کچھ لوگوں کا اُوڑھنے، پہننےکا انداز، ان کو کسی شعبے میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور پھر وہ ان کی شناخت بن جاتی ہے، ایسا ہی ہوا پاکستان کی معروف اداکارہ، عذرا محی الدین کے ساتھ۔ اُن کے ساڑھی پہننے کے انداز نے ڈائر یکٹر یاسر نواز کو اپنے ڈرامے میں کاسٹ کرنے پر مجبور کردیا۔
ڈرامہ ’’میری ادھوری محبت ‘‘ سے انہوں نے شوبز کی دنیا میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور اس کے بعد وہ متعدد ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتی ہوئی نظر آئیں ،جن میں فاسق، رمز ِعشق، تو میرا چاند، ننھی ،بری عورت اور میری ذات ذّرہ بے نشاں شامل ہیں۔
ابتداء میں انہوں نے زیادہ تر منفی کردار ادا کیے، بعدازاں اچھی ساس اور ماں کے کردار بھی کیے۔ ان کا ایکٹینگ کیر ئیر کئی سالوں پرمحیط ہے، تا حال یہ سلسلہ جاری ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے چند سال ایک نجی چینل پر گلوکاری کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔80 میں آواز و تھیٹر کی دنیا کے بادشاہ، ضیاء محی الدین سے شادی ہوئی۔
گزشتہ دنوں ہم نے ’’عذرا محی الدین ‘‘ سے ان کے گھر پر ملاقات کی اوران کے کیرئیر کے حوالے سے گفتگو کی، اس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
س: سلسلہ ء گفتگو شروع کرنے سے پہلے ہمیں اپنے بارے میں بتائیں ۔یعنی خاندان ،تعلیم ،شادی وغیرہ ؟
ج: میرے والد آرمی میں تھے، چار بہنوں اور تین بھائیوں، میں سب سے چھوٹی ہوں۔ ابتدائی تعلیم مشنری اسکول سے حاصل کی ، گورنمنٹ کالج سے انٹر اور گریجویشن کیا، بعدازاں آرٹ کونسل سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کی ،بچپن سےآرٹ میں دل چسپی تھی ۔ میں نے مکالے میں جو ڈیزائن تیار کیے تھے، آرٹس کونسل میں ان کی نمائش تھی۔ اس میں مختلف ٹیکسٹائل انڈسٹریز سے لوگوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
انڈسٹریز کے لوگوں کو میرا کام اتنا پسند آیا کہ پاکستان ڈیزائن اینڈا نسٹی ٹیوٹ نے مجھے اسی دن پک اینڈ ڈارپ کے ساتھ 5 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کی جا ب آفر کی ،لیکن میں نے فوری طور پر انکا ر کردیا ،کیوں کہ مجھے پابندی سے کام کرنے کی عادت نہیں ہے ،میں9 سے 5 والی جاب نہیں کرسکتی۔ میرا روٹین پر چلنے کا مزاج ہی نہیں ہے، کسی بھی انسان کو اپنا مزاج سب سے زیادہ خود پسند ہوتا ہے۔
مجھے اس بات کا بہ خوبی اندازہ تھا کہ میں یہ جاب نہیں کرسکتی،حالاں کہ 1981 ء میں 5 ہزارکی بہت اہمیت تھی، اتنی تنخواہ ہونا بہت بڑی بات ہوتی تھی ۔ اس کے باوجود میں نے انکار کر دیا۔ گھر والے میرے انکار سے بہت ناراض ہوئے ۔بھائی نے امی سے کہا کہ ،’’آپ نے اس کو بگاڑدیا ہے۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹی ہونے کا میں نے بھر پور فائدہ اُٹھایا ہے، اپنی ہر بات منوائی ، اپنی پسند کا ہر کام کیا۔ ماں، باپ نےکسی قسم کی روک ٹوک یا پابندی نہیں لگائی۔
بچپن میں ٹم بوائے تھی، مجھے ہر کام کرنے کا شوق تھا ،چھوٹی عمر میں بڑے بھائی کی بائیک بھی چلائی۔ مجھے نوکری کرنا پسندنہیں تھا ،اسی لیے گھر میں ڈیزائننگ کا کام کرتی تھی، بلاک پرنٹس سے ٹیبل میٹس ،فلور کشنز اورد یگر گھر کی چیزیں بناتی۔ اسکارف اور دوپٹے بھی بناتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ بلاک پرٹنس کے سوٹ تیار کرنے والے ایک کارخانے میں کچھ وقت جا کر سوٹ تیار کرتی تھی ۔تقریباً12 سال میں نے یہ کام کیا۔
پابندی والی سوچ اور مزاج نہ ہونے کے سبب اس کام کو بھی چھوڑ دیا۔ اداکاری میں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دس یا پندرہ دن کی شوٹنگ ہوگی، بس اتنے دنوں تک مقررہ وقت پرجانا ہے ۔اسی لیے میں یہ کام باآسانی کرلیتی ہوں۔
س: اداکاری کا آغاز کب سے کیا ؟شوق بچپن سے تھا یا اتفاقیہ اس شعبے میں آئیں؟
ج: اداکاری کا شوق تو بچپن سے تھا لیکن اس شعبے میں آنا اتفاق سے ہوا۔ جب میں نے ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا تو میری شادی کو کافی عر صہ ہو چکا تھا، لوگ سمجھتے تھے کہ ضیاء محی الدین سے شادی ہوئی ہے تو میں اگلے ہی دن ڈراموں میں کام کرتی نظر آؤں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب سے پہلے مجھے ڈرامے میں کام کرنے کی آفر فاطمہ ثریا بجیا نے کی تھی ،ان کی بھا نجی اور پاکستانی فیشن ڈیزائنر’’ بنٹو کاظمی‘‘ سے میری دوستی ہے ۔ایک دن ان کے گھر سب جمع تھے ،بجیا بھی تھیں۔
انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا یہ لڑکی میرے ڈرامے کے لیے بالکل پر فیکٹ رہے گی، انہوں نے مجھے سے کہا پی ٹی وی سے میرا ڈرامہ ’’شمع ‘‘شروع ہونے والا ہے، میں اس میں بہ طور ہیروئن تمہیں کاسٹ کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے ان کویہ کہہ کر منع کردیا کہ مجھے گھر سے اجازت نہیں ملے گی۔ بجیا نے مجھے بہت فورس کیا کہ میں بات کرلیتی ہوں ، میں پھر بھی نہیں مانی اورشمع ڈرامے میں کام نہیں کیا۔ البتہ، شوق مجھے بہت تھا لیکن اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ گھر سے اجازت نہیں ملے گی۔
اسی طرح مجھے گانا گانے کا بہت شوق تھا ،مگر پتا تھا کہ بہ طور پروفیشن گانا گانے کی اجازت نہیں ملے گی ۔بہرحال ڈرامے میں کام کرنے کا اتفاق ایسے ہوا کہ میں بشریٰ انصاری کی بڑی بیٹی کی شادی میں گئی تھی ،بشریٰ انصاری سے مل کر آگے بڑھی تو پیچھے سے آواز آئی۔ سر !مجھےیہ خاتون اپنے ڈرامے کے لیے چاہیے۔ وہ آواز یاسر نواز کی تھی ،ان دنوں وہ اپنے ڈارمے ’’میری ادھوری محبت ‘‘ کے لیے کاسٹنگ کررہے تھے۔
میرے ساڑھی پہننے کے انداز نے انہیں مجھے ڈرامے میں کاسٹ کرنے پر مجبور کیا۔ اس ڈرامے کے پروجیکٹ ہیڈ بشری انصاری کے سابق شوہر اقبال انصاری تھے۔ یاسر نے اُن سے کہاں سر! یہ ہمارے ڈرامے کے لیے بیسٹ ہیں ،پھر بشریٰ نے ہمیں ملاوایا۔ میں نے یاسر سے کہا میں نے تو کبھی کیمرہ فیس نہیں کیا تو میں ڈرامے میں کام کیسے کرسکتی ہوں۔ یاسر نے کہا یہ آپ مجھے پر چھوڑ دیں۔ اس طرح میں نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھا اور وہاں سے ایکٹنگ کا سفر شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ تھیٹر میں بھی کام کرنے کاشوق تھا لیکن کبھی موقعہ نہیں ملا۔
س: اگر اداکارہ نہ ہوتیں تو کس شعبے میں کیرئیر بناتیں ؟
ج: شادی کے بعد میں لاہور چلی گئی اور وہاں 10 سال رہی۔ اس دوران میں نے لاہور میں 3 ،4 مرتبہ بلا ک پرنٹس کے کپڑوں کی نمائش منعقد کی۔ ویسے عام طور پر وہاں پر بلاک پرنٹس کا زیادہ فیشن نہیں تھا، لوگ بھی زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ شادی کے چھ سال بعد میری بیٹی پیدا ہوئی۔
اُس کے بعد میں نے یہ کام بھی چھوڑ دیا۔ اگر اداکاری میں نہیں آتی تو گلوکاری میں کیرئیر بناتی،حالاں کہ میں نے گلوکاری سیکھی نہیں ہے ۔لیکن شوق بہت تھا،کیوں کہ بچپن سے ہی گھر میں مشاعرے اور کلاسیکل میوزک کا ماحول دیکھا تھا۔ ادب سے تعلق رکھنے والے نامور شعراء اور آرٹسٹوں کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض میرے نانا کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔
س: آپ کے خیال میں اداکاری کیا ہے ؟
ج: اداکاری کسی بات کے اظہار کا نام ہے اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔اگر ہم ایک ڈائیلاگ یا کردار کو دو اداکاروں سے کرواتے ہیں تو ان میں سے جس کا ڈائیلاگ بولنے اور کردار کو نبھانے میں ایکسپریشن زیادہ اچھے ہوتے ہیں اسی کی اداکاری بہترین ہوتی ہے۔ چہرے کے تاثرات بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے پاس اداکاری کے تربیتی ادارے نہیں ہے، اس کے باوجود اداکار اور اداکارائیں بہت ہی بہترین اداکاری کررہے ہیں۔
س: اب تک آپ نے جتنے بھی کردار ادا کیے ان میں سب مشکل کردار کون سا تھا ؟
ج: میرے لیے منفی کردار کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے ،کیوں کہ وہ کردار آ پ کے مزاج سے بالکل مختلف ہوتا ہے تو ظاہر ہے آپ کو اس کو کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے اور وہ حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں ۔حالاں کہ مجھے چیلنجنگ کردار کرنے میں مزا آتا ہے ۔لیکن کسی کو تھپڑ مارنے والے سین کرنے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔ میں نے ابتداء میں بہت منفی کردار ادا کیے ،جس میں کافی چیخ کر بولنا پڑتا تھا اور اس وجہ سے میرا گلا خراب رہنے لگا تھا۔ اکثر ڈائریکٹرز مجھ سے کہتے ہیں’’آپ ڈانٹتی اچھا ہیں، غصہ اچھا کرتی ہیں ‘‘۔اسی لیے آپ کو منفی کردار آفر کرتے ہیں۔
بعدازاں میں نے اچھی ساس اور ماں کے کردار کیے۔ کچھ بری ساسوں کے کردار بھی کیے، عوام منفی کردار زیادہ پسند کرتے ہیں، کیوں کہ وہ ہائی لائٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ عوام کو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ایک مرتبہ ایک ڈائریکٹر نے مجھے نہیں بتایا کہ ڈرامے کی پہلی قسط میں بہو کو تھپڑ مارنا ہے ،حالاں کہ پہلے انہوں نے مجھے ڈرامے کی پوری کہانی سنائی تھی۔لیکن اس سین کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔
بہر حال کردارتھا،اس لیے تھپڑمارنا پڑا۔ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے ضروری نہیں ہے ہم وہ سب ڈراموں میں دکھائیں۔ ہم غلط چیزوں کو بڑھاوا کیوں دیتے ہیں۔ اس طرح کے سینز دکھا کر ہم لوگوں کو شہہ دے رہے ہوتے ہیں کہ پڑھے لکھے گھروں میں بھی ایسا ہوتا ہے ، لہٰذا آپ بھی کریں۔
میرا ایک ڈرامہ تھا، جس میں یہ دکھانا تھا کہ ہم بہو کو پڑھنے نہیں دیں گے، ڈرامے میں میرے ساتھ منظور قریشی تھے۔ ہم دونوں نے وہ سین کرنے سے انکار کردیا اور کہا، ہم کوئی ایسا سین نہیں کریں گے ،جس سے معاشرے میں کوئی غلط پیغام جائے۔
