے فنی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ غلام عباس نے یکم جنوری 1955میں ضلع جھنگ کے رہائشی مبارک علی کے گھر جنم لیا،اسلامیہ ہائی اسکول عام خاص باغ دولت پور گیٹ ملتان سے میٹرک کیا۔بعد ازاں ایم اے فلسفہ ،ایم اے اردو، ایم اے نفسیات یعنی تین ماسٹرز کیے۔9 برس کی عمر میں غلام عباس کو فیصل آباد کی بین الاقوامی میوزک کانفرنس میں گانے کا موقع مل گیا تھا، یہ میوزک کانفرنس دراصل نصرت فتح علی خاں اپنے والد کی برسی کے موقع پر منعقد کرتے تھے۔
ایک مرتبہ وہ نثار بزمی اور مہدی حسن جیسے دیوقامت فن کاروں کی شاباش کے زعم میں بے خوف و خطر ملتان ریڈیو آڈیشن دینے پہنچ گئے، جہاں چھوٹے بڑے سب کے ہاتھوں پہلی بار ہتک آمیز انداز میں ریجیکٹ کر کے انہیں عمارت سے باہر جانے کا حُکم سنا دیا، اس قدر مایوس کن آغاز کے بعد وہ واپس لاہور چلے آئے، یہاں فلمی افق پر مہدی حسن اور احمد رشدی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، ایسے حالات میں ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں اکا دکا غیر معروف بی اور سی کلاس کام ملا، لیکن کچھ نہ ہوا، مایوسی بڑھنے لگی، ایک دن ایورنیو اسٹوڈیو میں غلام عباس کو بزمی صاحب سامنے سے آتے دکھائی دیے’’کیسے ہو غلام عباس،کل تمہارا گانا ریکارڈ کریں گے، میری اپنے آپ سے جنگ ہے دیکھنا میں ہی جیتوں گا، بزمی صاحب، غلام عباس کو تھپکی دے کر چلے گئے۔
یہ 1975 کی بات ہے، اسٹوڈیو میں خوب رونق تھی، تسلیم فاضلی کے مکھڑے کو بزمی صاحب نے راگ ایمن کے سُروں میں پُرویا، تو کیا حسین مکھڑا بنا، ’’وہ آتو جائے مگر انتظار ہی کم ہے،وہ بے وفا تو نہیں میرا پیار ہی کم ہے۔‘‘ بزمی صاحب اس سے پہلے اسی راگ میں احمد فراز کی مقبول عام غزل ’’رنجش ہی سہی‘‘ ترتیب دے چکے تھے اور اس بار ان کی خود سے یہی جنگ تھی کہ وہ اسی راگ میں یکسر مختلف دُھن اور ایک نئے فن کار سے گوا کر مقبول کرائیں، ساتھ ہی غلام عباس پر بھی یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ ایک مستند گلوکار ہیں۔
اس ریکارڈنگ کا اس قدرچرچا ہوا کہ بڑے بڑے موسیقار اور ہدایت کار ریکارڈنگ کے وقت اسٹوڈیو میں جمع ہوگئے۔ ٹیک اوکے ہوئی اورغلام عباس اسٹار بن گئے۔ ہر موسیقار اور ہدایت کار کی خواہش تھی کہ ان کا اگلا گیت غلام عباس گائے۔ اس موقع اُن کی ڈائری پر ایک ماہ اور سترہ دنوں کی بکنگ لکھ دی گئی۔
فلم ’’اجنبی‘‘ کے اس گیت کو ریڈیو پر بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، اسی دوران ان کے حصے میں روبن گھوش کی فلم ’’دوساتھی‘‘ کا مقبول گیت ’’ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے‘‘، بھی آیا، اگرچہ فلم دو ساتھی پہلے ریلیز ہوئی اور اجنبی اس کے 4 ماہ بعد لیکن آڈیو پر فلم ’’اجنبی‘‘ کا یہ گیت پہلے ہی سپرہٹ ہوچکا تھا۔ 1975 میں غلام عباس نصف درجن سے زیادہ گیت سپر ڈوپر ہٹ ہوئے، وہ آتوجائے مگر انتظار ہی کم ہے۔ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے۔
میں جو کہتا ہوں بے گناہ ہے تو۔ یہ بھی نثار بزمی کی موسیقی میں ہدایت کار حسن طارق کی فلم ’’اک گناہ اور سہی‘‘ کے لیے گایا گیا۔ نثار بزمی ،غلام عباس کی آواز کو خاصی اہمیت دے رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے فلم ’’گنوار‘‘ میں جہاں مہدی حسن صاحب کو گوایا، وہیں غلام عباس کی آواز بھی شامل کی، گیت کے بول تھے’’ اک لڑکی شرمیلی سی سیدھی سادھی بھولی بھالی۔‘‘ اسی فلم کاگیت غرور حسن پہ پچھتاوگے تم۔
بھی خُوب سُنا گیا، اجنبی اور اک گناہ اور سہی کام یاب فلمیں رہیں، جب کہ گنوار پہلے ہی شو میں فلاپ ہوگئی، مگر پھر بھی میوزک آرکائیو میں کچھ ہٹس دے ہی گئی۔1975 میں نذیرعلی کی موسیقی میں خواجہ پرویز کے لکھے گیت کی آواز بن کرغلام عباس ہر جانب سماعتوں میں رس گھولتے نظر آئے۔ موسیقار ایم اشرف نے فلم ’’دیوار‘‘ کے لیے غلام عباس نے خُوب صورت نغمات گائے۔
1976 میں نثار بزمی نے ایک بار شفقتوں کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے علی سفیان آفاقی کی فلم آگ اور آنسو کے لیے غلام عباس سے گیت ریکارڈ کیے، منے تم اک کام کرو۔ پیار کرنے کا ارادہ ہے،جب سے اک لڑکی نے سیکھا ڈورے ڈالنا۔1976میں 4 بار ایم اے موسیقار خلیل احمد نے تین بار ایم اے گلوکار سے اپنی بلاک بسٹر فلم آج اور کل لے لیے خُوب صورت گیت گوایا،کون کہتا ہے ملاقات نہیں ہوسکتی۔
اسی سال خلیل احمد نے فلم طلاق کے لیے بھی غلام عباس کا انتخاب کیا۔ موسیقار اے حمید کی موسیقی میں فلم ’’ماضی حال مستقبل‘‘ کا گیت زندگی تو نے ہر قدم پہ مجھے ایک سپنا نیا دکھایا ہے۔1978 ہی میں کام یاب فلم ’’آواز‘‘ کے لیے اے حمید کی موسیقی میں گیت یہ ہری بھری آبادیاں۔ فلم بہن بھائی کے لیے موسیقار کمال احمد کا گیت جسے پہلی بار استاد اور شاگرد نے اکھٹے گایا، اس طربیہ گیت کے بول تھے، اس دنیا میں یار ہم تو رہے اناڑی۔
پاکیزہ کے مقبول ترین گیت ’’مل جاتا ہے یار مگر پیار نہیں ملتا‘‘۔ کمال احمد کی موسیقی میں ناہید اختر کے ساتھ فلم ’’منزل‘‘ کا گیت ’’تُو مجھے کیسے بھول پائے گی‘‘۔ ہدایت کار پرویز ملک اور موسیقار ایم اشرف کی سپر ہٹ فلم قربانی کا گیت ’’میرا تجھ سے ایسا بندھن ہے جیسے دل سے رشتہ دھڑکن کا‘‘۔ فلم محبت اور مجبوری کے لیے کمال احمد کی موسیقی میں پیار کرو پیار کے بنا زندگی کچھ بھی نہیں۔
پنجابی فلم امانت کے لیے مہناز کے ساتھ موسیقار کمال کا گیت آ سجنا وعدہ کرلیے۔ پروڈیوسر سجاد گل کی پہلی فلم اور ہدایت کار حسن طارق کی آخری فلم ’’سنگدل‘‘ کے لیے ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں مہناز کے ساتھ آجاوں میں آجاوں۔نثار بزمی کی موسیقی میں فلم آس پاس کے لیے یہ موسم یہ آتے جاتے،کمال احمد کی موسیقی فلم تیرے بنا کیا جینا، کے لیے مہناز اور مسعود رانا کے ساتھ ہریالی بنو مہندی لاون دے۔
وجاہت عطرے کے لیے مہناز کے ساتھ کاسٹیوم فلم ’’آب حیات‘‘ کا گیت یہ رات یہ تنہائی۔خواجہ خورشید انور کی موسیقی اگرچہ غلام عباس کے گیتوں اور فلموں کی تعدد سینکڑوں میں ہے۔ تاہم مقبول گیتوں کا ذکر کیاگیا ہے، لیکن غلام عباس کی فنی عظمت کے لیے بتائے گئے چند گیت بہت ہیں، البتہ کیسٹ ریڈیو اور ٹی وی کے گیتوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، جس میں مقبول عام غزل میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹہرا بھی نہیں۔قومی نغمہ اے پاک وطن اے پاک بھی مشہور و مقبول گیتوں میں شامل ہیں۔
انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ بھی نوازا گیا۔ عمدہ گائیکی پر نگار ایوارڈ سمیت کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ اِن دِنوں تنگ و تاریک کمرے میں موجود غلام عباس اس ملک کے بیش تر فن کاروں کی طرح بے روزگاری، قرضوں، بیماریوں اور ذمے داریوں کے بوجھ تلے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سال پہ سال کی بے روزگاری اور اس پر بیماری قارون کے خزانے بھی کھا جاتی ہے، یہ ایک معصوم سا غلام عباس ہے۔