• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آرٹسٹ کا عوام سے گہرا رشتہ ہوتا ہے: روبینہ اشرف

زندگی آگے کی جانب رواں دواں رہنے کانام ہے ۔ایک مقام سے دوسرے مقام پر اور ایک کام یابی کے بعد دوسری کام یابی کی جانب پیش قدمی انسانی فطرت ہے۔ خوب سے خوب تر کے حصول کی یہ جستجو زندگی کے ہر شعبے کی طرح چمکتی دمکتی دنیا ’’شوبز‘‘ میں بھی ہے۔

اس دنیا کا ایک نام ’’روبینہ اشرف‘‘ ہے، جنہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1982ء میں لاہور ٹیلی ویژن ڈراما ’’ایسی بلندی، ایسی پستی ‘‘ سے کیا اور پھر دھیرے دھیرے بہت محتاط انداز سے آگے بڑ ھتی رہیں ۔یہ ٹی وی کی وہ اداکارہ ہیں جنہوں نے ناظرین کو کبھی مایوس نہیں کیا ۔وہ کردار کی ادائیگی میں کبھی عجلت سے کام نہیں لیتیں ۔ہر کردار ان کی ذات کا حصّہ نظر آتا ہے۔

ان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں ۔اداکاری کرتے کرتے ہدایت کاری کا خیال بھی دل میں سما یا اور پروڈیوس کرنے کا بھی اور یہ کر گزر بھی گئیں۔ لیکن ناظرین کی اکثریت انہیں بہ حیثیت اداکارہ جانتی ہے ۔ان کی ایکٹینگ کیرئیر تقریباً40 سال اوپر تک پھیلا ہوا ہے ،تاحال یہ سلسلہِ سفر جاری ہے۔

بہ حیثیت ڈائریکٹر روبینہ اشرف کے کریڈٹ پر تقریباً سات ڈرامے ہیں جن میں رسوائی ،وینی ،شکوہ ،سرخ چاندنی ،تیرے سوا،ایک آدھ ہفتہ اور ترازو شامل ہیں ،جب کہ اداکا ری کے میدان میں علی بابا اور قاسم بھائی ،فٹ پاتھ کی گھاس ،مجھے اپنابنولو ،عشق کی انتہا ،تمہیں کچھ یادہےجاناں ،میرا نصیب، آخری بارش ،پر جھائیاں ،ماتم ،ہلکی سی خلش ،دل نہیں مانتا ،گل رعنا وغیرہ کے علاوہ بے شمار ڈراموں میں اپنے فنی جوہر دکھائے ۔ آج کل جیو چینل کی ڈراما سیریل ’‘بےحد ‘‘ میں ایک ایسی دولت مند ماں کا کردار ادا کررہی ہیں، جو معاشرے کا جیتا جاگتا کردار ہے ،گرچہ ابھی اس سیریل کی چند اقساط ہوئی ہیں لیکن سیریل کے ساتھ ان کے کردار کو بھی شہرت مل رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہم نے ’’روبینہ اشرف ‘‘ سے تفصیلی بات چیت کی ،ایک گھنٹے کی ٹیلی فونک گفتگو میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم آمنے سامنے بیٹھے بات چیت کررہے ہیں ،کچھ سوالات کے جوابات ’’وائس مسیج ‘‘ کے ذریعے دئیے، کچھ کے جواب دئیے بھی نہیں اور کچھ سوال سمندر اور جواب قطرہ تھے، اُس لمحے اندازہ ہوا کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر روبینہ اشرف کو خوب آتا ہے۔

اب ہمارے ساتھ آپ بھی اس گفتگو میں شامل ہو جائیں لیکن پہلے مختصراً ان کے بارے میں بتاتے ہیں ۔1960ء میں لاہور میں زندگی کی پہلی سانس لی۔تعلیمی سفر بھی اسی شہر میں مکمل کیا ۔گرافک ڈیزائنگ میں ڈگری یافتہ ہیں ۔1987 ء میں کراچی کے رہائشی طارق مرزا سے شادی ہوئی اور یوں لاہور کی بیٹی کراچی کی بہو بن گئی۔ ایک بیٹا، بیٹی کی ماں ہیں۔ بیٹی مینا طارق نے بھی ٹی وی کے چند ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

س: آپ نے گرافک ڈیزائنگ میں ڈگری لی ،اپنی تعلیم سے کس حد تک استفادہ کیا ؟

ج: تعلیم سے استفادہ تو ایک غیر شعوری ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر کسی شخص نے میڈیا سائنس یا کسی اور شعبے میں ڈگری حاصل کی ہے تو جب وہ اپنے شعبے میں کام کرے گا تو ہی تعلیم اس کو فائدہ پہنچائے گی ،بلکہ وہ کسی بھی شعبے میں جائے گا تعلیم اس کو فائدہ دے گی۔ ایک ڈاکٹر لڑکی جو ہاؤس وائف ہے تو کیا وہ اپنی تعلیم کو ڈبے میں بند کرکے رکھ دیتی ہے، جو تعلیم دماغ میں چلی گئی ہے وہ کسی کونے میں پڑی نہیں رہتی بلکہ کہیں نہ کہیں استعمال ہوتی رہتی ہے۔ 

میں نے گرافک ڈیزائنگ کو کیرئیر کے طور پر نہیں اپنایا لیکن اس سےا ستفادہ اب تک کررہی ہوں۔ گرافک ڈیزائنگ بھی ایک آرٹ ہے اور جس شعبے میں، میں آج ہوں وہ بھی آرٹ کی ایک قسم ہے ۔ میری ڈریسنگ ،اُٹھنے بیٹھنے کے انداز، گھر میں ،زندگی میں ہر جگہ میری تعلیم کی جھلک نظر آتی ہے۔

س: شادی کے بعد کافی عرصے آپ اسکرین سے غائب رہیں، کیا سسرال یا شوہر کی جانب سے ڈراموں میں کام کرنے پر پابندی تھی یا گھریلو مصروفیات آڑے آئیں؟

ج: بہ طور اداکارہ اپنے کیرئیر کا آغاز1982ء میں کیا اور 1987 ء میں میری شادی ہوئی۔ شادی کے بعد بہ مشکل ایک سال میں نے کام سے وقفہ لیا ۔بعدازاں جب بھی مجھے کسی ڈرامے میں کام کرنے کی آفرہوئی ،میں نے وہ کیا ۔1988ء میں کراچی سے میرا ڈرامہ آن ائیر تھا ،جب سے آج تک کام کررہی ہوں۔

میرے سسرال والوں یا میرے شوہر کو کبھی بھی میرے کام کرنے پر اعتراض نہیں ہوا بلکہ انہوں نے تو مجھے ہر قدم سپورٹ کیا ،میرے کام کو سراہا اور مجھے مزید کام کرنے کا حوصلہ دیا۔

س: قبل اس کے کہ آپ کے فن کے بارے میں بات کی جائے، کیوں نا آپ سے یہ معلوم کریں کہ آپ کے ذہن میں آرٹ اور آرٹسٹ کا کیا مفہوم ہے؟

ج: آرٹ میں انسان کو بدلنے کی طاقت وقوت ہوتی ہے ،یہ ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہنچا دیتا ہے۔ زندگی تبدیل کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ آپ کے سوچنے کا انداز اور سمجھ کو بدل سکتا ہے ،چاہے وہ آرٹ کی کوئی بھی قسم ہو۔پینٹنگ، میوزک، شاعری یا ویژول آرٹ ہو۔

یہ دنیا بھی اللہ کے آرٹ کا شاہکار ہے۔ ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو قدرت کا بے مثال آرٹ ہر جگہ نظر آئے گا۔ اس دنیا کا نظام چلانے اور خوشیاں بکھیرنے میں اللہ کی ذات کے بعد ،جس چیزکا حصہ وہ ’’آرٹ ‘‘ ہے اور آرٹسٹ اس آرٹ کو اپنے فن کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

س: ٹیلی ویژن پر آنے سے پہلے زندگی کیسی تھی؟

ج: ہنستے ہوئے گویا ہوئیں، ویسی جیسے ٹیلی ویژن پر آنے سے پہلے تھی۔ تھوڑا بہت فرق توہر فیلڈ میں جانے کے بعد آتا ہی ہے ،جیسے کہ زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے بچپن ،پڑھائی کا دور ،شادی کے بعد کی زندگی اورپھر کام کی۔ کام کی زندگی اور اس سے پہلے کی زندگی میں فرق ہوتا ہے، کیوں کہ آپ جو کام کررہے ہیں وہ آپ کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے اور اس مقصد کے تحت آپ اپنی زندگی گزرتے ہیں۔

ہمارے عوام کو لگتا ہے کہ ٹیلی ویژن پر آنے کے بعد آرٹسٹ کو اتنی زیادہ توجہ ملتی ہے کہ ان کی زندگیاں مکمل طور پر بد ل جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں آرٹسٹ کو خاص توجہ ملتی ہے لیکن ان کی زندگی نہیں بدلتی وہ اپنی ذاتی زندگی میں بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے وہ ٹی وی پرآنے سے پہلے تھے۔ میں بھی پہلے جیسے تھی ،آج بھی ویسی ہی ہوں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ کام کی جگہ پر آپ کو اپنے اندر تھوڑی بہت تبدیلی لانی پڑتی ہے جو آپ کو تعریفیں ملتی ہیں ،لوگ سراہتے ہیں ،وہ ہم گھر تو نہیں لے کر آتے۔

وہ بادشاہت اور تعریفیں ہم کام کی جگہ پر ہی چھوڑ کر آتے ہیں۔ گھر میں ہم ایک عام انسان کی طرح ہی زندگی گزارتے ہیں ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں جو عزت و احترام عوام کی طرف سے ملتا ہے، اس کو سنبھال کر رکھنا ایک ذمہ داری ہوتی ہے، مگر میری زندگی میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی ،میں آج بھی خریداری کرنےاتوار بازار جاتی ہوں۔ شاپنگ مال جاکر اطمینان سے شاپنگ کرتی ہوں۔ لوگ مجھے سے آکر ملتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ جتنی وہ مجھے سے محبت کرتے ہیں اسی سے کئی زیادہ میں ان سے کرتی ہوں۔ ایک آرٹسٹ کا عوام سے گہرا رشتہ ہوتا ہے۔

س: عورت ہونے کے ناتے اداکاری کے میدان میں کیا دشواریاں محسوس کیں؟

ج: کبھی کوئی دشواری کا سامنا نہیں ہوئی۔ زندگی میں جو بھی دشواریاں محسوس کی ہیں وہ ویسی ہی کی ہیں جیسے ایک عام انسان کرتا ہے یا کوئی بھی مرد کرتا ہے۔ میں نے اپنے عورت ہونے کو نہ کبھی وجہ سمجھا اور نہ کبھی یہ وجہ تھی۔ مشکلات تو زندگی کے ہر موڑ پر آتی ہیں اور انسان ہونے کے ناتے سب کو ہی مشکلات کا کسی نہ کسی طر ح سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میں نے کبھی ایسا نہیں سوچاکہ، یہ مشکل عورت ہونے کی وجہ سے ہورہی ہے، جب بھی کوئی مسئلہ در پیش آیا۔ اس کو حل کرنے کا سوچا ،ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا۔ مشکل وقت میں سب سے پہلے اپنے آپ کو جانچا کہ مجھے سے کہاں غلطی سرزد ہوئی ہے۔ مشکلات کو صنفی تفریق کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ بہ حیثیت انسان اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

س: اداکاری کے رموز کیسے سیکھے؟

ج: کام کرکرکے ،آن جاب ٹریننگ سے، دوسروں کا اور دنیا کاکام دیکھ کر سیکھے۔ ہمیں کوئی خاص طور پر اداکاری کی ٹریننگ تو نہیں دی جاتی ۔ہمارے دور میں پھر بھی سکھانے والے لوگ تھے، ڈائریکٹرز بہت قابل تھے ،فنکاروں کو ٹریننگ کے لیے دوسرے ممالک بھیجا جاتا تھا۔

ایک فارمٹ کے تحت ڈائریکٹرز کو ریفریشر کورسزز کے لیے بیرون ملک بھیجا جاتا تھا،جب کہ اُس وقت اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے تھے۔ میرے خیال سے آج بھی پروڈکشن ہاؤسز اور چینلز کو ڈائریکٹرزکو ریفریشرز کورسز کے لیے بھیجنا چاہیے ۔اس وقت ہر فنکار خود سے ہی اداکاری کے رموز سیکھ رہا ہے۔

س: ہمارے ٹی وی ڈراموں پر جو زوال آرہا ہے، اس کی وجہ بتانا چاہیں گی؟

روبینہ اشرف اپنی بیٹی مینا طارق کے ساتھ
روبینہ اشرف اپنی بیٹی مینا طارق کے ساتھ

ج: ڈراموں کی ریٹنگ کو دیکھ کر تو یہ نہیں لگتا کہ ان پر زوال آرہا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس مقام پر نہیں ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہیے تھا،مگراس کے باوجود ہم ہر سال دو تین ایسے ڈرامے ضرور بناتے ہیں جن کو پوری دنیا میں پذیرائی ملتی ہے۔ جیسا کہ ’’کابلی پلاؤ‘‘،’’خئی‘‘ وغیرہ ۔یہ سمجھ لیں پورے دن میں 14 ڈرامے آتے ہیں ،ان میں سے صرف تین چار اچھے ہوتے ہیں۔

