• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنتِ فرید

فلم کے گانے ہوں یا ٹیلی ویڑن کے نغمے ،عام طور سے ناظرین گلوکاروں کو ہی جانتے ہیں، موسیقاروں کوکم کم ہی جانتے پہچانتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں یوں تو ایک سے بڑھ کر ایک موسیقار پیدا ہوئے، مگر کچھ سنگیت کار ایسے گزرے ہیں جو جہان موسیقی میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کون ہے جو نوشاد، نثار بزمی، رثید عطرے اور اے حمید کی موسیقی کے شعبے میں عظیم خدمات سے انکاری ہے۔ اس ہفتے چندنامور موسیقاروں کے بارے میں ملاحظہ کریں۔ آج بھی ان کے گیتوں کی موسیقی اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

خواجہ خورشید انور

خواجہ خورشید انور کی ترتیب دی ہوئی دھنیں کسی اور جہان کا پتہ دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، جس کی عظمت کا اعتراف بھارت اور پاکستان دونوں ممالک میں کیا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے مجموعی طور پر صرف 27فلموں کی موسیقی دی ان میں سے آٹھ فلمیں ہندوستان میں بنیں اور 19 پاکستان میں۔ 21مارچ 1912ء کو میانوالی میں پیدا ہونے والے خواجہ خورشید انور کے نانا خان بہادر ڈاکٹر شیخ عطا محمد سول سرجن، والد خواجہ فیروز الدین احمد مشہور و معروف بیرسٹر تھے۔ 

خواجہ فیروز موسیقی کے دلدادہ تھے، ان کے پاس انڈین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے بے شمار ریکارڈ تھے۔ خواجہ خورشید انور کو بھی کلاسیکی موسیقی سے رغبت ہو گئی۔ موسیقی میں ان کی دلچسپی دیکھتے ہوئے خان صاحب توکل حسین نے 1934ء میں انہیں اپنی شاگردگی میں لے لیا۔

1939ء میں خواجہ خورشید انور آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہو گئے۔ چند ماہ بعد ہی موسیقی پروگرام کے پروڈیوسر ہو گئے۔ ہندوستان کے مشہور فلمساز و ہدایتکار اے آر کاردار نے خواجہ خورشید انور سے درخواست کی کہ وہ ممبئی کی فلمی صنعت میں شامل ہو جائیں وہ راضی ہوگئے اور 1941ء میں ان کی پنجابی فلم کڑمائی کی موسیقی دی۔ بطور موسیقار کاردار کی پہلی ہندی فلم ’’اشارہ‘‘ تھی۔ 

اس فلم کے نغمات بہت ہٹ ہوئے۔1944ء میں انہوں نے فلم پرکھ کا میوزک 1945ء میں فلم یتیم کی موسیقی دی،اس کے بعد ’’پگڈنڈی‘‘ اور ’’پروانہ‘‘ کا میوزک دیا۔1949ء میں فلم ’’سنگھار‘‘ کی بہترین موسیقی دینے پر خواجہ صاحب کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد میں فلم ’’نشانہ‘‘ اور’’ نیلم پری‘‘ کی موسیقی نے ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے، موسیقار روشن کئی برس تک خواجہ صاحب کے شاگرد رہے۔ شنکر جے کشن کے شنکر بھی خواجہ صاحب سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ 

موسیقار اعظم نوشاد نے خواجہ خورشید انور کو برصغیر کے عمدہ ترین سنگیت کاروں میں سے ایک قرار دیا۔ 1952ء میں خواجہ صاحب پاکستان آگئے اور پھر پاکستانی موسیقی کو شناخت مل گئی۔ 1955ء میں فلم ’’انتظار‘‘ کی موسیقی خواجہ رشید انور نے دی ، اس کے نغمات نے برصغیر میں دھوم مچا دی۔جن میںاو جانے والے رے… ٹھہر و ذرا رک جائو،آ گئے… صنم پردیسی… بلم پردیسی، چاند ہنسے… دنیا بسے… روئے میرا پیار، غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا، چھن چھن ناچوں گی… گن گن گائوں گی، ساون کی گھنگھور گھٹائو شامل ہیں۔ اس کے بعد خواجہ صاحب کی دیگر فلموں کے گیتوں نے بھی موسیقی کے دلدادہ لوگوں کو بہت متاثر کیا۔

ان کی مسحور کن دُھنیں آج تک کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ وہ فلمساز اور ہدایت کار بھی تھے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانی اور اسکرین پلے بھی لکھے، جن میں ہمراز، چنگاری، گھونگھٹ، جھومر، زہر عشق اور انتظار شامل ہیں۔ فلم ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ کی ہدایت کاری کے فرائض بھی سرانجام دیئے۔ فلم زہر عشق کے گیت انہوں نے ناہید نیازی سے گوا کر کمال کردیا۔

1958ء میں خواجہ صاحب کی بطور موسیقار، کہانی نویس اور اسکرین پلے رائٹر ایک اور فلم ’’زہر عشق‘‘ ریلیز ہوئی تھی جو ایک بہترین اور منفرد موضوع پر بنائی گئی تھی لیکن باکس آفس پر کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہ دے سکی تھی، حالانکہ اس فلم کے بعض گیت بڑے ہٹ ہوئے تھے۔ خواجہ صاحب نے نور جہاں کے بغیر دیگر گلو کارائوں سے چند سپرہٹ گیت گوا کر ثابت کر دیا تھا کہ بڑے کام کیلئے کسی بڑے نام کی ضرورت نہیں ہوتی۔

1959ء میں خواجہ خورشید انور کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں ان میں پہلی فلم ’’جھوم‘‘ تھی۔اس میں بھی خواجہ صاحب موسیقار کے علاوہ فلمساز، کہانی نویس اور اسکرین پلے رائٹر تھے لیکن یہ فلم تو ناکام ہو گئی تھی ،البتہ قتیل شفائی کے یہ گیت گلی گلی گونجے۔ چلی رے چلی رے… میں تو دیس پیا کے چلی رے،.....نہ کوئی سیاں میرا، نہ کوئی گاؤں رے…

خواجہ صاحب کی آخری فلم مرزا جٹ تھی، جو 1982ء میں ریلیز ہوئی، لیکن اس فلم کے گیتوں نے فلم بینوں کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ اس سے پہلے جو مرزا جٹ بنائی گئی تھی، اس کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی تھی اور اس فلم کے نغمات نے بہت شہرت حاصل کی تھی۔ خواجہ خورشید انور کو 1982ء میں ممبئی فلمی صنعت نے ’’فانی انسان، لا فانی گیت ایوارڈ‘‘ سے، جب کہ 1980ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

خواجہ خورشید انور نے اپنے 39سالہ فلمی کریئر میں ہمیشہ اپنے انداز میں کام کیا ۔ شاید اسی لئے بہت کم فلموں میں میوزک کمپوز کرسکے تھے۔ فن موسیقی کی باریکیوں کو خوب سمجھتے تھے اور عام طور پر کلاسیکی موسیقی پر عبور رکھنے والی نرم و ملائم آوازوں کو ہی استعمال کرتے تھے۔ موسیقی سے گہرا شغف رکھنے والے ان کی دھنوں کو بخوبی پہچان لیتے تھے۔

وہ زیادہ تر نسوانی آوازیں استعمال کرتے تھے،انہوں نے پاکستان میں سب سے زیادہ گیت ملکہ ترنم نور جہاں سے ،جبکہ زبیدہ خانم، کوثر پروین، ناہید نیازی، اقبال بانو، نسیم بیگم، مالا، آئرن پروین، مہناز، نیرہ نور، افشاں اور ترنم ناز سے بھی گوائے تھے۔ 

مرد گلوکاروں میں ان کے سب سے زیادہ گیت مہدی حسن نے گائے، جبکہ دیگر گلو کاروں میں سلیم رضا، منیر حسین، فتح علی خان، مسعود رانا، مجیب عالم، غلام علی، احمد رشدی، رجب علی اور غلام عباس شامل تھے ۔ان کے بیشتر گیت قتیل شفائی، تنویر نقوی اور احمد راہی نے لکھے تھے ۔خواجہ خورشید انور کا انتقال 30اکتوبر1984ء کو لاہور میں ہوا۔

نثار بزمی

نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ بچپن میں مشہور بھارتی موسیقار امان علی خان سے متاثر تھے۔ ان ہی کی رفاقت کی وجہ سے 13 سال کی عمر میں بہت سے راگوں پر عبور حاصل کر لیاتھا۔فنّی سفر کا آغاز 1944ء میں ممبئی ریڈیو سے نشر ہونے والے ڈرامے ’ نادر شاہ درانی ‘ سے کیا، اس کی موسیقی ترتیب دی۔ اس کھیل کے سارے گیت سپر ہٹ ہوئے اور اس کے ساتھ ہی کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ یہ سال ان کی زندگی کا سنہری سال ثابت ہوا۔ 

نثاربزمی کی شہرت اگلے 2 برس میں آل انڈیا ریڈیو کے اسٹوڈیوز سے نکل کر بمبئی کے فلمی اسٹوڈیوز میں پہنچی تو، ڈائریکٹر اے آر زمیندار نے انھیں اپنی فلم ’جمنا پار‘ کے گانے کمپوز کرنے کی پیشکش کی۔ یہ فلم 1946ء میں ریلیز ہوئی اور پھر اگلے 12 برس کے دوران میں 40 فلموں کی موسیقی دی۔ لتا، آشا بھوسلے، مناڈے اور محمد رفیع سے گانے گوائے۔ رفیع کی آواز میں فلم ’ کھوج‘ کا گانا "چاند کا دل ٹوٹ گیا، رونے لگے ہیں ستارے" 40 کے عشرے کے آخری برسوں میں آل انڈیا ریڈیو سے بہت نشر ہوا۔

بمبئی میں بے پناہ پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود بزمی صاحب معاوضے کے اعتبار سے موسیقاروں کے تیسرے درجے میں شامل تھے۔ اس حیثیت میں انھوں نے پہلی بار آنند بخشی کو بطور نغمہ نگار فلم ’بھولا آدمی‘ میں متعارف کروایا اور کلیان جی آنند جی کی جوڑی کو سازندوں کی جگہ سے اٹھا کر موسیقاروں کی صف میں شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

1962میں نثار بزمی پاکستان آگئے۔ بمبئی میں ان کا شمار نام ور موسیقاروں میں ہوتا تھا اور لکشمی کانت پیارے لال جیسے میوزیشن اُن کی معاونت میں کام کر چُکے تھے۔ لیکن پاکستان میں قدم جمانا آسان نہ تھا کیونکہ یہاں اُس وقت موسیقی کے کئی آفتاب اور مہتاب روشن تھے۔ یہ وقت تھا خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے کا۔ اسی دور میں بابا جی اے چشتی، فیروز نظامی، رابن گھوش، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبداللہ، سہیل رعنا اور حسن لطیف بھی اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے۔

معروف موسیقاروں کے اس جھرمٹ میں شدید جدوجہد کے بعد کئی سالوں بعد نثار بزمی کو صرف ایک فلم ’’ہیڈ کانسٹیبل‘‘ ملی،تاہم مزید ایک برس کی شبانہ روز محنت کے بعد بلآخر منزل کا سراغ مل ہی گیا ،جب فضل احمد کریم فضلی نے اپنی معروف فلم ’ ایسا بھی ہوتا ہے‘ کے لیے انھیں موسیقار نامزد کر دیا۔

اس فلم کے بعد پاکستانی فلم انڈسٹری کے دروازے نثار بزمی پر کھُل گئے۔ 1966 میں انھوں نے ’لاکھوں میں ایک‘ٰ کی موسیقی مرتب کی تو پاکستان کی فلمی دنیا میں موسیقی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ بمبئی کا یہ موسیقار محض تفریحاً نہیں بلکہ ایک واضح مقصد کے ساتھ یہاں آیاہے۔

مہدی حسن اور نور جہاں جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ انھوں نے رونا لیلٰی اور اخلاق احمد جیسی نوخیز آوازوں کو بھی نکھرنے سنورنے کا موقع دیا۔’’ دِل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ‘‘ رونا لیلٰی کا یہ گیت تین عشروں کے بعد آج بھی اپنی شوخی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

1968ء میں فلم ’صاعقہ‘ کی موسیقی پر اور 1970ء میں فلم ’انجمن‘ کے میوزک پر نثار بزمی نے نگار ایوارڈ حاصل کیا، لیکن یہ محض ابتدا تھی۔ 1972ء میں ’میری زندگی ہے نغمہ‘، 1979ء میں ’خاک اور خون‘ اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نواز ا گیا۔

ان کی اہم فلمیں صاعقہ، تاج محل، آسرا، انیلہ، جیسے جانتے نہیں، عندلیب، ناز، بے وفا، نورین، الجھن، محبت رنگ لائے گی، آشنا، تہذیب، ناگ منی، میری زندگی ہے نغمہ، امراؤ جان ادا، سرحد کی گود میں، وغیرہ ہیں۔ آخری عمر انھوں نے گوشہ نشینی میں گزاری۔ دنیا ان کی فنی خدمات کو بڑے طویل عرصے تک یاد رکھے گی۔

نوشاد علی

موسیقار اعظم نوشاد علی انڈین فلم انڈسٹری میں بیش بہا خزانہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے والد، موسیقی کو حرام سمجھتے تھے، جب انہیں بیٹے کی موسیقی میں دلچسپی کا پتا چلا تو انہوں نے ان سے موسیقی یا گھر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا تو نوشاد گھر چھوڑ کر ممبئی چلے گئے۔انہوں نے بمبئی کی فلمی صنعت کو بہت کچھ دیا۔

وہ اپنے نغمات میں خالصتاً ہندوستانی آلات موسیقی کو خوبصورتی سے استعمال کر کے دھیمی لیکن دل و دماغ پر چھا جانے والی دھنوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ان کی المیہ دھنیں سامعین کے دلوں کو ناشاد کرنے اور طربیہ دھنیں سب کو نوشاد کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

25 دسمبر1919 کو لکھنو میں پیدا ہونے والے نوشاد نے چھ سال کی عمر میں سنگیت سے جو رشتہ جوڑا وہ مرتے دم تک قائم رہا۔ استاد یوسف علی اور استاد ببن، سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔1937 میں ممبئی کا رخ کیا اور 1940ءمیں فلم پریم نگر سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ فلمی دنیا میں ان کی رہنمائی استاد جھنڈے خان نے کی۔

1944ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’رتن‘‘ نوشاد کے فنی کیرئیر کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی، جس کے بعد ان کا نام فلموں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا، ان کی موسیقی کے جادو نے عوام کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ نوشاد ہمیشہ اپنے فن میں تجربات کرنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ انھوں نے کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت کو اس انداز سے عوام کے سامنے پیش کیا کہ آج بھی انکا سنگیت کانوں میں رس گھولتا ہے۔

فلمی موسیقی میں کلاسیکی ہندوستانی طرز موسیقی کو نہ صرف شامل کرنے، بلکہ اسے قبولیت عام کا رتبہ دلانے کا سہرا صرف نوشاد علی کو ہی جاتا ہے۔ قدیم روایتی موسیقی اور کلاسیکی ہندوستانی موسیقی دینے کے حوالے سے شہرت پانے کے باوجود ان کی دھنوں میں اکثر آرکیسٹرا اور مغربی آلات موسیقی بھی استعمال ہوتے تھے جیسے کہ وائلن اور تانبے کے بھونپو۔

موسیقار نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ہارمونیم کی مرمت کرنے سے کیا تھا۔ انہوں نے کئی مرتبہ پنجاب، راجھستان، گجرات اور مہاراشٹرا کے مشہور مقامی فوک گیتوں کو اپنی دھنوں میں شامل کیا۔ جیسے مشہور زمانہ ”پیار کیا تو ڈرنا کیا“ اصل میں ایک مقامی گیت ”پیار کیا کا چوری کری“ سے ماخوذ تھا۔

نوشاد نے 67 فلموں میں موسیقی کا جادو جگایا جن میں سے 35 فلموں نے سلور جوبلی ، 12 نے گولڈن جوبلی اور 3 فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ ان کی فلموں میں فلم شاہ جہاں، دل لگی، دلاری، انمول گھڑی ،بیجوباورا، آن، انداز،مغل اعظم اور داستاں جیسی فلمیں شامل تھیں جن کی مدھر کُن موسیقی آج بھی دل کو چھو لیتی ہے۔

2005ء میں اپنی آخری فلم تاج محل کی موسیقی 86برس کی عمرمیں ترتیب دے کر دنیا کے معمر ترین موسیقار ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ۔ ان کی ایک فلم ’’حبہ خاتون‘‘ نمائش پزیر نہیں ہوسکی۔ ’’موسیقار اعظم‘‘ کے خطاب کے علاوہ متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور پدم بھوشن ایوارڈ کے نام سر فہرست ہیں ۔

نوشاد علی26 دسمبر 1919 ء کو لکھنؤ میں پیدا اور 5 مئی 2006 ء کو بمبئی میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ’’مدر انڈیا‘‘ آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والی پہلی انڈین فلم ہےجس کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی تھی۔

غلام حیدر

ماسٹر غلام حیدر نے آج سے 90 سال پہلے فلمی موسیقی کی فنی ہیت اور شکل وضع کی تھی، اسی لیئے انہیں فلمی موسیقی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔لگ بھگ ایک صدی پہلے ماسٹر غلام حیدر نے فلمی گیت کے لیے ساز اور آواز کا تال میل وضع کیا، جس کے بعد سے آج تک جنوبی ایشیا کی فلمی موسیقی اسی رستے پر رواں دواں ہے ۔

غلام حیدر 1906 میں سندھ کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے موسیقی سے دلچسپی تھی، مگر تعلیم میڈیکل کی حاصل کی اور ڈینٹسٹ یعنی دانتوں کے ڈاکٹربن گئے، بعد ازاں اپنا کلینک بنایا۔ ایک دن ان کے کلینک میں معروف فلم پروڈیوسر اور پنچولی اسٹوڈیو کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی آئے۔ 

دورانِ گفتگو سیٹھ پنچولی نے بتایا کہ انھیں اپنی فلم کے لیے میوزک ڈائریکٹر کی تلاش ہے۔ یہ سن کر، ڈاکٹر غلام حیدر نے اسی وقت کلینک میں رکھا ہارمونیم کھولا اور سیٹھ پنچولی کو بہت سی دھنیں سنا دیں۔ پنچولی بہت متاثر ہوئے اور اپنے اسٹوڈیو آنے کی دعوت دی، یہیں سے غلام حیدر کے میوزک کریئر کا آغاز ہوا، بعد ازاں انھیں پنچولی اسٹوڈیو میں میوزک ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا۔

ماسڑ غلام حیدر نے لاہور کے بعد کلکتہ اور ممبئی کی بڑی فلم انڈسٹریز میں پس پردہ موسیقی کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے جس کی بنا پر انھیں اپنے عہد کا 'موسیقارِ اعظم‘‘کہا گیا۔ یہ ان کا اعزاز ہے کہ انھوں نے برصغیر کی موسیقی کو ملکہ ترنم نورجہاں اور لتا منگیشکر جیسی صدیوں پر پھیلی مُدھر آوازوں کا تحفہ دیا، یہی نہیں بلکہ ماسٹر غلام حیدر نے شمشاد بیگم کو صرف 12 سال کی عمر میں متعارف کروایا جو بعدازاں متحدہ ہندوستان کی پہلی نامور فلمی گلوکارہ کے طور پر سامنے آئیں۔

شمشاد بیگم چونکہ اس خطے کی پہلی پلے بیک (پس پردہ) گلوکارہ تھیں اسی لیے ان کے بعد آنے والی گلوکاراؤں، جن میں نورجہاں اور لتا منگیشکر بھی شامل تھیں، انہوں نے شمشاد بیگم کے انداز سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی گائیکی کی بنیاد رکھی۔

ماسٹر غلام حیدر اپنے زمانے کے سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والے موسیقار بھی رہے۔ 1945میں فلمساز و ہدایتکار محبوب کی فلم ’’ہمایوں‘‘ کے لیے انھوں نے ایک لاکھ روپیہ معاوضہ وصول کیا تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک معروف میوزک ڈائریکٹر کا معاوضہ دس ہزار سے زیادہ نہیں تھا۔ یہ ماسٹر غلام حیدر ہی تھے جن کا نام متحدہ ہندوستان کی فلموں کے پوسٹرز پر میوزک ڈائریکٹر کے طور پر درج کیا گیا۔

ان کی مشہور فلموں میں، سورگ کی سیڑھی، مجنوں، گل بکاؤلی، بےقرار، اکیلی، بھیگی پلکیں اور گلنار شامل ہیں۔ گلنار 1953 میں نمائش کے لیے پیش ہوئی اور اسی برس ماسٹر غلام حیدر صرف 45 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

رشید عطرے

پاکستان کے نامور فلمی موسیقار، رشید عطرے 15 فروری، 1919ء کو امرتسر، صوبہ پنجاب میں ربابی خاندان کے بلند پایہ ہارمونیم نوز خوشی محمد امرتسری کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عبد الرشید عطرے تھا۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدا اپنے والد سے کی اور پھر اپنے عہد کےعظیم گائیک استاد فیاض علی خان کے شاگرد ہوگئے۔ 

موسیقی کے شوق میں جلد ہی انھوں نے کلکتہ کا رخ کیا جہاں اس وقت کے مشہور بنگالی موسیقار آر سی (رائے چند) بورال کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا، یوں انھوں نے اپنے عہد کے عظیم ترین میوزک ڈائریکٹر کے ساتھ بحیثیت اسسٹنٹ اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔

1942ء میں رشید عطرے کو پہلی مرتبہ فلم مامتا کی موسیقی بنانے کا موقع میسر آیا، اس وقت ان کی عمر 23 برس تھی۔ 1947ء تک 8 فلموں کی موسیقی دی جن میں 4 فلموں کے وہ تنہا موسیقار تھے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور آ گئے جہاں انھوں نے فلم’’ بیلی ‘‘کی موسیقی ترتیب دی، یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔ بعدازاں رشید عطرے راولپنڈی چلے گئے جہاں انھوں نےریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کرلی۔ آزادیٔ کشمیر کے حوالے سے گایا جانے والا مشہور نغمہ ’’مرے وطن تری جنت میں آئیں گے اک دن ‘‘ان کے اسی زمانے کی یادگار ہے۔

1953ء میں ہدایت کار و اداکار، نذیر کے اصرار پر وہ فلمی دنیا میں واپس لوٹ آئے اور فلم شہری بابو کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے گیتوں نے پورے پاکستان میں دھوم مچا دی۔ اس کے بعد رشید عطرے نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ہر فلم میں متواترنغمات کی موسیقی ترتیب دیتے رہے۔ انھوں نے اپنے پاکستانی کیریئر میں مجموعی طور پر 55 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں 48 فلمیں اردو میں اور 7 پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

بطور موسیقار جن مشہورفلموں میں موسیقی دی، اُن میں شیریں فرہاد ،بیلی، روہی، لیلیٰ مجنوں، وعدہ، سات لاکھ،انارکلی 1958ء (بہ اشتراک ماسٹر عنایت حسین) اور زرقا شامل ہیں، جب کہ مشہور نغمات میں

’’آئے موسم رنگیلے سُہانے جیا نہیں مانے، گھونگھٹ نکالوں کہ گھونگھٹ اُٹھا لوں، جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں،....اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا، اللہ اکبر....تیرے در پر صنم چلے آئے،.....اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ شامل ہیں۔ رشید عطرےکا 18 دسمبر، 1967ء کو 48 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔. انھیں فلم سات لاکھ، نیند اور شہید پر بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ ملا۔

اے حمید

1924میں امرتسر کے ایک فنکار گھرانے میں پیدا ہونے والے شیخ عبدالحمید عرف اے حمید نے تیس سالہ فلمی کیرئر میں ستر سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دی ، اندازاً ساڑھے چار سو کے قریب گیت کمپوز کیے جن میں کم ہی فلمیں ایسی ہوں گی جن کا کوئی گیت مقبول نہ ہوا ہو۔ مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود اردو فلموں کے سکہ بند موسیقار تھے اور اپنے فلمی کیرئر میں صرف 8 پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔

بھارت کے پونا فلم انسٹیٹیوٹ سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ وہ پیانو بجانے کے ماہر تھے۔ اے حمید کی شہرت کا آغاز فلم’’ سہیلی ‘‘سے ہوا ، جس کے ہدایت کار ایس ایم یوسف تھے۔فلم انجام میں پہلی مرتبہ انڈسٹری میں متعارف ہوئے اور سہیلی کی کام یابی کے بعد بطور موسیقار انھوں نے کئی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ 

یوں اے حمید میں بھی سُر ساز، موسیقی اور گائیکی کا شوق پیدا ہوا۔ والد کی وجہ سے فلم نگری کا راستہ تو دیکھ ہی چکے تھے، جب اس فن میں اپنی صلاحتیوں کو آزمانے کا موقع ملا تو خود کو ثابت بھی کر دکھایا۔ فلم، رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز کی موسیقی ترتیب دی۔

اے حمید کو بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی ملا،جو’’ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے ‘‘ جیسے خوب صورت اور مقبول عام گیت کی دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔ پاکستانی فلموں کی کئی مقبول گیتوں کی دھنوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں شامل ہیں۔

اے حمید نے اردو کے علاوہ پنجابی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ ان کی بیشتر فلموں میں روحانی گیت، قوالیاں وغیرہ عام ہوتی تھیں۔ 20 مئی 1991 کو اے حمید کا راولپنڈی میں انتقال ہوا۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید