یہ کہانی ہے پارٹیشن سے نو دس سال پہلے کی ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ گجرانوالہ سے ایک شخص روزگار کی تلاش میں بیوی بچوں سمیت لاہور آیا اور اس وقت کے سب سے بڑے فلمی مرکز لاہور میں دل محمد روڈ پر کرائے کا مکان لیا اور محنت مزدوری شروع کر دی۔
اس کے کئی بچے تھے لیکن چھوٹی بیٹی سب بچوں سے مختلف تھی، جس کی عمر اس وقت بارہ سال تھی۔ اسے پڑھنے لکھنے کا کوئی شوق نہیں تھا ،سارا دن گلیوں، بازاروں میں گھومتی پھرتی رہتی ،اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی ۔حسن کی دولت سے مالا مال تھی لیکن آنکھیں غضب کی تھیں۔
ایک دن فلم ساز اور ہدایت کار، روپ کے شوری کی نظر گلی میں کھیلتی بچی پر پڑی تو وہ اسے چند منٹ دیکھتے ہی رہے،پھر مسلسل کئی دن تک اسے جانچا،انہیں اس میں ایسا کچھ نظر آ یا کہ خود ہی فیصلہ کر لیا کہ اس بچی کو اپنی فلم میں لوں گا۔ ایک دن اس بچی کا پیچھا کرتے کرتے اس کے گھر تک پہنچ گئے تو پتا چلا یہ تو میرے پڑوس میں رہتی ہے۔ اب روپ کےشوری کو اپنا مقصد پورا ہوتا نظر آنے لگا۔ اور پڑوسی ہونے کے ناطے بچی کے باپ سے تعلقات استوار کر لیئے۔
دونوں رات کو دیر تک گپ شپ کرتے، پھر ایک دن روپ کسوری نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا،مجھے تمہاری بچی میں ٹیلنٹ نظر آتا ہے،یہ فلموں میں نام کما سکتی ہے، اجازت دو تو اس کا اسکرین ٹیسٹ لے لوں، جواب انکار میں ملا ، اس وقت توروپ کشوری خاموش ہو گیا لیکن ہمت نہیں ہاری، گاہے بگاہے اسے سمجھاتا رہا کہ تمہارے دن بھی بد ل جائیں گے بس اپنے گھر والوں کو لے کر میرے ساتھ بمئی چلو ، میں تمہاری رہائش کا انتظام بھی کروں گا۔بالاخر برف پگھل گئی اور بچی کا باپ راضی ہو گیا۔ روپ کشوری کے ساتھ اپنی فیملی کو لے کرممبئی چلا گیا۔
اس وقت تک اس کے گھر والے بے خبر تھے کہ وہ کیوں ممبئی آے ہیں ۔چند دنوں بعد بچی کی فلمی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا تو وہ گھبرا گئی ، یہ کام بھی روپ کشوری کا تھا، اسے پاپڑ تو بہت بیلنے پڑے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ قارئین یہ بچی شمشاد عرف شاداں تھی۔ 1940 میں شاداں کے فلمی سفر کا آغاز پنجابی فلم دلا بھٹی سے ہوا، جس کی وہ ہیروئن اور ایم ڈی کنور ہیرو تھے۔
روپ کشوری نے شاداں کا فلمی نام راگنی رکھا ۔ فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی اور راگنی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ اِس فلم میں سترہ گیت تھے جِن میں سے کئی فلم کی ریلیز سے پہلے ہی مقبول ہوچکے تھے۔ فلم کا مقبول ترین گیت وہ تھا جِس میں راگنی ہیرو کی غُلیل سے کھیلتی اور اسے والہانہ پیار کرتے ہوئے گاتی ہے:
’بول بول نی گُلیلے میرے چن دِیئے‘
یہ گیت شروع ہوتے ہی ہال میں موجود لوگ جھومنے لگے۔ کئی لوگوں نے راگنی پر فلمائے ہوئے اس گیت کی خاطر بار بار یہ فلم دیکھی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد روپ کے۔ شوری نے راگنی کو فلم ’ہمت‘ میں کاسٹ کیا، جس میں موسیقی ماسٹر گوبند رام کی اور مکالمے عزیز کاشمیری نے لکھے تھے۔ فلم میں راگنی کے علاوہ دیگر اداکاروں میں، ظہور شاہ، کملا اور مجنوں کے علاوہ لاہور کے مشہور ایکٹر ماسٹر غلام قادر بھی شامل تھے۔’ہمت‘ کی شاندار کامیابی کے بعد راگنی نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ فلم کی موسیقی اُس وقت کے معروف ترین فلمی موسیقار غلام حیدر نے ترتیب دی تھی اور پلے بیک گلوکاری کےلئے امراؤ ضیا بیگم اور شمشاد بیگم تھیں۔ راگنی پر فلمایا ہوا ، شمشاد بیگم کا گایا ہوا گیت انتہائی مقبول ہوا:
اُچّی ماڑی تے دُدھ پئی رِڑکاں
مینوں سارے ٹبّر دیاں جھِڑکاں
راگنی کی تیسری کامیاب فلم ’میرا ماہی‘ تھی۔ یہ 1941 میں بنی ۔ فلم کی کہانی بی۔ آر چوپڑا اور ایم ۔آر۔ کپور نے مِل کرلکھی تھی۔ اس کے بعد راگنی کو پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا ۔1946 میں راگنی کو ایک نئے ہیرو کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ فلم کا نام تھا ’فرض‘ اور ہیرو تھے سدھیر ،جو بعد میں پاکستانی فلموں کےجنگجو ہیرو کہلائے۔ فلم کے ہدایتکار اے۔ آر کاردار اور مصنف کمال امروہی تھے۔
راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی نے ایسا جادو جگایا کہ ہر جانب فلم کا ڈنکا بجنے لگا۔ راگنی نے اس فلم کا معاوضہ پچاس ہزار لیا تھا۔ آج سے ساٹھ برس پہلے اس رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی ۔فلم کی کامیابی کے بعد جب ہدایتکار اے۔ آر۔ کاردار اپنی اگلی فلم کے لئے راگنی کے پاس گئے تو اُس نے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کردیا۔
کاردار نے یاد دلایا کہ میں نے تمہیں پنجاب کے محدود سرکٹ سے نکال کر سارے ہندوستان میں متعارف کرایا ہے، پہلے ہی تمہیں سب سے زیادہ معاوضہ دے رہا ہوں، اب اسے دوگنا مت کرو۔ اس پر راگنی کے والد نے جواب دیا ’آپ بزنس کر رہے ہیں کاردار صاحب، آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جب کسی چیز کی مانگ بڑھتی ہے تو اُس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
راگنی نے کئی ہندی اور پنجابی فلموں میں کام کیا، ان میں سہتی مراد (1941ء)، نشانی (1942ء) راوی پار (1942ء)، پونجی (1943ء)، داسی (1944ء) اور کیسے کہوں (1945ء)شامل ہیں۔ 1945ء میں جب اے آر کاردار نے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں راگنی کوکاسٹ کیا تو اس وقت تک وہ بھارتی فلموں کی مہنگی ترین اداکارہ بن چکی تھی۔
فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں ممتاز محل کا کردار اداکیا۔1945ء ہی میں راگنی نے فلم ’’شیریں فرہاد‘‘ میں شیریں کا کردار ادا کیا،جس سے اسے مزید شہرت ملی۔ فلم میں اداکار،جینت (زکریا خان) نے فرہاد کا کردار کیا تھا۔ جینت مشہور بھارتی اداکار امجد خان المعروف گبھر سنگھ کے والد تھے۔ 1946ء میں ریلیز ہونے والی کامیاب ترین فلموں میں ایس ایم یوسف کی فلم’’نیک پروین‘‘ بھی تھی۔ راگنی نےاس فلم میں اپنی اداکاری کے خوب جوہر دکھائے۔
پاکستان بننے کے بعد راگنی اہل خانہ کے ساتھ پاکستان واپس آگئی۔ لیکن فلمی سفر جاری رکھا۔ یہاں جن فلموں میں کام کیا ان میں ’’مندری‘ بے قرار‘ کندن‘ غلام‘ گمنام‘ بیداری‘ انارکلی‘ گہرا داغ‘ سیاں‘ تاج محل‘ سلطان‘ سیدھا رستہ،شرارے، نوکر، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ اُن کی معروف پاکستانی فلموں میں شمار ہوتی ہیں۔
راگنی نے بہت سی پنجابی فلموں میں بھی کریکٹر رول ادا کیئے ،جن میں شیر دی بچّی اور شیراں دی جوڑی بہت مقبول ہوئیں، لیکن پاکستان میں اُنکی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی کی اداکاری نے دِل آرام کے کردار کو لا فانی بنا دیا ، اگرچہ انارکلی کی کہانی مستقبل میں شاید ہزاروں بار فلمائی جائے گی لیکن انور کمال کی انارکلی میں راگنی کا کردار امر ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راگنی نے ہندوستان کی فلم شاہ جہان سے لے کر پاکستانی فلم انارکلی تک لا تعداد یادگار کردار ادا کئے لیکن 60 کی دہائی کے بعد ثانوی کردارملنے لگے۔
راگنی کی پہلی فلم،دلا بھٹی کے ہیرو ایم ڈی کنور تھے، انہوں نے راگنی کو جب پہلی بار دیکھا تو اس کے عشق میں مبتلا ہو گئے لیکن یہ یک طرفہ محبت تھی۔راگنی نے محبت کا جواب نفرت سے دیا۔اور 1940ء کی دہائی میں ہی محمد اسلم نامی شخص سے شادی کرلی لیکن یہ شادی زیادہ عرصےقائم نہ رہ سکی۔ دو بچے سائرہ اور عابدکی پیدائش کے بعدطلاق لے اور 1947ء میں پاکستان میں اداکار و فلمساز ایس گل سے دوسری شادی کی۔ ایس گل نے ہی راگنی کو اپنی فلم ’’بے قرار‘‘ میں اپنے مقابل کاسٹ کیا تھا۔ یہ شادی بھی زیادہ عرصے قائم نہ رہی۔
دیگر کئی فنکاروں کی طرح راگنی کی زندگی کے آخری ایام بھی کچھ اچھے نہیں گذرے۔
زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے اپنی اولاد پر بوجھ بننے کی بجائے لاہور کے ایک محلّے میں آخری ایام گوشہء تنہائی میں گزرے۔راگنی نے بیٹی کی شادی کراچی کے ایک معزز گھرانے میں کی ۔جبکہ اکلوتا بیٹا عابد اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ شفٹ ہوگیا۔
وہاں اس نے شادی کرلی۔ ایک بار راگنی اپنے بیٹے کے پاس امریکہ گئی ،مگر جلد ہی پاکستان واپس اگئی۔ عابد ایک بار ماں سے ملنے ایا تو اسے بتایا کہ ماں میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ چند دن بعد بیٹا واپس امریکہ چلا گیا اور جانے کے ایک ہفتے کے بعد راگنی کو اپنے بیٹے کی موت کی خبر ملی۔
لاہور میں فردوس مارکیٹ کے پچھواڑے جب میری (خاور نعیم)راگنی سے پہلی اور آخری ملاقات ہوئی تو اس وقت وہ اپنا گھر فروخت کر چکی تھی گھر خریدنے والا کوئی نیک دل انسان تھا ۔اس نے راگنی سے کہا ماں جی اپ بہت بیمار ہیں ،معذور بھی ہیں۔
جب تک زندہ ہیں اسی گھر میں رہیں اس کے کمرے میں ایک بیڈ ، ٹیبل جس پر دوائیاں رکھی تھیں اور دیوار پر مرحوم جواں سال خوبصورت بیٹے کی تصویر آویزاں تھی۔ اس ملاقات کے بعد میں نے راگنی پر ڈاکومنٹری بنائی جو جیو ٹی وی پر چلائی گئی ۔یہ 2004ء کی بات ہے۔