ہمیں اس تناسب کو بدلنا ہے۔ عام طور پر ہر میڈیا انڈسٹری میں اچھے ،اوسط اور برے ڈرامے بنتے ہیں ،ہماری انڈسٹری میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ،مگر ہمارے پا س اب اوسط اور برے ڈرامے زیادہ ہیں اور ان کو دیکھنا عوام کی مجبوری ہے، تو اسی لیے برے ڈرامے بھی دیکھے جارہے ہیں اور ان کی ریٹنگ بھی بہت آتی ہے ۔لیکن ڈرامے کی ریٹنگ سے اس کے معیار کا اندازہ نہ لگائیں،اگر ہم اس پر انحصار کرتے ہوئے ڈرامے کا فارمیٹ بنائے گےتو وہ غلط فارمیٹ ہوگا۔

س: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پہلے کی نسبت آج کے ڈراموں کا معیار گر گیا ہے اور گرتا ہی جارہا ہے؟ اور کم و بیش ایک ہی جیسے ڈرامے ہو رہے ہیں؟

ج: ڈراموں کا معیار پہلے بھی اچھا تھا اور آج بھی اچھا ہے۔دنیا بھر میں پاکستان کےاردو ڈراموں کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ پہلے کام کم تھا اور وقت زیادہ تھا تو بہت دھیان ،دل چسپی اور یک سوئی سے کام کیا جاتا تھا۔ اتنے سالوں بعد ہمیں جس مقام پر ہونا چاہیے تھا ہم وہاں نہیں ہیں اور اس کی اہم وجہ اسکرپٹ اور ڈائریکشن کی کمزوری ہے۔

معیار میں پہلے کی نسبت کافی فرق آیا ہے ،کیوں کہ پہلے کے مقابلے میں اب ڈراموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اب زیادہ کام ہوتے ہیں، اسی لیے جلد بازی میں کیے جاتے ہیں ،جس سے معیار متاثر ہوا ہے اور مسلسل ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے تین ڈرامے بنتے تھے تو ان میں سے دو اچھے ہوتے تھے ۔اب 10 بنتے ہیں تو ان میں سے بھی دو ہی اچھے ہوتے ہیں تو اس تناسب کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے معیار کو بہتر بنانا تھا اور ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہر چینل پر ایک ایسا ڈرامہ نشر ہوتا ہے ،جس کو بہت پذیرائی ملتی ہےاور وہ ریکارڈ توڑ ڈرامہ بن جاتا ہے۔

س: کیا ہمارے ملک میں مستقل ڈراما ورک شاپ ہونی چاہیےـ؟

ج: بالکل نہ صرف ڈارمہ ورک شاپ ہونی چاہیے بلکہ ڈرامے کے ہر پہلو ،ہر خامی اور ہر کام یابی پر بات کرنی چاہیے ۔جیسے دنیا بھر میں ہوتا ہے ۔ہمارا بھارت کے ٹیلی ویژن کے ساتھ اتنا تعلق نہیں ہے جتنا فلموں سے ہے، جس طرح وہ لوگ اپنی فلموں اورہٹ پروجیکٹس کو سراہتے ہیں، ان کے دس سال ہونے پر جشن مناتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے سپر ہٹ پروجیکٹس کو ری فریش کرکے نئی نسل کو دکھانا چاہیے، تاکہ ان کو بھی ہمارے اچھے کاموں کا پتا چلے ۔وہ بھی دیکھیں کہ پہلے کا کام کیسا معیاری ہوتا تھا۔

جو نئے لوگ ڈرامہ انڈسٹری میں کام کرنے آرہے ہیں ،میں ان کو پرانے چند ڈراموں کے نام بتاتی ہوں کہ وہ آپ لازمی دیکھیں ،تا کہ ان کو اچھے کام کا اندازہ ہو۔ ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے جب ایکٹنگ اور ڈائریکشن بہترین ہوتی ہے تو کیا ماسٹر پیس سامنے آتا ہے۔ آج کل کی صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے میں کہتی ہوں متعدد ورک شاپس ہونی چاہیے ،تاکہ نئے لوگ نئی نئی چیزیں سیکھ کر معیاری کام کرتے رہیں۔

س: کیا فن اداکاری کے ذریعے معاشرے کے مسائل سلجھائے جاسکتے ہیں؟

ج: ایسا ہوسکتا ہے ،کیوں کہ ڈراموں کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔ ہماری تو ہرممکن کوشش ہوتی ہے کہ ہر ڈرامے سے عوام کوئی نہ کوئی نئی چیز سیکھیں ،کچھ نہ کچھ سبق حاصل کریں۔ ٹیلی ویژن معاشرے میں بہتری لانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

یہ لوگوں کو حوصلہ افزائی دینے اور ڈپریشن سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، لوگوں کو گھر گر ہستی کا ہنر بھی سکھاتا ہے ،بات کرنے کے صحیح اور غلط طریقے میں فرق بتا تا ہے ،سوچ کے زوایے بدلتا ہے۔ ڈراموں کےذریعے بڑے بڑے کام باآسانی کیے جاسکتے ہیں، صرف ان کو مقصد بنانے کی دیر ہے اور ہمیں یہ کام منفی طریقے سے نہیں بلکہ مثبت طریقے سے عوام کو کرکے دکھانا چاہیے۔

س: اپنے کام کو کبھی تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھتی ہیں؟

ج: ہر کام کو تنقدی نقطہ ٔ نظر سے دیکھتی ہوں۔ میں آج بھی اپنے آپ کو اچھی اداکارہ نہیں سمجھتی، یہ بات میں کہتی نہیں ہوں لیکن سمجھتی ضرور ہوں۔ اسکرپٹ پڑھتے ہوئے میں اپنے کردار کا خاکہ ذہن میں تیار کرلیتی ہوں لیکن جب اسکرین پر اپنے آپ کو پر فارم کرتے ہوئے دیکھتی ہوں تو کم ازکم 30 فی صد کم ہوتی ہوں۔

کچھ سین ایسے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے ،’’یہاں میں نے بہتر اداکاری کی ہے ۔‘‘میرا سیکھنے کا عمل ابھی تک جاری ہے اور اسی لیے میں ابھی تک کام کررہی ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک آپ کو کام نہیں آتا تو وہ آسان لگتا ہے لیکن جب آجاتا ہے تو وہ مشکل لگنے لگتا ہے۔

س: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ فن کار کو اس کے فن کے حوالے سے دیکھنا چاہیے، ان کی نجی زندگی سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے؟

ج: کسی بھی فن کارکی نجی زندگی سے غرض تو نہیں ہونی چاہیے ۔لیکن ایسا ہوتا نہیں اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ لیکن یہ دیکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے آپ کو کسی کی زندگی میں کس حد تک مداخلت کرنی ہے اور کہاں انہیں چھوڑ دینا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے معاشرے کی نشانی ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے تو فیس بک اور انسٹا گرام پر ٹرولنگ بھی بہت ہوتی ہے۔

بولی وڈ میں جب کسی فن کار پر تنقید کی جاتی ہے تو وہاں کے عوام کیسے کامنٹ کرتےہیں اور جب ہمارے کسی فن کار پر تنقید ہوتی ہے تو ہمارےعوام کیسے کامنٹ کرتے ہیں۔ یہ واضح فرق ہے، سیکھے اور سمجھے ہوئے معاشرے کا اور ایک ایسے معاشرے کا جس کو یہ تک نہیں پتا کہ بات کیسے کرنی ہے ۔اپنی زندگی کی کڑواہٹیں کسی فن کار پر نہیں نکالنی چاہییں۔ اس معاملے میں ہمیں خود اپنے آ پ کو ٹرین کرنے کی ضرورت ہے۔

س: آج کل آپ جیو ٹی وی کی سیریل ’’بے حد‘‘ میں کام کر رہی ہیں، اس میں اپنے کردار کی نفسیات کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ج: رائٹر نے اس کردار کی نفسیات ایک ڈائیمینشن میں لکھی ہے ۔میں نے اس میں ڈائیمینشنز ڈالنے کی کوشش کی ۔ کردار کو حقیقت سے قریب تر بنانے کی کوشش کی ہے، اس کو اتنا غیر معمولی نہیں رکھنا چاہیے کہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگنے لگیں۔ لہٰذا کردار کو تھوڑا بہت بدلنے کی کوشش ضرورکی ہے، کیوں کہ اتنا زیادہ ڈائیمینشنل کوئی بھی نہیں ہوتا۔

س: اپنے کردار سے کس حد تک سبق حاصل کرتی ہیں؟ اور کردار کی ادائیگی کے لیے کن عوامل کو ضروری سمجھتی ہیں؟ کیا آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسا کردار اپنے لیے منتخب کریں جو ناظرین کو ڈائریکٹ اپیل کرے اور دیر تک یاد رہے، ایسا کوئی کردار کیا؟

ج: میں کبھی بھی کردار کو چن کر منتخب نہیں کرتی۔ میرے پاس جو بھی اسکرپٹ آتا ہے ،اس کو پڑھ کر لگتا ہے کہ اس میں ترامیم کرکے اس کو بہتر کیا جاسکتا ہے تو میں وہ ضرور کرتی ہوں۔

میں وہ اداکارہ نہیں ہوں جو ایک اچھے کردار کا ایک سال تک انتظار کرے یا وہ کردار کروں ،جس کا مجھے پہلے سے پتا ہے کہ وہ ہٹ ہوگا۔ میں وہ ایکٹر ہوں جو ایک ذمہ داری لیتا ہے کہ کسی بھی کردار کو کس طرح کرکے بہتر بنایا جاسکتا ہے، میرے پاس کوئی بہت برا لکھا ہوا یا بے معنی اسکرپٹ بھی آئے گا تو اس میں اداکاری کے ذریعے جان ڈالنے کی کوشش کروں گی۔

س: اداکار بعض اوقات ایسے کردار بھی قبول کرلیتے ہیں، جن سے ناظرین میں ان کا امیج متاثر ہوتا ہے، کیا آپ کے ساتھ ایسا ہوا، یا اگر آپ کے ساتھ بھی یہ صورت پیش آئی تو؟

ج: ڈراموں میں جو بھی کردار ہم ادا کرتے ہیں ،ان کا تعلق ہمارے اپنےامیج سے نہیں ہوتا،کیوں کہ وہ صرف ایک کردار ہے اور اس کو اسی نظریہ سے دیکھنا چاہیے۔ کرداروں کو اداکاروں کی زندگی سے نہیں ملوانا چاہیے ۔دیکھنے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ،’’ یہ صرف ایک کردار ہے ،جس کو وہ ادا کررہا ہے ،اس کا تعلق اس کی اپنی شخصیت سے نہیں ہے ۔‘‘

س: ٹی وی نے آپ کو کیا دیا؟

ج: شہرت، عزت، خوشی، خود اعتمادی ،پہچان،حوصلہ افزائی ،چیلنج ۔میرے خیال سے زندگی میں یہ چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔

س: شادی کے بارے میں بتانا پسند کریں گی، کیسے ہوئی، ارینج یا محبت کی، شوہر کتنا ساتھ دیتے ہیں؟

ج: شادی ارینج تھی۔ اسی لیے کسی قسم کی کیفوژن نہیں ہوئی یا یوں کہیں لیں میں نےکسی کو اتنا مارجن نہیں دیا۔ یہ پہلے سے طے تھا کہ میں شادی کے بعد کام کروں گی ،کیوں کہ سسرال والوں کو معلوم تھا کہ میں ایک اداکارہ ہو۔ انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا، اس لحاظ سے میں ،’’اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں ۔‘‘ زندگی سے مجھے کیا چاہیے یہ بات بہ خوبی پتا ہے تو، اسی لیے زیادہ سمجھوتا نہیں کرتی اور زند گی ایسی ہی گزارنا پسند ہے، جس میں زیادہ سمجھوتا نہ ہو اور اگر ہوبھی تو وہ ،جس کا مجھے لگے کہ ہاں یہ کرنا ضروری ہے، کیوں کہ اس میں سب کا فائدہ ہے۔

میرے خیال سے یہ ایک طریقہ ہے زندگی گزارنے کا ،جس میں آپ کو صحیح، غلط کی سمجھ ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ زندگی میں کیا بہت ضروری ہے اور کس چیز کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ زمانے سے تو انسان ساری عمر سیکھتا ہی رہتا ہے، اچھی زندگی گزارنے کی ایک ٹپ جس پر میں نے خود بھی عمل کیا اور دوسروں کو بھی کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ’’ اپنی خوشی کے ہم خود ذمہ دار ہیں‘‘ اگر آپ خوش نہیں ہے یا زندگی اچھی نہیں تو اس کی وجہ آپ کو خود تلاش کرنی ہے، اپنے خوشیاں تلاش کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام کوئی دوسرا نہیں کرے گا ،یہ بات مجھے بھی کافی دیر سے سمجھ آئی، میں نے فیصلہ کرلیا کہ ،’’اپنی خوشی کے لیے میں کسی پر انحصار نہیں کروں گی ۔‘‘

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید