پر وقار اورمثبت شخصیت کے حامل،دھیما لہجہ ، چہرے پر ہر دم مسکراہٹ، یہ ہیں پاکستان کے نامور اداکار شہریار زیدی۔شوق تھا گلوکاری کا ،کالج اور ٹی وی کے مختلف پروگرامز میں گا نے گاکر شوق پورا کرتے رہتے تھے۔ اسی شوق میں ایک دن پاکستان کی نامور گلوکارہ نیرہ نور سے ملاقات ہوگئی اور چند ملاقاتوں کے بعد ہی دونوں شادی کے بندھن میں بند گئے۔ بعدازاں ایک دوست نے زبردستی ایک پلے میں کاسٹ کرلیا یہ بات ہے 1968 ء کی ،بس اُس ڈرامے سے اداکاری کے سفر کا آغاز ہوا۔
سلسلہ چل پڑا اورپی ٹی وی کے متعدد ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے لگے۔ ان کے کریڈ ٹ پرزیادہ تر سنجیدہ کردار ہیں۔ بہ قول شہریار کے، منفی کردار اداکرنا میرے لیے مشکل ہے ۔آج تک جتنے بھی کردار ادا کیے سب اپنی محنت کے بل بوتے پر کیے ،کبھی کسی سےکہہ کر یا کسی کی سفارش سے کام نہیں ملا ،نہ کبھی کچھ معرکتہ الاآراکرنے کا سوچا ،پھر بھی وہ آج اپنی بہترین اداکاری کے سبب عوام کے دلوں پر راج کررہے ہیں۔ نہ کسی سے اداکاری کے جوہر سیکھے ،کیوں کہ سیکھ کر کام کرنا بھی ان کے بس کی بات نہیں۔
اس کے باوجود ہر کردار اتنی خو بصورتی سے نبھایا کہ بہت ہی کم عر صے میں ان کا شمار پاکستان کے نامور اداکاروں میں ہونے لگا۔ چند سال قبل انہیں پرائیڈ آف پر فارمنس سے نوازا گیا۔ ان کا ایکٹینک کیرئیر سالوں پر محیط ہے، تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔
اداکاری کے علاوہ کچھ عرصے پی آئی اے میں ملازمت بھی کی اور چند سال اپنا بزنس بھی کیا لیکن ان سب کو خیر باد کہنے کے بعد اداکاری کو ہی اپنی پہچان بنالیا ،مگر گلوکاری کا شوق آج بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔گزشتہ دنوں ہم نے ’’شہریار زیدی ‘‘ سے ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ہمارے سوالات کے جوابات کیا دئیے، آپ بھی پڑھیے۔
س: اپنے بارے میں ہمیں کچھ بتائیں ۔مثلاًتعلیم ، خاندان، شوبز کی دنیا میں آمد وغیرہ ؟
ج: میری تاریخِ پیدائش 24 دسمبر 1949ءہے۔جائے پیدائش لاہور ہے ۔طالب علمی کے دور سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اداکاری کا قطعاً نہیں تھا اور نہ کبھی اس بارے میں سوچا تھا۔بس اتفاق سے اس میدان میں آگیا ۔اب گاتا کم ہوں ،اداکاری زیادہ کرتا ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ۔مزید پڑھائی کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکا۔ کالج میں گانے کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا ۔1968 ء میں میرے ایک دوست نے اسٹیج پلے کیا تھا ،جس کا نام تھا ’’آندھیوں میں چراغ جلتے ہیں ‘‘۔
اس نے مجھے اس پلے میں کا سٹ کرلیا جب کہ میں نے اس کو کہا بھی کہ اداکاری میرا پیشہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اُس نے مجھے سے اداکاری کروائی۔اس پلے میں میرا بہت مضبوط کردار تھا اور وہ ہٹ بھی بہت ہوگیا ،جس کی بناء پر مجھے ڈراموں میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی ،یوں گلوکاری کے ساتھ 1968 ء سےاداکاری بھی کرنے لگا۔ 1971 ء میں بہ طور ٹریفک آفیسر پی آئی اے جوائن کیا،چوں کہ وہاں شفٹوں میں کام کرنا پڑتا تھا ،اسی لیے ڈراموں میں کام کرنے کا سلسلہ کم ہوگیا اور پھر 1973 ء میں ،میں نے اداکاری کو خیر آباد کہہ دیا ۔1968 ء سے 1973ء تک متعدد ڈراموں میں کام کیا۔ اس دور میں ٹی وی بہت کام گھروں میں ہوتا تھا، اس لیے وہ پذیرائی نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھی۔
نوکری کے دوران میں نے اپنا میوزک کا شوق جاری رکھا۔ٹی وی کے بہت سارے پروگرامز میں گانے گائے ۔1988 ء میں پی آئی اے سے استفعیٰ دےکر بزنس شروع کردیا لیکن وہ زیادہ عرصے نہیں کر سکا ،کیوں کہ بزنس کرنے کا میرا مزاج ہی نہیں تھا ،جو ابھی بھی نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہے کہ، جب بھی بزنس کروں گا تو وہ لازمی فلاپ ہوگا ۔ 1996 ء میں ہومیوپیتھک کا امتحان پاس کیا ،اور دوسال کلینک بھی کی ،پھر یہ سلسلہ بھی ختم کردیا اوردوبارہ سے اداکاری کا سفر شروع کیاجو تاحال جاری ہے۔
س: اگر آپ اداکار نہ ہوتے تو کس شعبے میں کیر ئیر بناتے ؟
ج: سچ بتاؤں تو یہ بات مجھے آج تک خود بھی نہیں پتا کہ آج میں اداکار نہ ہوتا تو کیا ہوتا ،اس کی وجہ یہ ہےکہ میں کبھی بھی کسی کام کے لیے ایمبشیز نہیں رہا۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مجھے پہاڑ سر کرنا ہے یا آسمان سے تارے توڑ کر لانے ہیں، جس وقت جو کام صحیح لگا وہ کیا۔
گلوکاری کا شوق ہونے کے باوجود میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے دنیا کا نامور سنگر بننا ہے یا اس میں معرکہ سر کرنا ہے ۔اور نہ ہی اداکاری کے لیے ایسا کردار سوچا جو ملتا گیا وہ کرتا رہا اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ 2022 ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا بھی اعزاز مل گیا۔
س: آپ کا اداکاری کا سفر پی ٹی وی کے دور سے جاری ہے، اس دور میں اور آج کے دور میں کام میں اور فن کاروں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
ج: اس وقت زیادہ تر فن کار شوقیہ اداکاری کرتے تھے اور روزانہ 150 سے 200 کا چیک ملتا تھا ۔اس وقت ایک ہی چینل ہوا کرتا تھا ،سب اسی کے لیے کام کرتے تھے اب متعدد چینلز آگئے ہیں، اس لیے کام میں بھی فرق آگیا ہے۔ماضی میں کم لیکن معیاری کام ہوتا تھا اب کام زیادہ اور معیار کم ،یوں کہہ لیں معیارکاخیال کسی کو نہیں رہا ۔اُس وقت سیریل تو ہوتا نہیں تھا ،40 سے 45 منٹ کا پلے ہوتا تھا۔
آج کل کے ڈراموں میں اردو کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ پہلے نہیں ہوتا تھا، اسکرپٹ مخصوص لوگ لکھتے تھے ،پھر اس کی ریڈنگ ہوتی تھی اور لفظوں کی ادائیگی پر زور دیا جاتا تھا۔ ایک ایک لفظ کی ادائیگی پر غور کیا جاتا تھا کہ کہیں کوئی لفظ غلط نہ بول دیں ،اب ایسا نہیں ہوتا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اُس وقت ریہرسال لازمی ہوتی تھی، لائیو پروگرام ہوتے تھے ،وقت کی پابندی کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔
فرق نہ صرف کام میں آیا ہے بلکہ فن کاروں میں بھی فرق آیا ہے۔ ہم لوگ بہ طور آرٹسٹ شاید زیادہ کمیٹڈ تھے ،مگر ابھی بھی کچھ فن کار بہت ٹیلنٹڈ ہیں اور وہ پوری لگن اور محنت سے کام کررہے ہیں ۔میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ آج ہماری ڈرامہ انڈسٹری میں صلاحیت سے بھر پور لوگ ہیں۔
س: کسی بھی اداکار کی کام یابی میں اداکاری زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا اسکرین پر اچھا نظر آنا ؟
ج: میرے خیال سے کام یابی کی سیڑ ھی پر چڑھنے کے لیے شکل وصورت کے مقابلے میں تو اداکاری اہم ہوتی ہے لیکن یہ کردار کی نوعیت پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ کیسا ہے ،کون اداکار اس کردار کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے ۔کچھ کرداروں میں اچھی شکل وصورت اور شخصیت اہم ہوتی ہے لیکن عمر کے اس حصے میں آنے کے بعد جو کردار ہمیں آفر ہوتے ہیں، ان میں اچھا نظر آنا معنی نہیں رکھتا۔
س: ٹیلی ویژن پر آنے سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
ج: مجھے نہیں لگتا کہ پہلے کی اور اب کی زندگی میں کوئی فرق آیا ہے،ما سوائے اس کے اب لوگ پہچانتے ہیں کہیں باہر جائوں تو آکر ملتے ہیں ۔کام کو سراہتے ہیں۔ فرق نہ آنے کی ایک اہم وجہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ میں نے اب تک جتنے بھی کردار کیے ہیں ان میں منفی کردار کوئی نہیں تھا ،اس وجہ سے میرا ایک مثبت امیج عوام کی نظر میں قائم ہوگیا ہے ۔ہنستے ہوئے بولے اسی لیے آج بھی لوگ شریف آدمی سمجھتے ہیں۔
ایک بات یہ بھی ہے جن کے مزاج میں منفی پہلو نہیں ہوتا ان کو منفی کردار کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ۔اسی لیے میں سخت گیر کردار نہیں کرتا۔ ہمارے ڈراموں میں بہت کم کردار ایسے ہوتے ہیں جن میں ایکٹ کرنے کا مارجن زیادہ ہوتا ہے یعنی بناوٹ لانی پڑے ، ورنہ زیادہ تر نیچرل ہوتے ہیں۔ میں کردار میں بھی اسی طرح گفتگو کرتا ہوں جیسے اصل زندگی میں۔
ہمیشہ نیچرل اداکاری کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،مگر جن کرداروں کو مضبوط بنانے کے لیے ایکٹ کرنا پڑتا ہے وہاں کرتا بھی ہوں ۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ میں نے آج تک کسی سے کہہ کر کام نہیں لیا جو بھی کیا وہ آفر ہوا۔ جب آپ کچھ کرنے کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں تو آپ کو لوگوں سے کام کا کہنا پڑتا ہے، مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ،میں نے خود کو کبھی کچھ کر دکھانے کی دوڑ کا حصہ نہیں بنایا۔
س: اداکا ری کے رموز کہاں سے سیکھے ؟
ج: میں بہت سست آدمی ہوں ،جس کی وجہ سے کو ئی بھی کام سیکھ نہیں سکتا ،اسی لیے میں نے نہ موسیقی کے رموزکسی سے سیکھے نہ ہی اداکاری ۔جتنا کام آتا ہے اتنا کرلیتا ہوں۔ موسیقی کا شوق اس حد تک ہے کہ مجھے اس کے سارے رموز پتاہیں اور وہ سن سن کر سیکھے ہیں ،کیوںکہ میں نے موسیقی سنی بہت ہے۔ آپ کو شاید یہ بات سن کر حیرانی ہوگی کہ 1932 ء کے جو گانے تھے وہ مجھے آج تک یاد ہیں۔
میرے گھر میں موسیقی سننے کا رواج تھا ۔بچپن سےگھر میں موسیقی کا ماحول دیکھا تھا ۔پاکستانی نامور گلوکار مہدی حسن کو میں نے اپنے ایک بیٹے کو موسیقی سکھانے کا کہا تو انہوں نے مجھے سے کہا بیٹے کے بجائے آپ میری شاگردی میں آجائیں ،میں چھ مہینوں میں آپ کو بہترین گلوکار بنا دوں گا۔
ان کو یہ معلوم تھا کہ مجھے موسیقی کی سمجھ بوجھ ہےتو میں جلدی سیکھ لوں گا لیکن بدقسمتی سے میں نے ان کی آفر قبول نہیں کی۔اور بھی کئی لوگوں نے مجھے سیکھنے کی پیش کش کی ،نیرہ کو ریاض کرانےماسٹر گھر آتے تھے، انہوں نے مجھے ایک باجا لاکر دیا کہ آپ اسے بجانا سیکھ لیں وہ آج تک ایسے ہی رکھا ہوا ہے، کبھی اس کو بجانے کی کوشش نہیں کی۔
اگر دودن تک میں کلاسیکل میوزک سنوں تو تیسرے دن بالکل ویسی گالیتا ہوں یعنی میں نقل بہت اچھی کرلیتا ہوں ۔یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں جتنا اچھا گانا سن کر گا سکتا ہوں ،سیکھ کر اتنا نہیں گا سکتا ۔لہٰذاکوئی کام سیکھ کر کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے ۔سیکھنے سمجھنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔
س: آپ کےخیال میں اداکاری کیا ہے ،کردار کو سمجھنے اور بہتر بنانے میں خود کتنی محنت کرتے ہیں ؟
ج: میرے خیال میں اداکاری بہروپ بھرنے کا نام ہے۔بہت زیادہ محنت کرنے کا میں قائل نہیں ہوں ، اسی لیے کرداروں پر بھی زیادہ محنت نہیں کرتا ،البتہ مشاہدہ ضرور کرتا ہوں کہ کردار کیا ہے ،اس کو کس طرح کرنا پڑے گا۔
اس کو جاندار بنانے کے لیے کون سے عنصر شامل کرنے پڑیں گے ۔ میرا اس بات پر یقین ہے کہ ’’آپ محنت جتنی بھی کرلو، کامیابی آپ کو اتنی ہی ملے گی جتنی آپ کے نصیب میں ہے ،یہی وجہ ہے کہ میں حد سے زیادہ کسی بھی کام میں محنت نہیں کرتا ،مگر کام ہمیشہ دیانتداری سے کرتا ہوں ۔‘‘
س: کوئی ایسا کردار جس کوآپ کبھی نہیں کرنا چاہیں گے ؟
ج: جس میں تھپڑ مارنے والا سین ہو ۔نہ میں تھپڑ مارنے کے لیے راضی ہوتا ہوں اور نہ کھانے کے لیے ۔چاہے کردار کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو لیکن میں یہ کام نہیں کرتا۔ اندسٹری میں ،میں نے اپنے کچھ اصول بنائے ہوئے ہیں جن پر قائم رہتا ہوں۔ مثلاً چینلزوالے آپ کو صبح بُلاتے ہیں اور رات دیر تک شوٹنگ کرتے رہتے ہیں۔
اس کے خلاف میں نے فائٹ کی اور ان سے کہا میں دس گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کروں گا۔ میری اس کوشش سے یہ نتیجہ نکلا کہ اب یہ طے ہوچکا ہے کہ 10 بجے کے بعد کام نہیں ہوگا ۔لیکن نیرہ کے جانے کے بعد میں اس بات پرکبھی کبھی سمجھوتا کر بھی لیتا ہوں ،کیوںکہ اب زندگی جینے کا وہ مزا نہیں رہا۔بہر حال اُصول تو ہونےچاہیے۔
س: آج کل سبق آموز ڈرامے بہت کم بن رہے ہیں ،آپ کیا سمجھتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟
ج: اہم وجہ یہ ہے کہ اب ڈرامے کمرشلائز ہوگئے ہیں۔ اسی لیے نہ اب اخلاقیات پر زور دیا جاتا ہے اور نہ ہی تربیت پر توجہ دی جاتی ہے ۔کوئی ٹرینڈ چل جائے تو سب اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور جب تک پیسہ آتا رہتا ہے ٹرینڈ چلتا رہتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی اُس کو توڑنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔پی ٹی وی کے ڈرامے چند اقساط پر محیط ہوتے تھے ،مگر آج کے ڈرامے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ،بلاوجہ ڈراموں کو طول دیا جارہا ہوتا ہے۔
اس چیز نے معیار کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔کمرشلزم نے سب چیزوں کو برباد کردیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم پیسوں کے خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ہمارے پاس آج بھی بہترین ڈرامہ رائٹرز ہیں ،مگر کمرشلزم کی وجہ سے ہم اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے ۔لیکن مجھے آج بھی اُمید ہے کہ اگر کسی نے کوئی اچھا قدم اُٹھایا تو دنیا اُس کے پیچھے چل پڑے گی۔
س: آج کل فن کاروں کی شہرت کا اندازہ سوشل میڈیا پر ان کے فالوورز کو دیکھ کر لگایاجا تا ہے ،آپ اس بات کو کس طر ح دیکھتے ہیں ؟
ج: اب صحیح ،غلط ،سچ اور جھوٹ کا کرائٹریا نہیں رہا ۔لوگوں کی شہرت کا اندازہ لگانے کا معیار تبدیل ہو چکا ہے ۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں تو فن کار کو خود بھی نہیں معلوم کہ کس بات پر وہ کام یاب فن کاروں کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے اور کس بات پر فلاپ ۔کام یابی اور ناکامی کا پیمانہ یکسر بدل گیا ہے۔
ہمارے دور میں تو سوشل میڈیا کا نام ونشان بھی نہیں تھا تو فالورز کی دوڑ میں ہم کبھی شامل ہی نہیں ہوئے اور نہ اب ہونا چاہتا ہوں ،کیوں کہ ان تمام معاملات میں، اپنی طرف سے کوشش کرنے کا عادی نہیں ہوں ۔اس بات پر میرا ایمان ہے کہ ’’ہماری لاکھ کوشش کے باوجود وہی عزت ،شہرت اور دولت ملے گی جو نصیب میں لکھی ہے ،جو کچھ بھی ہونا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا ہے ۔‘‘
نیرہ نے نیشنل کالج آف آرٹس سے ٹیکسٹائل ڈیزائنگ پڑھی تھی لیکن اُس نے ایک مرتبہ بھی ایک لکیر تک نہیں کھینچی تھی ،حالاںکہ کالج میں ٹاپ کیا تھا، مگر نصیب میں اس شعبے میں کام کرنا نہیں تھا۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں ’’جب جو ہونا ہے تب سو ہوتا ہے۔‘‘
س: آپ کی بیوی (نیرہ نور) کا شمار پاکستا ن کی نامور گلوکارہ میں ہوتا تھا، گھر میں اداکاری اور گلوکاری سے متعلق گفتگو ہوتی ہوگی ،آپ دونوں ایک دوسرے کے کام کی تعریف کرتے تھے ؟بچّوں میں گلوکاری کے جراثیم ہیں ۔میرا مطلب ہے گانے کا شوق ہے ؟
ج: بالکل ہوتی تھی ذہنی ہم آہنگی اچھی ہونے کی وجہ سے ہم ہر موضوع پر بات کرتے تھے ۔اداکاری پر تو اتنی زیادہ بات نہیں ہوتی تھی ،کیوںکہ اس دور میں گھروں میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا تو کام دیکھا ہی نہیں جاتا تھا، البتہ گانوں پر بہت گفتگو کرتے تھے ،یوٹیوب پر ہمارے بہت سارے سولو گانے موجود ہیں ۔گلوکاری کے جراثیم دنوں بچّوں میں ہیں ایک بیٹے( جعفر زیدی ) کا ’’کاوش‘‘ کے نام سے اپنا بینڈ ہے ۔
