• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اداکاری کے علاوہ کبھی کچھ کرنے کا سوچا ہی نہیں۔‘‘بچپن کے خواب کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کی اور اسی کو اپنا پروفیشن بنا یا ۔پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئے ،تعلیمی ِسفر کے ساتھ ساتھ اداکار ی کے سفر کا آغاز بھی کیا ۔ 5 سال کی عمر میں بہ طور چائلڈ آرٹسٹ پہلی مرتبہ ڈرامے میں جلوہ گر ہوئے ، جب سے آج تک اداکاری کے جوہر دکھا کر نہ صرف مثبت، منفی، مرکزی غرض ہر کردار مہارت سے ادا کیے ، کامیڈی کردار بھی خوبصورتی سے نبھائے۔

بہ طور چائلڈ آرٹسٹ پی ٹی وی کے پلے’’ ایمرجنسی‘ وارڈ‘ اور ڈرامہ ’’اندھیرا اُجالا‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ابتدا سے ہی ان کو سنیئرز فن کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا، ان کی نگرانی میں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا ۔ڈراموں کے ساتھ ساتھ فلموں میں بھی کام کیا 1992 ء میں پہلی مرتبہ فلم ’’سزا ‘‘ میں کام کیا ۔1999ء میں ’’بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

حال ہی میں ختم ہونے والی جیو کی مشہور ڈرامہ سیریل ’’خئی ‘‘ میں مشکل کردار میں ایسا حقیقت کا رنگ بھراکہ ناظرین دنگ رہ گئے ۔ان کاایکٹنگ کیرئیر سالوں پر محیط ہے ،تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ اداکاری کے علاوہ 2010 سے 2014 ء تک نجی چینلزپر مارننگ شو کی میزبانی کی۔ گزشتہ دنوں ہم نے ’’فیصل قریشی ‘‘ سے ٹیلی فونک انٹرویو کیا۔ ہمارے سوال ،فیصل قریشی کے جواب نذر قارئین ہیں۔

سلسلہ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فیصل قریشی نے کہا ،ہر شخص کو بچپن سے کسی نہ کسی کا م کا شوق ہوتا ہے۔ مجھے اداکار بننے کا شوق تھا ،5 سال کی عمر میں اداکاری کا آغاز کیا جب سے تا حال اداکاری کی دنیا میں ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی اور کام کرنے کا سوچا ہی نہیں۔

س: کسی بھی اداکار کو کام یاب بنانے میں اداکاری زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا اسکرین پر اچھا نظر آنا ؟

ج: اگر اداکار دیکھنے میں خوبصورت ہے تویہ اس کا پلس پوائنٹ ہے ۔لیکن انڈسٹری میں لمبے عر صے تک راج کرنے کے لیے تو اداکاری کی اہمیت ہوتی ہے۔ویسے بھی جب ہر فن کا ر کی پوری توجہ پر فارمنس پر ہوتی ہے تو عوام کو الگ ہی کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہماری انڈسٹری میں بہت سے فن کارعام شکل و صورت کے حامل ہیں لیکن انہوں نے اپنی اداکاری کی صلاحیتوں کے جو ہر دکھا کر لوگوں کے دلوں پر راج کیا اور اب تک کررہے ہیں۔

میرا کہنے کا مطلب ہے کہ عوام کے ذہنوں پر شکل وصورت سے زیادہ کام نقش ہوتا ہے۔ بےشک کیرئیر کے شروعات میں تو خوبصورتی اہمیت رکھتی ہے لیکن زیادہ اہمیت پر فارمنس کو ہی دی جاتی ہے ،کیوں کہ اُن کا کام صدیوں یاد رہتا ہے، جب کہ گلیمر کی مدت کم ہوتی ہے۔

س: آپ کو کام کرتے ہوئے کافی عرصہ گزرگیا ،اس دوران اداکاری کے میدان میں کیا کچھ تبدیلیاں لائے ہیں ؟

ج:حقیقت تو یہ ہےکہ انسان وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھتا رہتا ہے۔جب آگے بڑھتے ہیں تو پچھلا کام دیکھ کر سوچتے ہیں ،یہ کام ایسے کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا ۔جب ہم زندگی میں یہ سوچ کر چلتے ہیں کہ مجھے آگے بڑھنا ہے تو یہ چیز آپ کو پروگریسو رکھتی ہے۔ ہر سال کچھ نیا اور منفرد کرنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس سے متعلق چیزیں دیکھتےاور پڑھتے رہتے ہیں تو آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

اداکاری بھی ایک پریکٹس کی طرح ہے ،جس طرح ایک گلوکاراپنی گائیکی کو بہتر کرنے کے لیے ریاض کرتا ہے، شروع میں کچھ گلوکار مشکل گانے نہیں گا پاتے ، مگر پریکٹس کرکے ایک دن وہ ہر گانا گانے لگتے ہیں، بالکل ،اسی طرح اداکار بھی پڑیکٹس سے نئے نئے کردار اداکرنے کی صلاحیت حاصل کرتے رہتے ہیں اور جب تک فیلڈ میں رہتے قدم بہ قدم سیکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔

س: اگر اداکارنہ ہوتے تو کس شعبے میں کیرئیر بناتے ؟

ج: پھر شاید کرکٹر ہوتا یا فوج میں ہوتا یہ بتادوں کہ کچھ وجوہات کی بناء پرجا نہ سکا۔ مجھے یہ دونوں شعبے پسند تھے اوران میں جانے کا شوق بھی تھا لیکن قسمت میں اداکار بننا لکھا تھا۔

س: کیا اپنے سنیئر زاداکاروں سے آپ نے اداکاری کے جو ہر سیکھے یا کسی ادارے سے ؟

ج: چھوٹی عمر سے ہی میں نے کئی نامور اور سینئر فن کاروں کے ساتھ کام کیا ہے، جن میں عابد علی ،خیام سرحدی اورفردوس جمال شامل ہیں۔ محمد علی کے ساتھ فلموں میں کام کرنے کا بھی موقعہ ملا۔ میرا تعلق لاہور سے ہے تو وہاں موجود تقریباً کافی سینئرز کے ساتھ اداکاری کی، پھر جب کراچی آیا تو طلعت حسین ،قوی خان اور دیگر فن کاروں کے ساتھ کام کیا۔ غرض یہ کہ میں نے بچپن سے بڑے بڑے اداکاروں کے ساتھ بے شمار کردار کیےاور انہیں کی نگرانی میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارا بھی ہے۔

ٹی وی کے علاوہ اسٹیج پر بھی کام کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اداکاری کی مزید سمجھ آنے لگی تو ندیم بیگ کی اداکاری کو فالو کرنے لگا۔ میری خوش قسمتی یہ تھی کہ میں نے بہ طور چائلڈ آرٹسٹ سینئرز سے بہت کچھ سیکھا ۔جب مجھے پہلے فلم کی آفر ہوئی تو میں سیٹ پر چھپ کر ندیم بیگ ،جاوید شیخ اور شان کا کام دیکھتا تھا کہ یہ لوگ کس طرح کام کرتے ہیں۔

گھر آکر شیشے کے سامنے ان جیسی اداکاری کرنے کی پریکٹس کرتا ، اس طرح میں نے کوئی چھ مہینے تک پریکٹس کی۔ یہاں میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ اُس وقت نہ تو یوٹیوب تھا اورنہ ہی اداکاری سیکھنے کےلیے کوئی کلاسز ہوتی تھیں۔

سینئرز کے کام کو سیٹ پر جاکر دیکھنا ،ان کے ڈرامے اور فلمیں دیکھنا ہی میری ماسٹر کلاس ہوتی تھیں ۔ یہ بھی بتا دوں کہ ،میرے بہت سے ایسے کردار تھے جن کو کرنے سے پہلے میں سینئرز سے مشورے کرتا تھا۔

مثلاً 1999 ء میں ایک کردار کیا تھا ’’بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اس کو کرنے کے لیے میں نے فلم اسٹار علی اعجاز سے مدد لی ۔دو سال قبل میں نے ایک کردار کیا ،جس کے لیے ضیا ء محی الدین (مرحوم ) سے رابطہ کیا،ان سے کردار کے متعلق مشورہ کیا۔

یہ بات تو طے ہے کہ آپ کے اندر کوئی بھی اداکاری کو انڈیل نہیں سکتا ،صرف آپ کو چیزیں سمجھا سکتا ہے۔ اگر مجھے ابھی بھی کسی کردار کو کرنے میں کوئی مشکل ہوتی ہے تو میں سنیئرز سے مشورہ کرنے سے ہچکچاتا نہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ میں نے ان سب سے بہت کچھ سیکھا ہے اور آج میں جو کچھ ہوں ،وہ انہیں کے مرہون منت ہے۔

س: اب تک جتنے بھی کردار کیے ان میں سب سے مشکل کردار کون سا تھا ؟

ج: مجھے ایسا لگتا ہے جو کردار جتنا آسان ہو تا ہے ،اس کو کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے، اس کے بہ نسبت ان کرداروں کو کرنا آسان ہوتا ہے جن میں اداکاری کا مارجن زیادہ ہو۔ جن میں کرنے کے لیے بہت کچھ ہو، کیوں کہ اس میں آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا کرنا ہے، یہ نہیں سوچنا پڑتا کہ اس کردار کو کیسے بہتر طریقے سے پر فارم کیا جائے۔

س: کوئی ایک کردار جو آپ کی شخصیت سے قریب تر رہا ہو اور کرنے کے بعد اپنے شخصیت میں تبدیلی محسوس کی ہو ؟

ج: کسی ایک کردار کا نام لینا تو مشکل ہے ،کیوں کہ ہم اپنے ہر کردار سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتے ہیں۔ چاہے مین رول ہو ،سائیڈ رول ہو یا منفی سیکھنے کا عنصر ہر کردارمیں ہوتا ہے۔ اگر میں اپنے چند ڈراموں کی بات کرو ں جیسا کہ ’’میری ذات ذرّہ بے نشاں ‘‘ اور’’قیدِ تنہائی ‘‘یہ بہت بہ مقصد ڈرامے تھے، ان میں کام کرنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا اور میں نے سیکھا بھی کہ زندگی میں کچھ کاموں کو اس طرح سے بھی ہینڈل کیا جاسکتا ہے۔ مختلف کردار پڑھنے اور کرنے کے بعد زندگی گزارنےکا طر یقہ سمجھ آنے لگتا ہے۔

اس پر عمل کس طر ح کرنا ہے پتا چل جاتا ہے ۔میرے خیال سے مختلف کردار کرنے سے فائدہ بھی ہو تا ہے اور بہت کچھ سیکھنے کو ملتا بھی ہے ۔ اسی لیے ہر دفعہ کچھ الگ اور منفردکردار کرنا چاہتا ہوں۔ ہاں جب مجھے کردار آفر ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ وہ میرے پچھلے کردار سے بالکل مختلف ہو ، کسی بھی زاویے سے نیا کردار پچھلے کردار سے مماثلت نہ رکھتا ہواوریہ بہت اہم چیز ہے ،کیوں کہ اگر آپ ایک ہی طر ح کے کردار کرتے رہیں گے تو عوام کو بھی دیکھنے میں مزا نہیں آئے گا اور آپ یکسانیت کا شکار ہوجائیں گے۔

س: ڈرامے میں اداکارہ کے ساتھ اچھی کیمسٹری ہونا، کیا ڈرامے کو مقبول بنانے میں اہم ہوتا ہے ؟