ڈرامے معاشرے میں بگاڑ اور سدھار کا بہت بڑا ذریعہ ہوتے ہیں ،ان سے معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ چینلز کو چاہیے کہ ایک پالیسی بنائی، جس میں یہ طے کیا جائے کہ ہم ڈراموں میں کوئی ایسے سینز نہیں دکھائیں گے، جس سے معاشرے میں غلط پیغام جائے یا غلط چیز پروان چڑھے، خیر جو کردار مزاج کے خلاف ہوتے ہیں، اُنہیں کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔
س: کردار کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرتی ہیں ؟
ج: میں نےاداکاری کی شروعات ماں کے کردار سے کی ، یہ کبھی نہیں کہاکہ میں ماں کا کردار نہیں کروں گی، مجھے کم عمر خاتون کا کردار دیں ۔ڈائریکٹر نے جو بھی کردار دیا، میں نے کیا۔ جیو کا ایک ڈرامہ تھا ’’فاسق ‘‘اس کے ڈائریکٹر سیلم گھانچی نے بتایا، چلتے ہوئے کس طرح ڈائیلاگز بولنے ہیں۔ ڈرامہ’’یہ کیسی محبت ‘‘ میں سنیئر اداکارہ سلمیٰ ظفر کےساتھ کام کیا تو اس دوران ان کو اندازہ ہو ا کہ میں اکثر اپنے ڈائیلاگز بھول جاتی ہوں۔
اسی لیے میں لائزیاد کرتی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ’’تمہیں سامنے والے کی لائنز یاد رکھنی ہے ‘‘۔ کردار کو بہتر بنانے کے لیے یہی کوشش کرتی ہوں کہ اپنے ڈائیلاگز کو اچھے طریقے سے ادا کروں، کیوں کہ آپ جتنے اچھے طریقے سے ڈائیلاگز بولیں گے، اداکاری اتنی ہی مضبوط ہوگی، جس طر ح کا کردار ہے اس طرح کا احساس اور تاثر پید اکرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
کردار کو بہتر بنانے کے لیےکچھ جگہوں پر خود سے جملے شامل کرتی ہوں۔ میں ڈائریکٹر سے یہ بات کہہ دیتی ہوں جہاں تبدیلی کی گنجائش ہو تو آپ مجھے بتا دیجئے گا، تا کہ اس میں اپناان پٹ ڈال سکوں۔
س: کوئی ایسا کردار جو آپ کی شخصیت سے قریب تر رہا ہو اور اس کو کرنے کے بعد آپ نے اپنے اندر کچھ بدلاؤ محسوس کیا ہو ؟
ج: ہنستے ہوئے گویا ہوئی ۔میرے یاد داشت بہت کمزور ہے، مجھے اپنے کردار اتنے زیادہ یاد نہیں رہتے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ابھی تک تو ایسا کوئی کردار نہیں کیا ،جس کو کرکے اپنے اندر بدلاؤ محسوس کیا ہو۔
س: آپ کے خیال میں اداکاری کے شعبے میں بری چیز کیا ہے؟
ج: بری چیز تو نہیں ہے، مگر منافقت بڑھ گئی ہے، جس کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرکے ہم اپنا امیج خراب کررہے ہیں۔ہماری غلط بات لوگوں پر برا تاثر ڈالتی ہے۔
س: آج کل کم وپیش ایک جیسے موزوں پر ڈرامے بن رہے ہیں، آپ کے خیال میں اس کی وجہ لکھنے والوں کی کمی ہے یا کچھ اور ؟
ج: ایک جیسے ڈرامے بننے کی وجہ ڈائریکشن کی کمز وری تو ہر گز نہیں ہے ۔وہ تو وہی ڈائریکٹ کرے گا جو اسکرپٹ میں لکھا ہوا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جو عوام کی ڈیمانڈ ہے ویسے ہی ڈرامے بنائےجارہے ہیں۔ میں اس بات سے اختلاف کرتی ہوں، کیوںکہ عوام کو کیا پتا کہ رائٹرز کیا لکھ رہے ہیں، دوسری بات یہ کہ انٹرٹینمنٹ کے لیے عوام کو کچھ نہ کچھ تو چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب عوام کسی بھی ڈرامے کو پسند کرتے ہیں تو رائٹرز کو لگتا ہے عوام اسی طرح کے ڈرامے دیکھنا چاہتے ہیں اسی لیے رائٹرز ایک ہی طرح کے ڈرامے لکھنے لگتے ہیں اور وہ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے۔
س: کردار کا انتخاب کرتے وقت کن عوامل کو مدنظر رکھتی ہیں ؟
ج: صرف ایک چیز دیکھتی ہوں ،وہ یہ کہ ’’اس کردار میں کوئی منفی پہلونہ ہو، جس سے معاشرے میں غلط پیغام جائے یا کوئی غلط کام ڈرامے میں دیکھ کر لوگ اپنا لیں تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ تھپڑ مارنے والی سینز نہ کروں۔
س: اپنے کام کو تنقیدی نظر سے دیکھتی ہیں ؟
ج: یہ بات سن کر آپ کو حیرانی ہوگی کہ میں نے آج تک اپنا ایک ڈرامہ بھی نہیں دیکھا، اس لیے تنقیدی نظر سے دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔سچ بتاؤں تو مجھے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ میں نے اب تک کون کون سے ڈرامے کیے ہیں۔
میرا ایک ڈرامہ تھا ’’بری عورت ‘‘جب وہ آئن ائیر ہوا تو ڈائریکٹر نے کہاکہ ’’اس کی پہلی قسط میں کچھ غلطیاں تھیں ‘‘ میں نے ان سے کہا اچھا ہوسکتا ہے ہوں، میں نے دیکھا نہیں ہے۔ میری یہ بات سن کر ان کو بہت غصہ آیا اور کہنے لگے ’’دیکھ لیا کریں اپنے ڈرامے ،تاکہ اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرسکیں ‘‘۔ اس کے باوجود میری عادت نہیں بدلی۔
س: کیامنفی کردار کیرئیر پر اثرانداز ہوتے ہیں؟
ج: ہر گز نہیں ،البتہ عوام ان کوناپسند کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے عوام اتنے معصوم ہیں کہ اگر کوئی اداکار یا اداکارہ زیادہ ترمنفی کردار کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مزاج ہی ایسا ہوگا جب ہی تو انہیں ایسے کردار کرنے کو ملتے ہیں۔
س: آپ کے شوہر کا شمار شوبز کی دنیا کے نامور لوگوں میں ہوتا تھا ،انہوںنےبے شمار کام کیے، کیا انہوں نے آپ کو آگے بڑھانے میں مدد کی ؟
ج: قہقہہ لگا کر گویا ہوئیں، شوہر کا شمار شوبز کی دنیا کے نامور لوگوں میں ضرور ہوتا تھا لیکن مجھے اس کا فائدہ کبھی بھی نہیں ہوا ۔ہم گھر میں بھی کبھی شوبز سے متعلق باتیں نہیں کرتے تھے۔ اُن کا میرے ڈرامےدیکھنا تو دور کی بات کبھی مجھ سے میرے ڈراموں پر بات تک نہیں کی۔ ہم گھر میں ایک عام میاں ،بیوی کی طرح ہی رہتے تھے۔
س: کیا شوہر سے اداکاری کے رموز سیکھیں؟
ج: باکل بھی نہیں !وہ ان باتوں میں دل چسپی نہیں لیتے تھے کہ میں کون سے ڈراموں میں کام کررہی ہوں۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ میں کس چینل کے ساتھ کام کررہی ہوں، کس چینل پر میرا ڈرامہ چل رہا ہے۔ ان باتوں سے ان کو کوئی سر وکار ہی نہیں تھا، ایک بات اور میرے خیال سے شوہر کا نامور ہونا کردار دلانے میں اہمیت نہیں رکھتا، اگر آپ کو اداکاری آتی ہے ،آپ اپنے کام میں ماہر ہیں تو آپ کو اچھے کردار ضرور آفر ہوں گے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ مجھے کسی نے ضیاء محی الدین کی بیوی ہونے کی وجہ سے کوئی کردارآفر کیا ہو۔
س: آپ کے خیال میں فن کارکب فلاپ ہوتا ہے ؟
ج: میرے خیال سے فن کار فلاپ توکبھی نہیں ہوتا۔البتہ،ہاںان کے ڈرامے اور فلمیں ضرور فلاپ ہوسکتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب فن کار اپنے حصے کا کا م کرچکا ہوتا ہے، یعنی ایک دور میں وہ ہیرو ہوتا ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اُسے سائیڈ رول مل رہے ہوتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ فلاپ ہوگیا ہے ، کوئی بھی فن کار مین اسٹریم پر ہمیشہ نہیں رہتا۔ فن کار کی صلاحیت میں کبھی کمی نہیں آتی۔
س: دیکھا گیا ہے ہمارے بیش تر فن کار جو اب ہم میں نہیں ہیں، آخری وقت میں مالی مسائل سے دوچار تھے، کیا اس پیشے میں مستقبل تاب ناک نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اداکار شوق پورا کریں ،پیشہ کسی دوسرے شعبے کو بنائیں؟
ج: میرے خیال میں بڑے بڑے چینلز ہیں ان کو چاہیے کہ اس پیشے میں جو لوگ ہیں ،جب وہ عمر کے ایک خاص حصے میں پہنچنے کے بعد کام کرنا چھوڑ دیں تو ان کے لیے پینشن کے طور پر ماہانہ ان کا ایک وظیفہ طے کردیں ،جس سے وہ اپنا گزارا کرتے رہیں۔ اس پر آرٹس کونسل کام کرتا ہے لیکن وہ بھی کتنا کرنے گا ،کیوں کہ فنکاروں کی تعدادبہت زیادہ ہے۔ ہمیں اس چیز پر سنجیدگی سے غور کرنے اور عمل در آمد کرنے کی ضرورت ہے۔
س: آج اور کل کے ڈراموں میں کیا واضح فرق نظر آتا ہے ؟
ج: واضح فرق تویہی ہے کہ پہلے کے زیادہ تر ڈرامےسبق آموز ہوتے تھے ،اب ایسا نہیں ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ عوام اتنی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے،اُن میں شعور کی کمی ہے۔ اگر ہم ڈراموں میں کوئی غلط چیز دکھائیں گے تووہ اس کو اپنا لیں گے ان کو یہی لگے گا یہ کام تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ ایسے میں سوچیں معاشرہ کہاں جائے گا۔
میرے خیال سے ہمیں زیادہ تر سبق آموز ڈرامے بنانے چاہیے ،تاکہ لوگ اس سے سیکھیں ۔ ڈراموں میں چیک اینڈ بیلنس کی اشد ضرورت ہے ،ایسا نہیں ہے کہ اب اچھے ڈرامے نہیں بن رہے ہیں لیکن اب اگرسال میں 10 ڈرامے بنتے ہیں تو ان میں سے چند ہی مقبول ہوتے ہیں۔
س: شادی کے بارے میں بتائیں ،شادی کیسے ہوئی پسند کی تھی یا ارینج ؟
ج: شادی اس طرح ہوئی کہ میری دوست اورمعروف گلوکارہ ٹینا ثانی کے گھر ایک پروگرام تھا ، ضیا محی الدین بھی مدعو تھے۔ وہاں سے واپسی پر ضیاء نے مجھے گھر ڈراپ کیا۔ اس دوران ہماری تھوڑی بہت بات چیت ہوئی ۔اگلے دن ضیاء میرے بارے میں مزید جاننے کے لیے ٹینا ثانی کے گھر گئے۔ بعدازاں انہوں نے مجھے فون پر شادی کیلئے پرپوز کیا۔
عمر میں کافی فرق ہونے کی وجہ سے میرے گھر والے اس شادی کے لیے تیار نہیں تھے ،پھر ان کی پہلے بھی دو شادیاں ہو چکی تھیں اور بچے بھی تھے۔ لیکن میں ضیاء سے شادی کرنا چاہتی تھی، سو میں نے اپنے بڑے بھائی سے بات کی انہوں نے گھر والوں کو راضی کیا۔ ہماری شادی ہوگئی۔ ضیاء محی الدین سے شادی کرنے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ’’مجھے روایتی شوہر پسند نہیں، ہمیشہ سے ایک ایسےساتھی کی تلاش تھی، جس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہو اور دوستی والا رشتہ قائم کرسکوں۔‘‘
ضیاء میں مجھے یہ چیز نظر آئی، اسی لیے میں نےان کی شادی کی پیشکش قبول کرلی اور 1994 ء میں ہماری شادی ہوئی، شادی کے چھ سال بعد ہماری بیٹی پیدا ہوئی۔ وہ بیرون ِملک تعلیم حاصل کررہی ہے۔ اب ضیاء تو دنیا سے چلے گئے ۔بیٹی کی ذمے داری میرے کاندھوں پر ہے، پوری کروں گی ۔یہیں ہماری گفتگو اختتام کو پہنچی۔