اولاد کی تعلیم و تربیت

January 27, 2023

مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

دین اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، جس نے اولاد، والدین، بڑوں، چھوٹوں، پڑوسیوں، مسلمانوں، حتیٰ کہ جانوروں تک کے حقوق وفرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں واضح تعلیمات اور ہدایات دی ہیں۔ اگر ایک مسلمان صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو قلب وقالب دونوں کی اصلاح ہوجائے گی، آخرت سے پہلے اس کی دنیوی زندگی بھی جنت کا نمونہ ثابت ہوگی۔ اس کی جان، مال، عزت و آبرو ہر چیز محفوظ ہوجائے گی۔اس کے دل کو سکون نصیب ہوگا۔

اس کا دماغ وسوسوں،توہمات اور دنیوی تفکرات سے راحت پائے گا۔ مخلوق خدا کی محبت اس کے دل میں جگہ پالے گی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر اسے رحم آئے گا۔ مسلمانوں کی تکالیف، پریشانیوں اور ان پر مظالم سے اس کا دل دکھے گا۔ وہ ان کی تکلیفوں، پریشانیوں اور مصائب وآلام کو دور کرنے کی ہر ممکن سعی کرے گا۔

لیکن ہائے افسوس! مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دیا ، مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار بنالیا ، جس کی نحوست سے آج کا مسلم معاشرہ گناہ ومعصیت ، فسق وفجور ، بے حیائی وبے حجابی ، حیوانیت وبہیمیت کے گرداب میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ آج کا مسلمان نفس پرستی، تعیش پسندی ، اور خواہش براری کے لئے اسلامی حدود کو پامال کررہا ہے۔ اخلاق وآداب ، تہذیب وتمدن ، تعلیم وتربیت اور سیاست ومعاشرت جیسے شعبوں میں اپنے نبی کریم ﷺکی اتباع اور پیروی کو چھوڑ کر بے دین، بے ہدایت اور بے خدا قوموں کی نقالی کو اپنے لئے سرمایۂ افتخار اور ان کے طور طریقوں اور عادات و اطوار کے اپنانے کو اپنے لئے اعزاز سمجھ رہا ہے۔

خود غرض اور خود پسند مسلمانوں کی اکثریت کے دل میں اللہ کا خوف ہے نہ آخرت کا ڈر ہے ۔ نہ جنت کی تمنا اور طلب ہے ، نہ اس کی جستجواور کوشش ہے ۔ہر طرف ظلم وقساوت کا دور دورہ ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تقلید وپیروی اور تہذیب وتمدن کا غلبہ مسلمانوں پر مسلط ہوچکا ہے اور بالکل وہی صورت حال ہے جس کی نشاندہی نبی مکرم، فخرِ مجسم، ہادیِ امم ﷺ نے سوا چودہ سو سال پہلے فرمادی تھی کہ :’’تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ہُوبہُو پیروی کرو گے، یہاں تک کہ ان میں سے کوئی اگر گوہ کے بَل میں داخل ہوگا تو تم بھی ہوگے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یہود ونصاریٰ (مراد ہیں)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اور کون (مراد ہوسکتا ہے) (متفق علیہ، مشکوٰۃ،ص:۴۵۸)

اسلام نے تعلیم دی ہے کہ ایک مسلمان کی جب اولاد ہو تو اس کا اچھے سے اچھا نام رکھے۔ تعلیم وتادیب کے قابل ہوتو اسے بہتر سے بہتر تعلیم اور اسے اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرے۔ شادی کے قابل ہو تو ایسے خاندان میں اس کا رشتہ تجویز کرے جو دینی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے فائق ہو۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:’’تم میں سے جس کی ان لڑکیوں سے آزمائش کی جائے اور وہ ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے تو وہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے پردہ (بچاؤ کا ذریعہ) ہوں گی ‘‘۔(متفق علیہ،مشکوٰۃ،ص:۴۲۱)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے دو بچیوں کی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گے اور پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلیاں ملالیں ‘‘۔(مشکوٰۃ،ص:۴۲۱)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے تین بیٹیوں یا ان کی طرح (یعنی تین) بہنوں کی پرورش کی ، پھر انہیں ادب سکھایااور ان پر شفقت کی، یہاں تک کہ اللہ اُنہیں (شادی، مال یا موت کے ذریعہ)غنی کردے توایسے آدمی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت کو واجب کردیا۔ ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہﷺ! اگر دوہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دو بھی ہوں(یعنی تب بھی یہی بشارت ہے)‘‘۔(مشکوٰۃ ،ص:۴۲۳)

حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی اپنے بچے کو ادب سکھائے، یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایک صاع صدقہ کرے‘‘۔ (مشکوٰۃ، ص:۴۲۳)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے پاس ایسے لوگ رشتہ بھیجیں جن کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو ان کا نکاح کردو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت زیادہ فساد برپا ہوگا‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص:۴۲۴)

اولاد کے جوان ہونے کے بعد ان کی شادی میں تاخیر نہ کریں، کیونکہ شادی میں تاخیر بھی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں غلط راستہ اختیار کرنے کی تحریک پیدا کرتی ہے اور پھر اس کا گناہ اور وبال اُن کے باپ پر ہوتا ہے، جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:’’جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہو تو وہ اس کا اچھا سانام رکھے ،اس کی اچھی تربیت کرے اور وہ جب بالغ ہوجائے تواس کی شادی کردے، پس اگر بالغ ہونے کے بعد اس نے شادی نہیں کی اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی)

ہم نے ان تعلیمات کو چھوڑ کر اپنی اولاد کو صرف اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل کرایا‘ جہاں لارڈ میکالے کا نصاب پڑھایا جاتا ہے، جہاں اسلامی عقائد پر کاری ضرب لگائی جاتی ہے، جہاں دین سے نفرت وبےزاری اور اسلام کی ہر بات میں تشکیک وتذبذب کا درس دیا جاتا ہے۔ ان تعلیم گاہوں میں مسلم نوجوانوں اور خواتین کی صورت وسیرت، وضع وقطع، اخلاق و معاشرت ، تہذیب و ثقافت کے تمام زاویئے ہی بدل کر رکھ دیئے گئے اور مادیت کا اتنا درس دیا گیا کہ آج کا نوجوان اپنے ملک کے بجائے اغیار کے ممالک میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے اور ایک مسلمان کے لئے اس وقت مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں، جب اس کی اولاد جوان ہوجاتی ہے اور وہ اس تہذیب میں ڈھلنے لگتی ہے جسے اس کے والدین نے پسند کیا تھا۔ اب ایسا مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میں نے یہاں آکر دنیا تو کمالی ، لیکن اپنی اولاد کی عزت وناموس اور شرم وحیا کو داؤ پر لگادیا۔

نیک اولاد دین ودنیا کا بہترین سرمایہ اور آخرت کا بیش قیمت ذخیرہ ہے۔ اگر ان کی تعلیم وتربیت سے غفلت برتی گئی یا ان کی پرورش غلط بنیادوں پر کی گئی تو اولاد نہ صرف یہ کہ والدین کے لئے تباہی وبربادی کا سبب بنے گی، بلکہ ملک وقوم اور دین ومذہب کو بھی رسوا کرے گی۔ اس لئے شریعت مقدسہ نے اولاد کی اخلاقی ،مذہبی، دینی، ہمہ قسم کی تعلیم وتربیت کا صحیح اور اعلیٰ انتظام کرنا ماں باپ کی ذمہ داری قرار دیا ہے اور ہر صاحب خانہ پر اپنی اولاد کی دینی تربیت اور اچھے اخلاق سکھانے کا فرض عائد کیا ہے، اس لئے کہ پچپن میں جس قسم کی تربیت ہوجاتی ہے، بڑا ہوکر آدمی اسی پر قائم رہتا ہے اور جو شخص جس روش اور عادت پر جوان ہوتا ہے ،اسی روش اور عادت پر بڑھاپے تک قائم رہتا ہے۔ اگر اولاد کو پچپن میں ہی غلط ماحول ، غلط سوسائٹی اور غلط راستے پر ڈال دیاگیا تو جوان ہوکر بھی وہ اُسی غلط راستے اور غلط روش کا انتخاب کرے گی۔اب اسے راہ راست پر لانا نہایت کوشش کے باوجود دشوار ہوگا اور سوائے تباہی وبربادی کے ان سے کسی خیر کی توقع اور امید رکھنا عبث ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اولاد کی اچھی تربیت کو بہترین عطیۂ الٰہی فرمایا ہے۔

خلاصہ یہ کہ مسلمان کو بالعموم اور دیارِ غیر میں رہنے والے مسلم حضرات بالخصوص نوجوان بچوں کو صاف ستھرا اور پاکیزہ ماحول فراہم کریں۔اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ اور قریب تر کرنے کے لئے حد درجہ محنت اور کوشش کریں۔ سیرتِ نبوی ؐ، اسلامی تاریخ ، صحابہ کرامؓکے واقعات، بزرگانِ دین کے قصے اور مفید ناصحانہ ملفوظات پر مشتمل کتب کا خود بھی مطالعہ کریں اور بچوں کو بھی ایسی کتب پڑھنے کی ترغیب اور تدبیر کریں۔ ان شاء اللہ! جس اولاد کی تربیت اس انداز پر ہوگی تو وہ والدین کی زندگی میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور مرنے کے بعد ان کی حسنات میں اضافے کاسبب بنے گی۔

نعتِ رسولِ مقبولﷺ

جمال احمد جمال

کرتے ہیں کرم دیکھئے سرکار کہاں تک

ہوتے ہیں عیاں عشق کے اسرار کہاں تک

وہ بے بس و مجبور کے ہوتے ہیں طرفدار

اس بات پہ ہم رہتے ہیں بیدار کہاں تک

مایوس نہیں ہم درِآقا سے کبھی بھی

پاتے ہیں شفا اے دل بیمار کہاں تک

پھرتے ہیں مدینے میں ابھی بے سرو ساماں

ہم دیکھیں یہ حائل در و دیوار کہاں تک

وہ معتبرِ وقتِ ازل بھی ہیں ابد بھی

ان سے ہے مگر عشق کا اظہار کہاں تک

توصیف حقیقت جو بیاں کی ہے خدا نے

اس سے ہے عیاںآپؐ کا دیدارکہاں تک

ہے عشق کی تابش یہ سدا دل میں فروزاں

روشن ہے جمال ان کا یہ انوار کہاں تک