ج: بالکل ،نہ صرف اداکارہ کے ساتھ بلکہ ڈرامے میں موجود ہر کردار کی آپس میں کیمسٹری اچھی ہونی چاہیے ۔ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایک اداکار اکیلے شائن آؤٹ نہیں کرسکتا اور نہ ہی اکیلے ڈرامے کو کام یاب بنا سکتا ہے۔ یہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے۔ بشمول رائٹر، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے،جب ہی عوام کو ماسٹر پیس دیکھنے کو ملتا ہے۔ نیز یہ کہ سب کی دل چسپی ،محنت اور لگن ایک پیچ پر ہونی ضروری ہے۔ 

اگر میں اپنے حال ہی میں ختم ہونے والے ڈرامے ’’خئی ‘‘ کی بات کروں تو اس میں میری سب سے اچھی کیمسٹری اداکارخالد بٹ (مرحوم ) کے ساتھ ہونی چاہیے تھی لیکن ہماری کیمسٹری بالکل الگ تھی، میری کیمسٹری میرے بیٹے کے ساتھ زیادہ اچھی تھی۔ 

یہ کردار کی نوعیت پر بھی منحصر کرتا ہے کہ کس کی کیمسٹری کس کے ساتھ زیادہ اچھی ہو ۔چھوٹی چھوٹی چیزوں پر گفت و شنید کرنا، توجہ دینا۔ غرض ساری چیزوں کو آپس میں لے کر چلنا، ڈرامے کو کام یاب اور مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

س: اپنے کردار کو بہتر بنانے کے لیے کن عوامل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں؟

ج: سب سے زیادہ اپنے کردار کو ڈائریکٹر کے ساتھ ڈسکس کرنے پر توجہ دیتا ہوں ۔ میرے خیال سے کردار میں اداکار کا ان پٹ ہونا بھی بہت ضروری ہے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اسکرپٹ پڑھ کر لگتا ہے کہ اس طر ح کا کردار پہلے بھی کر چکا ہوں ، اگر اس میں سے چند چیزیں نکال دی جائیں اور اس کی جگہ کچھ چیزیں پلس کردی جائیں تویہ کردار زیاددہ بہتر ہوسکتا ہے۔

مجھے اپنے کردار کو کس طرح لے کر چلنا ہے ،یہ تمام باتیں ڈائریکٹر سے ڈسکس کرتا ہوں، تاکہ ان کو بھی معلوم ہو کہ اداکار کس طرح کردار کرنا چاہتا ہے۔ نیا اداکار دنیا کے لیے ایک نیا کریکٹر ہوتا ہے ا س کو کوئی بھی کردار کرنے میں مشکل نہیں ہوتی، مشکل ان کو ہوتی ہے جو بے شمار کردار کرچکے ہیں، سوچتے ہیں کہ اب کیا مختلف کیا جائے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری پاس مثبت کردار کی کیٹیگری محدود ہے ،جس کے باعث بہت سارے کردار ادا نہیں کیے جاتے۔

س: چند ماہ قبل جیو پر نشر ہونے والا ڈرامہ ’’خئی ‘‘میں جو کردار آپ نے نبھایا، اس میں ایسا کیا تھا ،جس کی وجہ سے آپ یہ کردار کرنے پر آمادہ ہوئے؟

ج: اس ڈرامے میں ایسی ایک چیز بھی نہیں تھی ،جس کی وجہ سے ڈرامے میں کام کرنے سے انکار کرتا ۔اسکرپٹ ،ڈائریکشن اور پروڈکشن ہر چیز اتنی زبردست تھی کہ انکار کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ رائٹر نے بہت بہترین انداز میں لکھا تھا، پروڈیوسرز’’ اسد قریشی اور عبداللہ کادوانی‘‘ نے بہترین انداز سے پروڈیوس کیا اور ڈائریکٹر’’ وجاہت حسین ‘‘ نے خوبصورتی سے ڈرامے کو ڈائریکٹ کیا ۔خئی کی سب سے منفرد بات یہ تھی کہ یہ دیگر ڈراموں سے بالکل الگ تھا۔ 

انتقام کے موضوع پر ویسے بھی بہت ہی کم ڈرامے بنتے ہیں، نہ صرف اس کی کہانی مختلف تھی بلکہ اس کی کاسٹ بھی بہت اچھی تھی ۔میں نے چا ر اقساط کا اسکرپٹ پڑھنے کے بعد مزید اسکرپٹ منگوایا ،کیوں کہ میں چار اقساط کاا سکرپٹ پڑھ کر تجسس میں مبتلا ہو گیا تھا کہ اس سےآگے کیا ہونا ہے۔ اگر میں فیڈ بیک کی بات کروں تونہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھرسے مجھے اتنا بہترین فیڈ بیک ملا ،جس کی مجھے اُمید نہیں تھی، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا لوگ’’ خئی‘‘میں میرے کام کو اتنا زیادہ پسند کریں گے۔ 

جب پوری کاسٹ گلگت پہنچی توشوٹنگ سے دو تین دن پہلےہم نے ورک شاپس کی تھیں ،کرداروں پر تبصرے کیےکہ کس کردار کو کس طرح کرنا ہے۔ نہ صرف کسی ایک نے بلکہ پوری کاسٹ نےاس ڈرامے کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔

س: آج کل کم وپیش ایک ہی موضوع پر ڈرامے بن رہے ہیں اور ڈراموں کا معیار بھی پہلے جیسا نہیں ہے، آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، اگر ایسا سمجھتے ہیں تو ا س کی کیا وجہ ہے ؟

ج: میں اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا ،کیوں کہ یہ ایک غلط تاثر ہےکہ آج کل ایک ہی جیسے ڈرامے بن رہے ہیں ۔8 بجے نشر ہونے والے تمام ڈراموں کے موضوعات الگ ہوتے ہیں ہے، آپ ا ن کا مقابلہ سوپ سیریلز سے نہیں کرسکتے، البتہ، سوپ سیریلز کم وپیش ایک جیسے ہوتے ہیں ،مگر 8 بجے کے سلاٹ پر پہلے بھی مختلف موضوعات پر ڈرامے بنے ہیں ،آج بھی بن رہے ہیں اور آگے بھی بنتے رہیں گے۔

علاوہ ازیں جو دوسرے سلاٹز کے ڈرامے ہیں وہ ایک ہی طرح کے موضوعات پر بن رہے ہیں ،کیوں کہ وہ خاص طور پر ایسی عوام کے لیے ہوتے ہیں جو اس طرح کے ڈرامے دیکھنا چاہتے ہیں ۔8 بجے نشر ہونے والے ڈراموں میں’’ خئی‘‘، ’’تیرے بن ‘‘،’’کیسی تیری خود غرضی‘‘ ،’’عشق مرشد‘‘ اور دیگر ڈراموں کی کہانی ایک دوسرے سے مختلف تھی تو ہم یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہی موضوعات پر ڈرامے بن رہے ہیں۔ البتہ کچھ موضوعات ایسے ہیں جن پر سینسرز پالیسز اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ڈرامے نہیں بنا سکتے ۔اسی لیے ان موضوعات پر کام نہیں کرتے۔

س: آپ کے خیال میں فن کار فلاپ کب ہوتا ہے ؟

ج: جب فن کار لڑنا چھوڑ دے اور وہ یہ سوچ لے کہ بس اب یہی کرتے رہنا ہے، میں اب مزید ترقی نہیں کرسکتا۔ جیسا چل رہا ہے ویسے چلنے دو۔ محنت ،لگن اور ہمت چھوڑنے لگے۔ یہ چیزیں آہستہ آہستہ آپ کو نیچے کی طرف لے جاتی ہیں۔ جب تک ہمت اور دل جمعی سے کا م کرتے رہیں گے ، اُس وقت تک فلاپ نہیں ہوں گے۔

س: ڈرامہ انڈسٹری کو مزید فروغ دینے کے لیےکیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ؟

ج: اس جدید دور میں پوری دنیا ڈیجیٹلائز ہورہی ہےتو اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے ڈراموں کو پورٹلز پر لے جانا بہت ضروری ہے چاہے وہ مقامی ہو یا بین الاقوامی۔نیٹ فلکس پر بہت جلد پاکستانی ڈرامہ آنے والا ہے اور کچھ ڈرامے انڈین پورٹلز پربھی جارہے ہیں۔ یہ بات ضرورہے کہ ہم نے یہ کام کرنے میں تاخیر کردی ہے لیکن شکر ہے کہ ہم اس طرف آرہے ہیں۔

بڑے بڑے چینلز کوچاہیے کہ وہ اپنے پورٹلز بنائیں ، تاکہ ہم اور طرح کی کہانیوں پر ڈرامے بنا سکیں ،عوام کو کچھ مختلف کونٹینٹ دیکھنےکو ملیں۔کہانی اور جملے یہ دونوں اہم چیزیں ہیں، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس کہانیاں اور ان کو لکھنے والے ہیں۔

ہماری جتنی اچھی کہانیاں ہیں ،رائٹرز اس کو اتنے ہی خوبصورت انداز میں لکھتے ہیں ۔ہم نے کئی دفعہ بہت اچھی کہانی کو بہت ہی کم بجٹ میں تیار کیا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہمیں سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر آتاہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔مزید ترقی کرنے کے لیے پورٹلز پر منتقل ہونا بہت ضروری ہے

س: کیا منفی کردار فن کار کے کیرئیر پر اثرانداز ہوتےہیں ؟

ج: مجھے نہیں لگتا کہ منفی کردار کیر ئیر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کردار چاہے منفی ہو، مثبت ہو یا کامیڈی اداکا ر کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی پر فارمنس سے لوگوں کی تعریف وصول کرے اور اب عوام بھی اس سےآگاہ ہو گئے ہیں کہ کون سا کردار بلیک اینڈ وائٹ ہے، کون سا صرف گرے ہے۔ 

یہ مسئلہ کارپوریٹ میں آتاہےجو اداکار منفی کردار زیادہ کرتا ہے وہ اس کو اپنے پروڈکٹ کے اشتہار میں نہیں لیتے ،حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے، اداکار، اداکار ہوتا ہے۔ اس بات سے اس کو کوئی سر وکار نہیں ہوتا۔

س: مستقبل میں کن ڈراموں میں کام کررہے ہیں ؟

ج: خئی کے بعد میں نے تقریباً 8 مہینے تک کوئی سیریل سائن نہیں کیا ،کیوں کہ اس دوران دو فلموں میں کام کررہا تھا جن میں سے ایک رواں سال اکتوبر یا نومبر میں سنیما گھروں کی زینت بنے گی، دوسری عیدالفطر پر ریلز ہوگی۔علاوہ ازیں آج کل دو ڈراموں میں کام کررہا ہوں جو بہت جلد آئن ائیر ہوں گے۔

س: فرصت کے اوقات میں کیا کرتے ہیں ؟

ج: بچّوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا ہو ں ،کھانا پکاتا ہوں ،فلمیں دیکھتا ہوں اور کتابیں پڑھتا ہوں۔

س: شہرت نے آپ کو کتنا بدلا ؟

ج: میرا نہیں خیال کہ شہرت سے مجھ میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔میرے پرانے دوست مجھے یہی کہتے ہیں کہ ’’تم آج بھی نہیں بدلے ،بالکل ویسے کے ویسے ہی ہو۔‘‘ یہ سن کر مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر شہرت کے اثرات نہیں پڑے اور اس بات پر میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں۔ آخر میں ایک بات کہنا چاہوں گاکہ اپنے بچّوں کو اچھی، بری چیزوں سے آگاہ کریں ،ان پر بہت زیادہ توجہ دیں، خاص خیال رکھیں اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید