• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

رشتوں کا تقدس، ادب و احترام، روایات، ڈراموں سے ہوئے مائنس

چند ہفتے قبل معروف اداکارہ ثانیہ سعید نے پوڈ کاسٹ میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ، ’’پاکستان میں 2000ء تک بہترین ڈرامے بنتے رہے، جن میں اچھوتے موضوعات کو چھیڑا جاتا تھا، ماضی میں پاکستان میں ممنوع سمجھے جانے والے شاندار موضوعات پر ڈرامے بنانا آسان تھا اور انتہائی اچھے ڈرامے بھی بنے لیکن بعد میں کمرشلائزیشن کی وجہ سے ڈراموں کا بیڑا غرق ہوگیا۔‘‘ اس سے قبل اداکار نعمان اعجاز نے کہا تھا کہ، آج کے ڈراموں میں رشتوں کا تقدس پامال کیا جارہا ہے۔

ثانیہ سعید اور نعمان اعجاز کی بات سے ا نکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹی وی ڈرامے نے جس فنی اور تیکنیکی توانائی کے ساتھ زندگی کو اس کی تمام جزیات سمیت اپنے اندر سمیٹا ہے، اُس سے نہ صرف تخلیقی، تیکنیکی بلکہ موضوعاتی تجربوں کی ایک دنیا بھی وجود میں آئی ہے۔ اسے اگر بیس پچیس سال پہلے کے ڈراموں سے منسلک کرکے دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اُس وقت ڈراموں نے کس تیزی سے شہرت حاصل کی تھی۔

اپنے اردگرد کی صحیح عکاسی ونقشہ آج بھی اسی سے ممکن ہے۔ ڈراما ایک تفریح نہیں ہوتا بلکہ انسان کی فکر کو اُجاگر کرتا ہے ۔وقت کے ساتھ کچھ ڈراما رائٹرز نے نئے نئے تجربے کیے، نیا طرز ،نئی ڈگر بخشی اور اس کے کینوس کو وسیع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ماضی اور حال کے ڈراموں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔

معیار پہلے جیسا نہیں ہے۔ ڈراموں کے حوالے سے ہم نے چند سینئر فن کاروں سے بات چیت کی ہے، ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کہا ،وہ نذر قارئین ہیں۔ پہلے ذیل میں سوالات پڑھیں ،پھر فن کار و ں کی رائے۔

سوالات

٭ آپ کے خیال میں کیا واقعی آج کے ڈرامے رشتوں کا تقدس پامال کررہے ہیں، جب کہ ماضی میں ایسا نہیں تھا ؟

٭ زیادہ تر ڈراموں کا تھیم کم وپیش ایک ہی ہوتا ہے، ایسا کیوں ہے ؟کیا ڈراما رائٹرز کی کمی ہے ؟

٭ ڈرامے بھی دوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں معیاری کہا جاسکتا ہے ۔دوسرے وہ جو مقبو ل ڈرامے کہلاتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ معیاری ڈرامے مقبول نہیں ہوتے اور مقبول ڈراموں کے لکھاری معیار کا خیال نہیں رکھتے، حالاںکہ معیار اور مقبولیت ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ لازم وملزوم ہیں، آپ کا کیا خیال ہے ؟

٭ ماضی اور حال کے ڈراموں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

٭ اچھے اور برے ڈرامےکی تعریف آپ کی نظر میں کیا ہے ؟

٭ جدید ڈیجیٹل دور میں ویب اور نیٹ پر اوریجنل پاکستانی ڈرامے اور فلمیں کیوں نہیں ہیں ؟

جاوید شیخ

سینئر اداکار جاوید شیخ کہتے ہیں کہ واقعی اب ہمارے ڈراموں کا معیار ماضی جیسا نہیں رہا۔ جب کہ ڈرامے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے حالات و واقعات سب تبدیل ہوگئے ،معاشرے میں ایک عجیب سی بے چینی ہے ، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ 