س: شادی کے بار ے میں بتائیں ،پسند کی تھی یا ارینج ؟
ج: میری اور نیرہ کی گانوں میں پسند بالکل ایک جیسی تھی ،جو گانے اس کو اچھے لگتے تھے وہی مجھے اچھے لگتے تھے ۔ہم دنوں ایک ساتھ ایک خاص قسم کے گانے گاتے تھے ۔ایک جیسا شوق رکھنے کی وجہ سے ہماری ذہنی ہم آہنگی بہت اچھی ہو گئی تھی۔
اسی کی بدولت ہم شادی کے بند ھن میں بند گئے۔ نہ صرف گانے میں بلکہ ہر چیز میں ہماری ذہنی ہم آہنگی بہت اچھی تھی۔ اُس دور میں معین اخترایک پروگرام کرتے تھے ،جس میں میاں ،بیوی کو الگ الگ بیٹھا کر ذہنی ہم آہنگی چیک کی جاتی تھے ۔ایک دن اس میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا میری اور نیرہ کی ذہنی ہم آہنگی سو فی صد آئی ،جس پر معین بھی حیران ہوا ۔ہمارا مزاج بھی کافی حدتک ایک جیسا تھا ۔
س: نیرہ انتہائی سادہ خاتون تھیں ۔آج کے دور میں ایسے لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ آپ ان کی سادگی سے متاثر تھے یا گلوکاری سے ؟اُن کی کن باتوں کو یاد کرتے ہیں ؟
ج: نہ صرف سادگی بلکہ میں مجموعی طور پر اس سے متاثر تھا ،میں نےاس سے زندگی میں بہت کچھ سیکھا ۔اُس نے عزتِ نفس پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ،پیسوں کو کبھی تر جیح نہیں دی ۔کسی بھی معاملے میں کسی سے احسان لینے کے سخت خلاف تھی ۔کوئی بھی مُصیبت آئے ،کوئی بھی پریشانی ہو ۔وہ کبھی کسی سے نہیں کہتی تھی۔
نہ اس کو میک اپ کا شوق تھا اور نہ ہی زیورات کا ۔نیرہ کی شخصیت بے شمار خصوصیات کی حامل تھی ،میں چاہ کر بھی ان کو انگلیوں پر نہیں گن سکتا اور میڈیا میں ہونے کے باوجود اللہ نے اس کو بہت عزت سے نوازا تھا۔نیرہ جیسی خواتین بہت کم ہوتی ہیں۔
انتقال کو دو سال ہوگئے لیکن ان دو سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزارا جب میں نے اس کو یاد نہ کیا ہو، اس کی ایک ایک بات مجھے یاد آتی ہے۔ میرے اور اس کے درمیان میاں ،بیوی کے ساتھ ساتھ دوستی کا بہت گہرا رشتہ بھی تھا۔
س: بچّوں کی تربیت میں آپ کا کردار زیادہ تھا یا نیرہ کا ؟
ج: نیرہ کا کردار زیادہ تھا ۔میرا عمل دخل اتنا زیادہ نہیں تھا۔ دونوں بچّوں پر اسی کا رُعب تھا ۔اور دونوں ہی بہت تابعدار ہیں ،جس کا سہرا میں نیرہ کو دیتا ہوں۔
س: جھگڑے ہوتے تھے ۔اگر ہوتے تھے تو عموماً کس بات پر ہوتے تھے ؟منانے میں پہل کون کرتا تھا ؟
ج: ہماری شادی 49 سال رہی ،اس عر صے میں کبھی بھی ہماری درمیان بہت بڑا جھگڑا نہیں ہوا ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو عام گھریلو جھگڑے ہوتے ہیں ،وہی ہوتے تھے لیکن ہم نے کبھی بھی کسی جھگڑے کو طول نہیں دیا ،جو بات ہوتی تھی فوری ختم کردیتے تھے۔
کبھی وہ جھک جاتی تھی ،کبھی میں ۔لیکن زیادہ تر پہل میں کرتا تھا۔ جھگڑے نہ ہونے کی اہم وجہ یہ تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ہم دنوں نے ہمیشہ یہ بات یاد رکھی کہ ’’زندگی چار دن کی ہے، اسے لڑ کر گزارنے کا کیا فائدہ ،جو وقت آپ کے پاس ہے ، اس کو انجوائے کرنا چاہیے ۔‘‘