ہُوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے، زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ ہم ’’حسین ترین‘‘امیر ترین’’ذہین ترین‘‘اور زندگی میں’’ہر حوالے سے بہترین‘‘ ہوکر بھی بالآخر مر ہی جائیں گے۔ ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی اور فلموں کےعالمی شہرت یافتہ فن کار طلعت حُسین لاکھوں مداحوں کو اُداس کر کے چلے گئے، لیکن اُن کا فن ہمیشہ چاہنے والوں کے دِلوں میں زندہ رہے گا۔ مسلسل کئی برسوں کی سگریٹ نوشی نے ان کے پھیپھڑوں کو کمزور کردیا تھا۔
وہ دس برس قبل بھی جلد کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد دو تین برس شوبزنس سے دُور رہے تھے، لیکن جلد کی خطر ناک بیماری کو شکست دینے بعد پھر سے فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے لگے تھے۔ 2024 کے آغاز سے وہ شدید علیل ہوگئے تھے، کبھی گھر، کبھی اسپتال، یہ سلسلہ کئی ماہ چلتا رہا۔ مختلف بیماریوں سے آہستہ آہستہ ان کی یادداشت کمزور ہوتی چلی گئی۔
آخری دِنوں میں انہیں لوگوں کے پہچاننے میں شدید مشکلات پیش آرہی تھی۔ وہ اپنا شہرت کی بلندیوں والا زمانہ اور ڈراموں کے نام بھی بُھول چکے تھے اورپھر وہی ہوا، جس کا ڈر تھا،ہم سب کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ طلعت حسین ایک تربیت یافتہ فن کار کی حیثیت سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے تھے۔ مایہ ناز فن کارنے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔1972ء سے 1977ء تک وہ لندن میں مقیم رہے۔ اس دوران انہوں نے ’’لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘‘ سے تربیت حاصل کی اور اداکاری کے شعبے میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
وہ ضیاء محی الدین کے بعد دوسرے فن کار تھے، جو یورپی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے تھے۔ چند برس قبل انہیں فلم ’’امپورٹ ایکسپورٹ‘‘ میں شان دار پرفارمینس دینے پر امینڈا ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ یہ اعزاز ناروے میں آسکر ایوارڈ کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے، جو 1985ء سے ہر سال ’’نارویجن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘‘ کے موقع پر دیا جاتا ہے۔
اس فلم میں انہوں نے اللہ دتہ نامی شخص کا ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا تھا۔ لندن چینل فور کی مشہور زمانہ سیریز ’’ٹریفک‘‘ اور بھارتی ہدایت کار ساون کمار کی فلم ’’سوتن کی بیٹی‘‘ میں بہ حیثیت وکیل، طلعت حسین کی پرفارمینس اپنے عروج پر دکھائی دی۔ اس فلم میں انہوں نے بھارتی اداکارہ ریکھا اور جتیندر کے سامنے جم کر اداکاری کی۔
باکمال، اداکار طلعت حسین نے اپنے فن کے سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا تھا، جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو وہ ٹیلی ویژن کی جانب آگئے۔ ٹی وی پر انہوں نے سب سے پہلے ڈراما سیریل ’’ارجمند‘‘ میں عمدہ پرفارمینس دی۔ اس سیریل میں ناظرین نے انہیں بے حد پسند کیا۔ وہ ٹیلی ویژن پر اداکاری کے علاوہ بہ حیثیت نیوز کاسٹر اور انائونسربھی خدمات انجام دیتے رہے۔
ان کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان کی مقبول انائونسر کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتی تھیں، جب کہ ان کے والد الطاف حسین وارثی انڈین سول سروس (ڈیفینس) میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ سوویت فوج کی افغانستان آمد اور افغان جنگ کے پس منظر میں بنائے گئے ٹیلی ویژن ڈرامے ’’پناہ‘‘ میں بھی طلعت حسین کو ناظرین نے پسندیدگی کی سند سے نوازا۔ اور جب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی پر فلم ’’جناح‘‘ بنائی گئی تو اس فلم میں انہوں نے مہاجر کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ ٹیلی ویژن پر ان کے مقبول ڈراموں میں ہوائیں، انسان اور آدمی، عید کا جوڑا، کشکول، تھوڑی خوشی تھوڑا غم، گھوڑا گھاس کھاتا ہے، دیس پردیس، آنسو، طارق بن زیاد، پرچھائیاں اوردوسرے تھیٹر کے یادگار ڈرامے شامل ہیں۔
انہوں نے فلموں میں بھی لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔1970ء میں وہ فلم ’’انسان اور آدمی‘‘ میں اداکار محمد علی اور زیبا کے بیٹے کے کردار میں پسند کیے گئے۔ اس کے علاوہ انہیں فلم ’’گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کے کردار کو خُوب صورتی سے ادا کرنے پر بیسٹ ایکٹر اور فلم ’’لاج‘‘ میں بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں شعبہ اداکاری میں ’’پرائیڈ آف پرفارمینس‘‘ بھی عطا کیا گیا۔ طلعت حسین کراچی میں منعقدہ ثقافتی اور ادبی تقاریب میں برّصغیر کے نام ور ادبا اور شعراء کا کلام بڑی مہارت سے اپنی خُوب صورت آواز میں پیش کر کے داد وتحسین وصول کرتے رہے۔
وہ اردو سمیت تمام پاکستانی زبانوں سے محبت کرتے تھے۔ دورانِ پرفارمینس لفظوں کی ادائیگی کا خاص خیال رکھتے تھے، وہ ضیاء محی الدین مرحوم کے زیر نگرانی چلنے والی ثقافتی ادارے ’’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ‘‘ (Napa) میں فنِ اداکاری کے بارے میں نئی نسل کی راہ نمائی بھی کرتے رہے۔ طلعت حسین نے اپنی زندگی میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے۔ اُن کا سینما میں گیٹ کیپنگ سے لے کر فلموں میں کام کرنے کا سفر شان دار تھا۔
ان کےوالد بھارت میں سِول سروس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ تقسیم کے وقت انہیں کہا گیا کہ وہ انگلستان یا پاکستان چلے جائیں یا پھر بھارت میں رہیں۔ انہوں نے پاکستان کوترجیح دی۔ ہجرت کے وقت طلعت حسین کی عمر صرف چار برس تھی۔ وہ بمبئی سے پانی کے جہاز کے ذریعے کراچی پہنچے تھے۔ ابتدا میں کچھ عرصے تک کھوکھرا پار کے علاقے میں رہے، بعد میں انہیں ڈیفینس میں کوارٹر الاٹ کر دیا گیا۔
حالات کے پیش نظر طلعت کی والدہ نے ریڈیو پر ملازمت کی۔ طلعت نے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیل روڈ سے میٹرک کیا اور پھر اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ گھر کے حالات کی وجہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل نہیں کر سکے۔ ان کے گھر میں اُردو بولی جاتی ہے۔ والد کشمیری پنجابی تھے۔ تین بھائیوں میں، طلعت حُسین سب سے بڑے تھے۔ ساری زندگی ذمے داری سے کام کیا۔
ان کی والدہ طلعت کو ریڈیو پر کام کرنے پر رضامند نہیں تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ وہ ڈپٹی کمشنر یا کلکٹر وغیرہ بنے۔ جب طلعت نے ریڈیو پر آڈیشن دیا، تو والدہ نے انہیں فیل کرانے کی کوشش کی۔ ریڈیو کے پروڈیوسر نے والدہ سے کہا، میں طلعت حسین کو فیل نہیں کرسکتا، کیوں کہ ان کی آواز بہت اچھی ہے۔ جب طلعت نے ریڈیو پر کام کرنا شروع کیا، تو ابتدا میں انہیں پانچ روپے ملتے تھے۔ طلعت نے ریڈیو پر پہلا پروگرام ’’کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں‘‘ کیا تواس ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ سے وہ راتوں رات ریڈیو کے اسٹار بن گئے تھے اور انہیں فوراً ہی دوسری کیٹیگری مل گئی تھی،معاوضہ بھی پانچ روپے کے بہ جائے پندرہ روپے ملنے لگا۔
ایک مرتبہ ریڈیو پر فیسٹیول منعقد ہوا۔ اس موقع پر ریڈیو پاکستان کے اعلیٰ افسران بھی دورے پر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کی آواز کو پسند کیا اور کہا کہ اس آرٹسٹ کو پچیس روپے والی کیٹیگری میں ہونا چاہیے۔ ریڈیو پر ڈرامے کے حوالے سے قمر جمیل نے ان کی بھرپور سرپرستی کی۔ طلعت حسین کی زندگی پر ڈاکٹر ہما میر نے ایک کتاب ’’یہ ہیں طلعت حسین‘‘لکھی، جسے آرٹس کونسل نے شائع کیا۔انہوں نے پندرہ بیس فلموں میں بھی کام کیا، کچھ فلموں میں انہیں پسند بھی کیا گیا۔
بہت عرصے بعد انہوں نے کراچی میں بننے والی کچھ فلموں میں کام کیا، جن میں چھپن چھپائی، ایکٹر ان لاء،نامعلوم افراد وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے دوچار ڈرامےبھی لکھے تھے، وہ موسیقی شوق سے سُنتے تھے۔ میڈم نور جہاں، مہدی حسن، ٹینا ثانی کی غزلیں اور نیّرہ نور کے گائے ہوئے گیت انہیں بے حد پسند تھے۔ ان کی بیگم رخشندہ نے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی سربراہ بھی رہی ہیں۔ قدرت نے طلعت کو دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تھا۔ طلعت حسین نے لندن میں کئی برس قیام کیا۔
اس دوران مالی مشکلات کا بھی شکار رہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریجنٹ اسٹریٹ پرواقع ایک ہوٹل میں ویٹر اور برتن دھونے والے کی ضرورت تھی۔ مشکلات کی وجہ سے انہوں نے اس ہوٹل میں ملازمت اختیار کی۔ جمعے اور ہفتے کی رات برتن دھوتے اور اتوار کا سارا دن ہوٹل میں ویٹری کرتے تھے۔آج کا فن کار جتنا خوش حال ہے، ماضی میں اتنی خوش گوار صورت حال نہیں تھی۔ ابتدا میں انہیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کام کرنے کا جو معاوضہ ملتا تھا، وہ ان کے لیےبہت کم تھا۔
لہٰذا اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے انہوں نے کراچی کے لیرک سینما میں کچھ عرصے تک گیٹ کیپنگ بھی کی، جب معاشی حالات بہتر ہوئے تو انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔ وہ ضیاء محی الدین مرحوم کے فن کا دل دادہ تھے، انہیں اپنا گرومانتے تھے،اب ایسے مایہ ناز فن کار کہاں پیدا ہوتے ہیں۔ بے بدل اور بے مثل فن کار چلا گیا، لیکن ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔
جب معین اختر اپنا ولیمہ چھوڑ کر طلعت حسین کی شادی میں بغیر دعوت کے پہنچ گئے تھے!!
’’ریڈیو کی ایک اور بہت حسین آواز طلعت حسین، جن کی والدہ شائستہ بیگم تھیں، جو سب سے بھیا اور بیٹا کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں۔ ہم سے بہت پیار کرتی تھیں۔ ان میں ہمیں ماں کا روپ نظر آتا تھا، پھر ان کو یہ بھی پتہ تھا کہ معین اختر میرے بیٹے طلعت حسین کا دوست بھی ہے، طلعت حسین کا ڈراما جس رات ریڈیو پر نشر ہوتا تھا، اس وقت ریڈیو پاکستان کے تمام فون ایک ساتھ بج اٹھتے تھے اور زیادہ تر لڑکیوں کے فون آتے تھے کہ ہمیں طلعت حسین سے بات کرنی ہے، کیوں کہ اس زمانے میں ریڈیو کے ڈرامے براہِ راست ہوا کرتے تھے اور طلعت حسین کا یہ کمال ہوتا تھا کہ ڈراما ختم کر کے بڑی شانِ بے نیازی سے ریڈیو سے نکل جایا کرتے تھے۔
آپریٹروں نے بھی اب اُن سے کہنا چھوڑ دیا تھا کہ کوئی لڑکی آپ سے بات کرنا چاہتی ہے، کیوں کہ طلعت ذرا مختلف قسم کے انسان ہیں، صرف ان سے بات کرتے تھے، جن کو وہ جانتے ہوں یا جن کا شمار ان کے دوستوں میں ہو۔ شاید اپنے اسی رویے کی وجہ سے انہوں نے زیادہ دوست نہیں بنائے، لیکن مجھے یہ شرف حاصل رہا تھا کہ ہماری ان سے شروع شروع میں جان پہچان تھی جو آہستہ آہستہ دوستی میں بدل گئی۔ بہت زیادہ گہری نہ سہی لیکن دوستی ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں طلعت حسین شاید سب سے زیادہ معاوضہ لیا کرتے تھے، اس لیے وہ دوسرے فن کاروں کے مقابلے میں زیادہ خوش حال تھے۔
عالمی شہرت یافتہ فن کار معین اختر مرحوم کی طلعت حسین کے بارے میں یادگار تحریر
پھر آہستہ آہستہ ہمارے دوستوں کا ایک ٹولہ بن گیا، ان میں ایک پامسٹری بھی جانتے تھے، ایک دفعہ طلعت حسین سے کہا تمہیں اپنا نام بدل لینا چاہیے، یہ نام تمہیں زیادہ راس نہیں ہے اور پھر انہوں نے ان کا نام رکھا ’’فاروق جلال‘‘ جس فلم میں طلعت حسین نے فاروق جلال کے نام سے کام کیا، وہ فلم کام یاب تو ہوگئی، لیکن طلعت حسین کو شاید اپنا ہی نام اچھا لگا۔
بہر حال انہوں نے پھر اپنا اصل نام طلعت حسین رکھ لیا۔ طلعت حسین ایک مشکل کتاب کا نام ہے۔ اسے آپ آسانی سے نہیں پڑھ سکتے، ایک دو صفحے پڑھنے کے بعد آپ کو لگے گا کہ آگے بہت سارے اوراق آپس میں چپکے ہوئے ہیں اور یُوں ان کی زندگی کبھی کبھی ایک معمہ لگتی ہے، لیکن اپنے دوستوں کے لیے وہ ایک کُھلی کتاب ہیں۔ طلعت حسین ہم سب میں خوش حال ہوچکے تھے، ان کا تصویری خبرنامہ بہت مقبول ہوا۔
ان کو بہت کام ملنا شروع ہوگیا، پھر شاید ریڈیو کے آرٹسٹوں میں سب سے پہلے طلعت حسین نے ہی گاڑی خریدی تھی۔ طلعت حسین کو مطالعہ کا بڑا شوق ہے۔ طلعت حسین ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، ہمیں اُن پر فخر کرنا چاہیے کہ پاکستان کی شوبزنس میں ایسا دوسرا فن کار نہیں ہے۔ طلعت حسین کے مدِمقابل کسی بھی سیریل یا فلم میں کوئی آرٹسٹ جب ان کے ساتھ کاسٹ ہوتا ہے، تو اسے بہت سنجیدگی اور توجہ سے کام کرنا پڑتا ہے، ورنہ طلعت حسین کے سامنے کسی بھی سین میں ٹکے رہنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، وہ اپنی ذات میں خود ایک انجمن ہیں۔
ان کی ہر سیریل، ہر ہر کردار نگاری سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور اگر کوئی فن کار ان کے فن سے استفادہ نہ کرے تو یہ اس کی بدنصیبی ہے۔ انہوں نے ہندوستانی فلم میں بھی کام کیا اور اپنے سامنے کسی کو کھڑے ہونے نہیں دیا۔ ویسے تو ان کو ملکی اور غیر ملکی بے شمار اعزازات ملے، لیکن جب انہیں ناروے سے جو ایوارڈ ملا ،اس پر ہم سب کو بڑاناز ہے۔ اچھا خاصا کام کرتے کرتے وہ اچانک پاکستان چھوڑ کر لندن چلے گئے، جہاں قیام کے دوران انہوں نے لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹس (LAMDA) سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی، وہ وہاں کافی عرصہ رہے، لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ طلعت حسین کا وقت گزر گیا۔
یہ لوگوں کی بھول تھی، جب انہوں نے پاکستان کے لیے واپسی کا سفر کیا، تو وہ ان کی شوبزنس میں بھی ایک نئی واپسی تھی۔ پہلے سے زیادہ ہنرمند، پہلے سے زیادہ تر و تازہ، ایک کھلے ہوئے پھول کی طرح، پھر جو ان کے کاموں کا سلسلہ شروع ہوا، ایک نہ رُکنے والا جو ابھی تک جاری ہے اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ان میں اور پختگی آگئی ہے۔
میں نے اور طلعت حسین نے اپنی چالیس سالہ رفاقت میں صرف ایک دو مرتبہ اکٹھے کام کیا ہوگا، کیوں کہ فنی حوالے سے ان کے اور ہمارے راستے الگ الگ ہیں، لیکن یہ بات میں ضرور کہوں گا کہ جو کچھ میں کرتا ہوں، وہ اسے بھی بڑی خوبی سے کرسکتے ہیں، لیکن جو کام وہ کرتے ہیں اس کو سیکھنے میں ہمیں اتنی ہی زندگی اور درکار ہوگی۔ ان کے پاس ڈگری ہے، گفتگو کا سلیقہ اور یہ دیکھ کر تو اور بھی بڑی خوشی ہوتی ہے کہ طلعت حسین کی تین پیڑی اس شو بزنس میں رہیں جن میں ان کی والدہ شائستہ بیگم پھر ان کا بیٹا ، بیٹی تزئین۔
یہ سب کچھ سوچتے ہوئے بڑا عجیب لگتا ہے۔ 1972ء میں جس روز میرا ولیمہ تھا، اس روز طلعت حسین کی رخشی سے شادی تھی، طلعت شاید میری شادی میں تو نہیں آسکے، لیکن میں اپنے ولیمے سے سیدھا طلعت حسین کی شادی میں شرکت کے لیے بغیردعوت چلا گیا، کیوں کہ ہم دوستوں میں تکلف بہت عرصے میں دم توڑ چکا تھا۔
اپنے کردار میں زندہ کیسے رہا جاتا ہے یہ کوئی ان سے سیکھے۔طلعت حسین پچھلے پچاس برسوں یا شاید اس سے بھی زیادہ سے مقبول ہیں اور دیکھنے سے تو لگتا ہے کہ وہ تادیر شوبز کا تاج بنے رہیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم ریڈیو پاکستان سے پیدل چل کر حمید کاشمیری کی دُکان جو ایلفی پر تھی، دُکان کیا تھی بس ایک چھوٹا سا اسٹال تھا، کتابوں کا تو میں طلعت کے ساتھ صرف ان کی کتابیں لینے کے لیے ان کو کمپنی دیا کرتا تھا۔
طلعت حسین کے بارے میں نام ور فن کاروں کے تاثرات!!
انور مقصود( نامور ڈراما نگار)
طلعت حسین کو میں برسوں سے جانتا تھا،اس جان پہچان کا سلسلہ بہت اچھا رہا، جو فن کار ریڈیو سے ٹیلی ویژن کی جانب آئے، اُن میں طلعت حسین کا نام سرِفہرست رہا۔ اچھی آواز اورعمدہ اداکاری نے طلعت حسین کو مقبول بنایا، وہ سنجیدہ انسان تھے، میرے لکھے ہوئے کئی کھیلوں میں انہوں نے کام کیا، میں نے ایک دِن اُن سے کہا کہ میں نے ایک مزاحیہ کھیل لکھا ہے، کیا آپ اُس میں کام کریں گے، طلعت کا جواب تھا، میں آپ کا لکھا ہوا ڈراما کیسے منع کرسکتا ہوں، میرے اُس کھیل کا نام تھا ’’فنونی لطیفے‘‘۔
اس ڈرامے میں طلعت نے لاجواب پرفارمنس سے ناظرین کے دِل لوٹ لیے تھے۔ وہ بہت اچھے انسان تھے، اگر انسان اچھا ہو تو، وہ اداکاری بھی اچھی کرسکتا ہے۔ اُن کی کتابیں پڑھنے کی عادت مجھے بہت اچھی لگتی تھی، اچھا دوست، اچھا فن کار تھا، چلا گیا۔
جمال شاہ( نام ور فن کار)
طلعت حسین اور میں نے ایک انٹرنیشنل پروجیکٹ ’’ ٹریفک‘‘ میں ایک ساتھ کام کیا تھا، وہ ایک منجھے ہوئے فن کار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔انہوں نے ٹیلی ویژن ڈراموں میں جو بھی کردار ادا کیے، ان میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی۔ وہ پانچ دہائیوں تک فن کی آب یاری کرتے رہے۔ اب ایسے قابل فن کار کم پیدا ہوتے ہیں۔ میں پچھلے دِنوں اسلام آباد سے کراچی ان کے گھر عیادت کے لیے گیا تھا، اس موقعے پر ہم دونوں نے پُرانی یادیں تازہ کی تھیں۔
راحت کاظمی( ممتاز اداکار)
طلعت حُسین ہماری نسل کے سب سے بڑے فن کار تھے، اُن کی سب سے بڑی خُوبی یہ تھی کہ ایک بہترین فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اداکاری کے فنی رموز سے بھی بہ خُوبی واقف تھے۔ ’’پرچھائیاں‘‘ ڈرامے میں وہ میرے ساتھ تھے، جس میں وہ ساحرہ سے شادی کرتے ہیں اور پھر اُسے بہت تنگ کرتے ہیں۔
انہوں نے اس ڈرامے میں ایسی کردار نگاری کی کہ ایک مرتبہ پاپوش نگر میں اس بات پر اُن کی باقاعدہ پٹھائی ہوتے ہوتے رہ گئی تھی کہ آخر کیوں یہ شخص اس بے چاری لڑکی کو تنگ کرتا ہے۔ ایسا کام کرنا جس میں اصل کا گمان گزرے، یہی اُس کام کی انتہاء ہوتی ہے، انہوں نے ٹیلی ویژن اور تھیٹرپرمختلف قسم کے لاجواب کردار ادا کیے تھے ۔
قاسم جلالی( ڈراما پروڈیوسر)
میری طلعت حسین سے دیرینہ وابستگی تھی، یُوں تو میں نے بے شمار ڈرامے پروڈیوس کیے ہیں، لیکن بعض ڈرامے ایسے ہیں، جنہوں نے میری زندگی کو جلا بخشی، خاص طور پر میرا ایک ڈراما ’’ٹائپسٹ‘‘ جو1980ء میں پیش کیا گیا تھا، جسے طلعت حسین نے لکھا تھا۔ یہ ڈراما صرف دو کرداروں پر مبنی تھا، یعنی طلعت حسین اور خالدہ ریاست، دونوں نے شاندار اداکاری کے جوہر سے اس کھیل کو چار چاند لگادیے تھے۔
ایک دن انور مقصود اور میں نے سوچا کہ طلعت حسین سے ڈرامے میں کامیڈی کرائی جائے اور اس انداز سے کردار کی بُنت کی جائے کہ پورا ماحول شائستہ کامیڈی میں ڈھل جائے۔ اُس ڈرامے کا نام ’’فنونی لطیفے‘‘ تھا، جس میں طلعت حسین کے ساتھ معین اختر، محمود علی، جمشید انصاری، لطیف کپاڈیا، عرشِ منیر اور نیلوفر عباسی نے شاندار مزاحیہ اداکاری کی تھی۔ طلعت حسین کا ایک کمال یہ تھا کہ وہ اپنے مخالفین کی نفسیات کو بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔
میرے ایک اور کھیل خوابوں کی زنجیر جسے انور مقصود نے تحریر کیا تھا، اس ڈرامے میں محنت کش بچوں کی زندگی کی عکاسی کی گئی تھی۔ طلعت حسین نے اس میں بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مثالی استاد اور باپ کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ الغرض طلعت حسین نے جتنے بھی روپ دھارے، وہ سب جیتی جاگتی زندگی اور اس کے ماحول سے مطابقت رکھتے تھے۔
محمد احمد شاہ (صدر کراچی آرٹس کونسل)
طلعت بھائی جنہیں اُن کے مداح طلعت حسین کے نام سے جانتے ہیں۔ اداکار، ہدایت کار، صداکار کی حیثیت سے تو میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، اُنھیں جانتا تھا، لیکن کوئی 30 برس سے میری اُن سے ذاتی نیازمندی بھی رہی۔ ادب بچپن سے میری زندگی ایک اہمیت رکھتا ہے، بلکہ میں اِسے اپنی محبوبہ کہوں تو غلط نہ ہوگا، اسی طرح طلعت بھائی سے بھی میری ملاقات شہر کے ادبی حلقوں میں ہوئی۔
قمر جمیل ہو یا سلیم احمد، سب ہی کے ہاں اُن کا آنا جانا تھا۔ یہ لوگ ایک انسٹی ٹیوشن کا درجہ رکھتے تھے۔ طلعت بھائی بھی ایک بڑے اداکار کے ساتھ ساتھ ادب کے ایک سنجیدہ قاری بھی رہے اور اس عادت سے اُن کی اداکاری اور صداکاری کو بھی بہت فائدہ پہنچا۔ اُن کے پائے کے چند ہی فن کار اس ملک نے پیدا کیے ہیں، وہ کراچی آرٹس کونسل میں کئی برسوں تک ہماری گورننگ باڈی کے رکن بھی رہے، ہم اُنھیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