جہاں تک بات ہے ایک جیسے موضوعات پر ڈرامے بننے کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ چینلز یہ دیکھتے ہیں کس طر ح کے ڈراموں سے زیادہ ریونیو حاصل ہوسکتا ہے اورجب وہ دیکھتے ہیں کہ ساس، بہو کے لڑائی جھگڑے ،سازشی کہانیوں سے ہم زیادہ کما رہے ہیں تو وہ اسی موضوع پر الگ الگ طریقے سے ڈرامے بنانےلگتے ہیں۔

نقصان کے ڈر سےچینلز کو ئی نیا تجربہ نہیں کرنا چاہتے،کسی نئے موضوع پر ڈراما نہیں بنانا چاہتے، جب کہ ماضی میں ہر طرح کے موضوعات پر ڈرامے بنتے تھے۔ ایسا نہیں کہ آج کل معیاری ڈرامے نہیں بن رہے۔ اگر عوام تعریف کرتےہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ڈراما معیاری ہے ،تب ہی تو مقبول ہورہا ہے۔جیو کے ڈرامےبہت مقبول ہورہے ہیں۔ ہمارے ڈراموں نے پڑوسی ملک میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ وہاں ہمارے ڈرامے بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ 

ماضی اور حال کے ڈراموں میں جو واضح فرق نظر آتا ہے وہ پروفیشنلزم کا ہے۔ پی ٹی وی کے دور میں پروڈیوسر پی ٹی وی کا ملازم ہوتا تھا،اس کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ اس ڈرامے سے مجھےزیادہ ریونیو بنا نا ہے،پوری توجہ اداکاری پر ہوتی تھی ،آرٹ کی طرف زیادہ رجحان ہو تاتھا، نئے نئےتجربات کرتے تھے۔ اسکرپٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہوتا تھا جوکہ اب نہیں ہے ،اس چیز نے بھی معیار کو متاثر کیا ہے۔

میرے خیال میں اچھے ڈرامے وہی ہوتے ہیں ،جن کی ہر چیز بہتر ین ہو اور برے ڈرامے وہ ہوتے ہیں جن میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے ،جس کے باعث عوام ان کو پسند نہیں کرتے لیکن یہ لوگوں کی پسند پر منحصر کرتا ہے کہ ان کو کون سا ڈراما اچھا لگ رہا ہے اور کون سا برا۔ ہمارے ڈرامے دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں، لہٰذا ایک خطے کے عوام کی رائے پر ڈرامے کے معیار کا فیصلہ کرنا غلط ہے۔

البتہ اس دور میں ڈراموں کو مزید فروغ دینے کے لیے اچھے رائٹرز کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نئے موضوعات آئیں۔ پروڈکشن ہائوس رائٹرز پرکسی قسم کی پابندی نہ لگائیں اور دوسری اہم بات جب کوئی ڈراما بہت زیادہ مقبول ہو رہا ہوتا ہے تو پروڈکشن ہاؤس مزید پیسے کمانے کے لیے رائٹر سےاس کی مزید اقساط لکھنے کا کہتے ہیں، اس طرح وہ ڈراما 20 کی بجائے 30 اقساط پر مشمل ہوجا تا ہے اور کہانی کا اصل ٹریک کھو جاتا ہے، جب کہ پی ٹی وی کے ڈراموں کی زیادہ سے زیادہ 14 اقساط ہوتی تھیں،اسی لیے ان کی کہانیوں کا تسلسل بھی برقرار رہتا تھا۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمزپر پاکستانی ڈرامے نہیں آتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارمز بھارت کے کنٹرول میں ہیں، اسی لیے ہمیں ان پر کا م کرنے کا راستہ کم ملتا ہے لیکن آہستہ آہستہ ذی 5 اور نیٹ فلیکس کے لیے ڈرامے بنانے پر کام ہورہا ہے۔

لیلٰی زبیری

اداکاری کی دنیا میں سینئر اداکارہ لیلٰی زبیری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے کے ڈراموں میں اخلاقی اقدار کا خاص خیال رکھا جاتا تھا لیکن اب ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ 

ایک ہی موضوعات پر ڈرامے بننے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کونٹینٹ رائٹرز اور اچھے رائٹرز کی کمی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اب ڈراما انڈسٹری کمرشلائز ہوگئی ہے ۔چینلز کو چلانے کے لیے کمرشل چاہیے ہوتے ہیں، ان کو ریٹنگ بھی دیکھنی پڑتی ہے، کیوں کہ اب سب چیزوں کا درو مدار ریٹنگ پر ہے۔

اچھے ،برے ڈراموں کا اندازہ بھی اسی سے لگا یا جاتا ہے ۔حالاں کہ یہ ضروری نہیں جوڈراما مقبول ہورہا ہے وہ معیاری بھی ہو۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اب چینلز مالکان اور ایڈور ٹائرز کا عمل دخل ہوتا ہے جو پہلے نہیں ہوتا تھا ۔کس طرح کا کونٹینٹ لانا ہے، کن فن کاروں کو کاسٹ کرنا ہے، یہ سب کچھ چینل اور ایڈورٹائزر بتاتے ہیں ،کیوں کہ ان کو اپنے ریونیو کا اندازہ بھی لگانا ہوتا ہے کچھ ڈرامے معیاری ہونے کے باوجود مقبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک طبقے کو وہ ڈراما پسند آتا ہے تو دوسرے طبقے کو اچھا نہیں لگتا۔

اس لیے اس کو اتنی مقبولیت نہیں ملتی ۔بالکل اسی طرح غیر معیاری ڈراموں کی مقبولیت کا ہوتا ہے۔ میں نے ماضی اور حال دونوں ادوار میں کا م کیا ہے، اس لیے دونوں ادوار کا موازنہ باآسانی کرسکتی ہوں ،ماضی میں تلفظ پر بہت توجہ دی جاتی تھی،جملوں کی ادائیگی کا خیال رکھا جاتا تھا لیکن اب صورت ِحال اس کے برعکس ہے ،موجودہ دور میں ساری توجہ گلیمر پر ہے۔

ان نکات پر زیادہ توجہ ہے،جس سے ریٹنگ زیادہ آئے ۔آج کے ڈراموں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لائٹنگ ،اسکرین بہت اچھی ہوگئی ہے ،میک اپ اچھا ہونے لگا ہے۔ جب کہ پہلے یہ سب کچھ اتنا معیاری نہیں تھا لیکن کونٹینٹ بہت مضبوط ہوتا تھا۔ ڈرامے کی شوٹنگ سے پہلے ریہرسل کی جاتی تھی ،مگر اب ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

ایک پہلو جس پر ہمیں لازمی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ بلا وجہ ڈراموں کوطول دینےکا جو نیا سلسلہ چلا ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ چیز کہانی کی اصل خوبصورتی کو متاثر کرتی ہے ۔ڈرامے ایسے بنائیں جو حقیقت سے قریب تر ہوں ،تا کہ عوام اس سے جُڑے رہیں اور اس میں مثبت پیغام ہو ،معاشرے میں اصلا ح کا پہلو ہو۔ 

انڈسٹری کو مزید فروغ دینے کے لیے اچھے کو نٹینٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو اچھے رائٹرز ہیں ان کولکھنے کا موقع دیں ،پروفیشنل لوگوں کو آگے لائیں ،زبان پر تو جہ دیں ،اپنی روایات اور ثقافت پر توجہ دیں۔ 

میڈیا لوگوں کو سکھانے کا بہت بڑا میڈیم ہے ۔معیارکے متاثر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ ماضی میں ڈرامے کم بنتے تھے تو ایک فن کار کی توجہ اپنے اُسی کردار پر ہوتی تھی لیکن اب اتنے ڈرامے بن رہے ہیں اور بیک وقت ایک فن کار کئی ڈراموں میں کام کررہا ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل ویب سائٹس پر کام کرنےپر توجہ دی جارہی ہے، ماضی میں ذی 5 پر ایک سیریل آچکی ہے اور نیٹ فلکس کے لیے ایک سیریل بن رہی ہے، اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے ڈرامے ان کے معیار کے مطابق ہیں یا نہیں۔

حنا خواجہ بیات

سینئر اداکارہ حنا خواجہ بیات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ڈرامے بہت کم بنتے تھے۔ ان میں اخلاقیات ،روایت اور ادب و احترام کا خیال رکھا جا تا ،ایسا کوئی سین نہیں دکھایا جاتا تھا جو فیملی کے لیے نامناسب ہو۔

اب چوں کہ ہمارے ڈرامے دنیا پھر میں دیکھے جاتے ہیں ، موبائل اور لیپ ٹاپ پر زیادہ دیکھے جاتے ہیں تو جب دیکھنے والے لوگوں میں تبدیلی آئی تو کونٹینٹ بھی بدل گیا اور کام بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہونے لگا، اس لیے فرق آگیا ہے لیکن ابھی بھی کچھ ڈرامے ایسے بنے رہے ہیں جن میں خاندانی اقدار ،ادب واحترام اور روایت کی پاسداری کی جاتی ہے۔ 

اگر ایک دفعہ کوئی فارمولا کام یاب ہوجاتا ہے تو سب لوگ اسی کو فالو کرنے لگتے ہیں ،اسی کو کام یابی کی سیڑھی سمجھتے ہیں ۔ایسا پہلے صرف فلموں میں ہوتا تھا ،مگر اب ڈراموں میں بھی ہورہا ہے ۔ میرے خیال میں موضوعات کی کمی کی ایک اہم وجہ ایک جیسا اسکرپٹ ہے لیکن اس کے قصور وار رائٹرز بھی نہیں ہیں ،کیوں کہ وہ اسی موضوع پر لکھیں گے ،جس کا چینلز ان کو کہیں گے ۔اب رائٹرز ان کے پابند ہو گئےہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پہلے کے رائٹرز کا ایکسپوژر ،تحقیق،مشاہدہ بہت تھا، انہوں نے زندگی کو کئی زایوں سے دیکھا تھا ۔اب ان چیزوں کی کمی محسوس کی جاتی ہے، میں ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں اگر کسی ڈرامے میں اخلاقیات کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور وہ ڈراما دیکھنے کے قابل نہیں ہے تو عوام اس کا بائیکاٹ کرے ،جب آپ دیکھیںگے تو بنانے والے کو یہ پیغام جائے گا کہ اس طرح کے ڈرامے بھی عوام پسند کرتے ہیں۔

غرض یہ کہ صرف ڈراموں کامعیار نہیں بدلا بلکہ دیکھنے والوں کا معیار بھی بدل گیا ہے ۔ ماضی میں ڈرامےکم بنتے تھےتو جب کوئی چیز کم مقدارمیں ہوتی ہےتو اس پر توجہ اور محنت زیادہ ہوتی ہے ،مگر چوں کہ اب ڈرامے اتنے زیادہ بنتے ہیں، ایک اداکار ایک وقت میں کئی کئی ڈراموں میں کام کررہا ہوتا ہے، جس سے توجہ ایک جگہ نہیں رہتی، اس پر کام اتنا پریشر ہوتاہے کہ کئی مرتبہ کچی پکی روٹی سامنے آجاتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ ڈرامے کی شوٹنگ مکمل نہیں ہو تی کہ ڈراما آئن ائیر ہو جاتا ہے، پھر پروڈکشن ہاؤس کی طرف سے جلدی جلدی شوٹ ختم کرنے کا پریشر آتا ہے۔ بلاوجہ ڈرامے کو طول دینے کی جو روایت پڑچکی ہے، اس سے بھی ڈراموں کا معیار متاثر ہوا ہے ۔ پہلے فن کاروں کو بھی اپنی پہچان بنانے میں کئی کئی سال لگ جاتے تھے اب سوشل میڈیا نے اس کومکمل طور پر بدل دیا، اس کی بدولت فن کار چند مہینوں میں ہی سپر اسٹار بن جاتے ہیں ۔اسی لیےکام کرنے کا وہ جنون ،جذبہ ، محنت اور لگن نہیں رہی۔

اب صرف جنون اس بات کا ہے ،عوام ہمیں پہچان لے ،ہم اسٹار بن جائیں ،سوشل میڈیا پر ہمارے فولوورز بڑھ جائیں۔میرے خیال سے برا ڈراما کوئی بھی نہیں ہوتا ،صرف معیار کا فرق ہوتا ہے،کچھ ڈرامے معیار کے لحاظ سے زیادہ نمبر لے جاتے ہیں اور کچھ کم نمبر لیتے ہیں لیکن محنت، پیسہ اور وقت تو دونوں میں لگتا ہے ۔آج بھی کچھ ڈرامےبہت معیاری بن رہے ہیں ۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں جیو پر نشر ہونے والا ڈراما ’’خئی ‘‘ بہترین ڈراما تھا ،اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ 

خئی میں ہر اداکار کی اداکاری بہترین تھی۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ڈرامے نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے ،میں نے ذی 5 کے لیے ایک سیریل کی ہے۔ جہاں تک بات ہے نیٹ فلکس کی ،مجھے ایسا لگتا ہے ہم اس کے معیار کے مطابق ڈراما بنا نہیں سکتے ،کیوں کہ اس پر موجوہ کونٹینٹ بہت بولڈ ہے، بہ حیثیت پاکستانی بولڈ کونٹینٹ پر کام کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔

بہروز سبزوار ی

سینئر اداکار بہروز سبزواری نے ہمارے سوالوں کے جواب میں گفتگو کا آغاز کچھ یوں کیا کہ ڈرامے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں، آج کل جو ہمارے معاشرے کا حال ہے، اس میں حلال اور حرام کا فرق ختم ہوگیا ہے، جب یہ فرق ختم ہوجاتا ہے تو گھرانے اور معاشرے ایسے ہی ہوجا تے ہیں، جیسا نظر آتے ہیں۔ یہ اللہ کا نظام ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کو جیسا کھلائیں گے نتیجہ ویسا ہی ملے گا۔

یہی سارا عکس آج کل کے ڈراموں میں نظر آرہا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو زیادہ تر ساس بہو کی چپقلش، طلاقیں اور دیگر لڑائی جھگڑوں پر ہی ڈرامے بن رہے ہیں۔ اگر میں ماضی کی بات کروں تو اُس وقت روایات اور ادب و احترام کو ملحوظ ِخاطر رکھا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے تو ڈراموں میں کہاں سے رہے گا۔میں پی ٹی وی کے دور سے ڈراموں میں کام کررہا ہوں۔

پی ٹی وی کے وقت اسکرپٹ میں ایک ایک لائن اور الفاظ کا خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی ایسی بات یا لفظ نہ چلا جائے، جس سے دیکھنے والوں پر برا اثر پڑے، مگر اب صورت ِحال بالکل مختلف ہے۔ ہم اداکاروں کا تو کام ہی اداکاری کرنا ہے، لہٰذا ہم اس سے جد اہو نہیں سکتے، مجبوراً اس نظام کا حصہ بن کر جینا پڑا رہا ہے۔

کوشش ضرور کرتے ہیں کہ ایسا پیغام، بات یا لفظ نہ جانے دیں ،جس سے آج کی نسل پر غلط اثر پڑے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ اب اسکرپٹ پر چیک اینڈبیلنس نہیں ہے کچھ رائٹرز تو 25 سال پہلے ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی کہانیوں پر ڈرامے لکھ دیتے ہیں، ایک ہی موزوں کو مختلف انداز میں کئی طرح سے لکھا جارہا ہے، حالاں کہ ہمارے پاس متعدد ایسے موضوعات ہیں جن پر ڈرامے بنائے جا سکتے ہیں لیکن ان پر غور نہیں کیا جاتا، اس بات پر ہدایت کار، رائٹرز کوئی غور وفکر نہیں کرتے۔ ہم تو آرٹسٹ ہیں ہمیں جو کام ملے گا ،وہ ہی کریں گے۔

اس بات کا خیال رکھنے کی مکمل ذمہ داری چینلز اور رائٹرز کی ہے، کیوں کہ ان کے بغیر اس کا سدباب ہو نہیں سکتا۔ دوسرا یہ کہ کچھ موضوعات ایسے بھی ہیں جن پر سینسرشپ کی وجہ سے ڈرامے نہیں بنائے جاسکتے۔ اس جگہ آکر چینلز، رائٹرز سب کے ہاتھ بند ھ جاتے ہیں۔ آج کل کے ڈراموں کا معیار، پسند نا پسند کا اندازہ ریٹنگ سے لگایا جاتا ہے۔

ڈرامے انٹر ٹینمینٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ بہرحال تمام تر مسائل ومشکلات کے باوجود آج بھی ہمارے ڈرامے بر صغیر میں اول درجے پر ہیں۔ ماضی کے ڈرامے، ماضی کے حالات کے متعلق ہوتے تھے، مگر آج کے ڈرامے ،آج کے حوالے سے نہیں لکھے جارہے۔ ڈراما رائٹرز کو چاہیے حال کی حقیقت پر ڈرامے لکھیں۔

فضیلہ قاضی

اداکارہ فضیلہ قاضی نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی میں اسکرپٹ ایڈٹ کرنے کے لیے ایک ڈیپارٹمنٹ ہوتا تھا جو اسکرپٹ میں سے نامناسب لفظوں کو ایڈیٹ کرتا تھا یا گرامر کی کوئی غلطی ہوتی تو اس کو درست کرتا تھا، تا کہ ڈراموں میں رشتوں کی ویلیوز اور تقدس بر قرار رہے لیکن آج کے ڈراموں میں ان چیزوں کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا صرف ریٹنگ کے لیے نامناسب چیزوں کو بھی نشر کیا جارہا ہے۔

حالاں کہ میڈیا ہماری نسلوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، بچے جو ٹی وی میں دیکھتے ہیں اس کو اپنا لیتے ہیں ،کیوں کہ ان کی نظر میں وہ نارمل چیز یں ہیں۔ بہ حیثیت فن کار ہماری کوشش ہوتی ہے کہ غلط چیزوں کو نہ دکھائیں لیکن کچھ جگہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ موضوعات کی کمی ریٹنگ کی وجہ سے ہے، اگر کوئی ایک ڈراما ہٹ ہوجاتا ہے اور اس کی ریٹنگ اچھی آتی ہے تو سب چینلز اسی موضوع کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اب اصل ڈراما رائٹرز نہیں رہے، وہی لوگ ڈرامے لکھ رہے ہیں جو ناولز اور ڈائجسٹ میں لکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کے پاس موضوعات بہت ہیں لیکن ڈرامےاور ناولز لکھنے میں فرق ہوتا ہے۔ڈرامے کے معیار اور مقبولیت کا تعین کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی کرائٹیریا نہیں ہے جب ان چیزوں کا اندازہ ریٹنگ سے لگایا جائے گا تو پھر غیر معیاری چیز یں ہی دیکھنے کو ملیں گی۔

سچ بتاؤں تو مجھے یہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ مقبول ڈرامے کون سے ہوتے ہیں، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ڈراما بہت اچھا لکھا ہوتا ہے لیکن ڈائریکٹر اس کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتا اور کچھ مرتبہ لکھا اچھا نہیں ہوتا لیکن اچھی ڈائریکشن کی وجہ سے وہ مقبول ہو جا تا ہے۔

ماضی اور حال کے ڈراموں میں فرق یہ ہے کہ پہلے کے ڈراموں کا کونٹینٹ اچھا ہوتا تھا کوالٹی اچھی نہیں ہوتی تھی ،جب کہ حال کے ڈراموں میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے کوالٹی اچھی ہے لیکن کونٹینٹ معیاری نہیں ہوتا۔ آج کل اچھا ڈراما وہی ہے، جس کی ریٹنگ زیادہ ہو اور جو پیسے زیادہ کما رہا ہو۔چاہے اس کی کہانی اچھی نہ ہو اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے۔ 

لیکن پڑوسی ملک کے مقابلے میں ہمارے ڈرامے بہت بہتر ہیں ،مزید بہتر کرنے کے لیے ڈراموں میں اپنی روایت اور اقدارکو بر قرار رکھا ہوگا۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ڈرامے اس لیے نہیں ہیں، کیوں کہ وہاں پر جوڈرامے ہیں ان کو بنانے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے ،ہمارے ڈراموں کی کوالٹی اور ویب سیریز کی کوالٹی میں فرق ہے ۔ ہمیں ٹی وی اور فلم انڈسٹری کو مزید مستحکم بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یاسر حسین

معروف اداکار، یاسر حسین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ڈراموں کا معیار بہت خراب ہوگیا ہے، نہ صرف ایک زوایے سے بلکہ ہر زوایے سے۔ ایڈیٹنگ، ڈائیلاگز کی ڈیلیوری اتنی بری اور کمزور ہوتی ہے کہ دیکھنے میں مزا ہی نہیں آتا۔ 

رائٹرزکو چینلز کہانی کی تفصیل خود بتاتے ہیں کہ اس موضوع پر ڈراما لکھے، کہانی میں موضوعات کی کمی اس لیے ہے ،کیوں کہ چینلز کو صرف گھر کی کہانیاں چاہیے، اگر وہ گھریلو کہانیوں سے باہر نکلیں گے تو ان کو پروڈکشن ویلیو شامل کرنی پڑے گی، پھر اس پر اخراجات زیادہ آتے ہیں۔

ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ گھریلو کہانیوں کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو ہر ڈراما ایک جیسا لگ رہا ہوتا ہے۔بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اسکرپٹ اچھا ہوتا ہے لیکن ڈائریکٹر اس میں تبدیلی کردیتا ہے۔ 

جب اسکرپٹ اچھی نہیں ہوتی تو اداکار کو کام کرنے میں بھی مزہ نہیں آتا، اداکاری میں جان ڈالنے میں اسکرپٹ اہم ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی ریٹنگ سے ڈرامے کے معیار کااندازہ لگایا جاتا ہے ،جب کہ سوشل میڈیا پر تو ایسی بہت سی چیزوں کو مقبولیت مل جاتی ہے جن کو نہیں ملی چاہیے۔

ماضی کے اور آج کے ڈراموں میں ایک واضح فرق کوالٹی کا بھی نظر آتا ہے، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پی ٹی وی کے پاس ذرائع بہت تھے، چینل ایک تھا اور اداکار بھی کم تھے تو سب بہت دل جمعی، محنت اور لگن سے کام کرتے تھے، اسی لیے عوام کو معیاری کام دیکھنے کو ملتا تھا۔ تنہایاں ،ان ِکہی ،وارث ،آنگن ٹیڑھا، دھواں۔

یہ وہ ڈرامے تھے جن کو دیکھنے کے لیے سڑکوں پر سناٹا ہوتا تھا۔ اب کمرشلزم کا دور ہے، بے شمار ڈرامے بنتے ہیں، ایک اداکار کئی کئی ڈراموں میں کام کررہا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنے کردار پر صحیح سے فوکس نہیں کرپاتا۔ پہلے ایک اداکار ایک وقت میں ایک ڈرامے میں کام کرتا تھا اور اس کی پوری توجہ اسی پر ہوتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ ماضی میں اسکرپٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہو تا تھا جو کہ اب نہیں ہوتا۔ بہتری لانےکے لیے چینلز کو ہر پہلوؤں(ڈائریکشن، پرڈوکشن، اداکاری، اچھا اسکرپٹ، اچھی کہانی اور اچھے میوزک ) پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مزید پیسہ اور وقت بھی لگانا ہوگا۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید