موسمِ سرما میں عبادت و بندگی اور اُس پر اجر و ثواب کی نوید

January 27, 2023

حمزہ ظفر

کائنات کا وجود، اور اس میں ہونے والے تغیرات، جیسے مینھ برسنا، آندھیوں کا آنا، کہیں چلچلاتی دھوپ، اور کبھی دھوپ میں ہی بارش کا ہونا، ایسے ہی دریاؤں کا سوکھنا، آتش فشاؤں کا پھٹنا، دن رات کی آنکھ مچولی، ماہ وسال کا گزرنا اور اس کے بدلتے اثرات، یہ سب اللہ جل شانہ کے وجود اور اس کی عظمت پر دالت کرتے ہیں، کہ کوئی ہے جوان انتظامات کو سنبھا ل رہا ہے، اور کوئی ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام چیزوں کی ڈور ہے، تب ہی تو سمندر کی حدود قائم ہیں، اور وہ اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتا، سورج روزانہ نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے، لیکن کبھی مغرب سے طلوع نہیں ہوا، بادل پانی ہی برساتا ، آگ جلاتی ہی ہے، یہ تمام چیزیں اللہ رب العزت کے حکم کی محتاج ہیں، اور اسی کے فیصلے پر کاربند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا :" اور ہم نے ہر چیز کو ناپ تول کے ساتھ پیدا کیا ہے"۔((سورۃ القمر:49۔آسان ترجمہ قرآن)

اور ایک جگہ ان تمام چیزوں کی تخلیق اور ان کے مسخّر ہونے میں غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شک، آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کےلیے بڑی نشانیاں ہیں۔(سورۂ آل عمران:190)ایسے ہی موسموں کا بدلنا بھی اللہ تباک وتعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے۔

سردی کا وجود:۔ سردی کے وجود کے پیچھے بھی اللہ جل شانہ کی ایک حکمت پنہاں ہے، اور ایک نظام اس کے پیچھے کار فرما ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جہنم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے میرے پروردگار! میرا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے، لہٰذا مجھے سانس لینے کی اجازت عنایت فرما،اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی،ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں، تم لوگ جوسردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو، وہ جہنم کے(ٹھنڈا) سانس لینے کی وجہ سے ہے اورجو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ جہنم کے(گرم) سانس لینے کی وجہ سے ہے۔

موسم سرما ، مومن کےلیے بہار: موسم سرما بےشک خشکی سے بھر پور موسم ہے، لیکن مومن کےلیےیہ بہار کا کام کرتا ہے،جس طرح بہار میں ڈھیروں پھول کھلتے ہیں، اور ہر طرف ہرے بھرے پیڑوں کی دلکشی ورعنائی انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اسی طرح سردیوں میں اعمال صالحہ پر بہ کثرت قادر ہونا، ان پر اجر کا بڑھ جانا، اس کی دیگر فضیلتیں مومن کو وہی مزا اور فائدہ پہنچاتی ہیں ، جیسا لطف انسان بہار کے موسم میں اٹھاتا ہے، وہ نیکیوں کے باغات میں خوب چرتا ہے، اور اعمال صالحہ کے میدانوں میں خوب دوڑیں لگاتا ہے، چنانچہ ابو سعید خدری ؓ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : سردی کا موسم مومن کےلیے بہار ہے، سردیوں کا دن چھوٹا ہوتاہے، چناںچہ وہ اس میں روزہ رکھتا ہے، اور رات لمبی ہوتی ہے، چنانچہ وہ اس میں قیام کرتا ہے۔

ایسے ہی حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں "سردی کا موسم عبادت کرنے والو ں کےلیے غنیمت کا موسم ہے"۔ نیز مشہور تابعی عبید بن عمیر لیثی ؒ جب سردی کا موسم آتا تو فرماتے:"اے اہلِ قرآن! تمہاری نمازوںکےلیے راتیں لمبی ہوگئی ہیں، اور تمہارے روزے رکھنے کےلیے دن چھوٹے ہوگئے ہیں، لہٰذا اسے غنیمت جانو۔

ایسے ہی موسم سرما میں بوجہ مشقت مختلف اعمال کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے، اور ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ ڈھیروں اجر عنایت فرماتا ہے۔ چناںچہ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے "کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ گناہ معاف کردے اور درجات بلند کردے؟صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا : یارسول اللہﷺ! ضرور بتائیے! آپ ﷺ نے اِرشاد فرمایا: (سردی وغیرہ کی) مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مساجد کی طرف کثرت سے قدم بڑھا نا، پس یہی رباط (یعنی اپنے نفس کو اللہ کی اِطاعت میں روکنا) ہے"۔

سردی کی شدت کی وجہ سےاکثر نرم گرم بستر کوچھوڑ کر اٹھ کر وضو کرنا اورمسجد جانا ایک شاق امر ہے، اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اسے گناہوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب بتایا ہے۔ معلوم ہوا کہ سردی کا موسم کثرت کے ساتھ عبادات کرنے کےلیے ایک بہترین موقعہ ہے۔

موسم سرما اور تعلیماتِ نبویؐ:۔ اسلام کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے معتقدین کو زندگی گزارنے کے تمام احسن طریقے سکھائے ہیں، کوئی بھی شخص اسلام کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں معاملے میں ہم اسلام کو رہنما نہیں پاتے، بلکہ دنیوی واخروی، داخلی و خارجی تمام چیزوں کے متعلق اسلام ہمیں تعلیمات سے روشناس کراتا ہے۔ موسم سرما بھی ان تعلیمات سے خالی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ،نیز خلفائے اربعہ اور اسلاف امت نے اس موسم میں بھی احکام الٰہی کی طرف توجہ دلائی ہے۔

چنانچہ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ تمام موسم، ان میں آنے والے حالات، اور ان کا انسانی زندگی پر اثر یہ سب اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہے، کسی موسم کی اپنی کوئی خوبی نہیں کہ اس کے آتے ہی راحتیں میسر ہوجائیں، اور کسی موسم کی خود کارستانی نہیں کہ اس کے دوران صعوبتیں پیدا ہوجائیں، یہ سب محض ارادہ خداوندی سے ہے، اس لئے سردی ہو یا گرمی ہمیں موسم یا زمانے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ، نبی کریم ﷺ کا ایک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ جل شانہ فرماتے ہیں: "بنی آدم زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، جبکہ میں زمانہ ہوں، رات دن کا پلٹنا میرے ہاتھ میں ہے"۔

اسی طرح موسم سرما میں ہونے والے موسمی بخارکی وجہ سے کئی لوگ بیمار ہوجاتے ہیں، اور نادانی میں بیماریوں کو بھی کوسنے لگ جاتے ہیں ،جب کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے ، چنانچہ آپ ﷺ نے ام سائب ؓ کو بخار کو برا کہنے سے منع فرمایا، اور اس کی وجہ بھی بتائی کہ یہ گناہوں کو ایسے دور کرتا ہے،جیسے بھٹی لوہے سے زنگ کو دور کرتی ہے۔

اعمال صالحہ: موسم سرما میں نبی کریم ﷺ نے کثرت سے اعمال صالحہ کرنے کی ترغیب دی ہے، نیز موسم سرما اعمال صالحہ کی ادائیگی کے لیے اور قضاء روزوں کےلیے ایک بہترین سہولت ہے، جس میں کم مشقت برداشت کرتے ہوئے انسان اجر عظیم کا مستحق بن سکتا ہے۔ چناںچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سردیوں میں روزہ رکھنا ٹھنڈی غنیمت ہے"۔

نادار اور مفلس لوگوں کے ساتھ ہمدردی: اخوت ، ایثاراور ہمدردی یہ ایسے جذبے ہیں جو اسلام نے ہی متعارف کروائے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی جیسی ترغیب اسلام دیتا ہے، اور کوئی نہیں دیتا۔ بھائی چارگی، صلہ رحمی، رحم دلی، اسلام کی اہم تعلیمات ہیں، جن میں اسلام صرف مسلمانوں کو ہی خاص نہیں کرتا، بلکہ غیر مسلموں حتیٰ کہ چوپایوں تک کو اس میں شامل کرتا ہے۔ ایسے ہی سردی کے موسم میں بعض غریب افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لیے گرم لباس کا انتظام نہیں کرتے، نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو ایسے نادار اور مفلس لوگوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:" جو کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کپڑا پہنائےگا،اللہ رب العزت اسے جنت کا لباس پہنائیں گے"۔

سردی کی شدت سے پناہ: ہر چیز میں خیر و شر دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے ہر چیز میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے خیر و عافیت طلب کی ہے، جبکہ اس چیز کے شر سے پناہ مانگی ہے۔ ایسے ہی سردی کے شر سے بھی نبی کریم ﷺ نے پناہ چاہی ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید خدریؓ وحضرت ابو ہریرہؓ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: " اگر سخت سردی کا دن ہو، اور اس وقت کوئی بندہ یہ دعا (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَا أَشَدَّ بَرْدَ هَذَا الْيَوْمِ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِی مِنْ زَمْهَرِيرِ جَهَنَّمَ) پڑھے ،تو اللہ جل شانہ جہنم سے ارشاد فرماتے ہیں: "میرے بندے نے تیرے زمہریر نامی علاقے سے پناہ مانگی ہے، اور میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے پناہ دی"۔

موسم سرما میں شرعی سہولتیں:قانون الٰہی ہے کہ ہر تنگی آسانی لیے پھرتی ہے، ایسے ہی فقہاء کے یہاں ایک اصول متعارف ہے کہ "المشقۃ تجلب التیسیر" کہ مشقت آسانی کو کھینچتی ہے۔ لہٰذا جہاں موسم سرما چند سختیوں کو اپنے دامن میں لیے پھرتا ہے ، وہیں ڈھیروں راحتیں بھی یہ اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ شریعت نے جاڑے کے اس موسم میں پیش آنے والی پریشانیوں اور مشقتوں کا علاج بھی بعض سہولتوں کی صورت میں دیا ہے، جس میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

گرم پانی کا استعمال: سردیوں میں پانی ٹھنڈا ہوتا ہے، جو جسم انسانی کو بیمار کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کرتا ہے، لیکن شریعت مطہرہ نے سردی کی حالت میں ٹھنڈے پانی کے استعمال کرنے کو لازم نہیں قرار دیا، بلکہ گرم پانی استعمال کرنےکی بھی سہولت دی۔ تاہم گرم پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں ٹھنڈے پانی کے استعمال کرنے پر بیش بہا فضائل بھی بیان کیے۔ ایک روایت میں سردی کی حالت میں اعضائے وضو کو مکمل دھونا، اور وضو اچھی طرح کرنے کو گناہوں کو مٹانے کا ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔

تیمم کرنا: یہ بھی شرعی سہولیات میں سے ہے کہ سخت سردی کی حالت میں اگر گرم پانی دستیاب نہ ہو، اور ٹھنڈے پانی کے استعمال سے مرض کے بڑھنے یا جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تیمم کر کے پاکی حاصل کی جائے۔ غزوہ ذات السلاسل میں سخت سردی کی حالت میں حضرت عمرو بن عاص ؓ نےرخصت پر عمل کرتے ہوئے ایسے ہی تیمم کر کے نماز پڑھائی۔ نبی کریم ﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ مسکرانے لگے، اور کچھ بھی نہ فرمایا۔ (جاری ہے)