ریاستی رٹ اور ملکی سیاست !

March 22, 2023

ایسے وقت میں جب ملک انارکی ، انتشار اور طوائف الملوکی جیسی افسوسناک صورتحال سے دوچار ہے، حکومت کی اتحادی پارٹیوں کے طویل اجلاس میں افراتفری، فساد اور بغاوت کو ہوا دینے والے شورش پسند عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے پر اتفاق رائے ہوا ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف وزیر داخلہ کو قانونی کارروائی کی ہدایت کی ہے۔اجلاس کے پہلے سیشن میں جو تین گھنٹے جاری رہا صرف سیاسی پارٹیوں کے قائدین شریک ہوئے۔ اس میں ملک کی سیاسی صورتحال پر مشاورت ہوئی اور شرکا نے اس حوالے سے اپنے خدشات اور تحفظات کا کھل کر اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن پارٹی اور اس کے لیڈر کے طرز سیاست پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ وہ ریاستی اداروں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کو کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کا جتھہ قرار دیا گیا اور لاہور اور اسلام آباد کے پر تشدد واقعات کے حوالے دے کر شرپسندی سے باز نہ آنے والوں کے خلاف سکیورٹی اداروں کو فری ہینڈ دینے اور پارٹی پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی گئی۔اجلاس کے دوسرے سیشن میں جو تقریباً ساڑھے تین گھنٹے جاری رہا آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سکیورٹی حکام بھی شریک ہوئے اور اس میں امن و امان کی صورتحال زیر غور آئی۔ میڈیا ونگ کے بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں پہلی بار میرٹ پر منتخب ہونے والے آرمی چیف کے خلاف مہم ناقابل برداشت ہے اور یہ دشمنوں کا ایجنڈا ہی ہو سکتا ہے۔ اجلاس میں 22مارچ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا جس میں ریاست کی رٹ بحال کرنے کیلئے فیصلہ کن اقدامات کی منظوری لی جائےگی۔ ذرائع کے مطابق سول و ملٹری قیادت میں اس امر پر اتفاق رائے پایا گیا کہ ملک میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہونے چاہئیں۔ اتحادی جماعتوں نے بعض عدالتی فیصلوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور عدلیہ کے کردار پر نظرثانی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے تو پی ٹی آئی کا لیڈر اس سے بالاتر کیوں؟۔ حکومتی اتحادیوں کے اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں ملکی صورتحال کے بارے میں حکومتی نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ ارباب اقتدار سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے فکر مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ حالات جمہوری طور طریقوں سے معمول پر آ جائیں مگر اس کیلئے اپوزیشن کی مثبت سوچ بھی ضروری ہے۔ حصول اقتدار کیلئے اداروں پر حملے، پولیس، رینجرز حتیٰ کہ فوج کو بھی تضحیک کا نشانہ بنانا قومی وقار اور یک جہتی کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ محض اس مفروضے کے سہارے کہ پوری قوم میرے ساتھ ہے اور میں اس کی طاقت کے بل پر سب کو زیر کر سکتا ہوں، محض خام خیالی ہے۔ یہ جمہوریت کی روح کے بھی سراسر خلاف ہے۔ جمہوریت اجتماعیت کا تقاضا کرتی ہے یعنی سب کو مل جل کر اتفاق رائے سے ملک و قوم کے بارے میں فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس کے برخلاف اٹھایا گیا کوئی بھی قدم انارکی اور لاقانونیت کا سبب بنے گا۔ ملک کی موجودہ صورتحال عوام کی اکثریت کیلئے ناقابل قبول ہے۔ اس لئے اس سے پہلے کہ خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہو جائے ۔ ارباب اقتدار، بالخصوص اپوزیشن کے رہنمائوں کو عقل سلیم سے کام لینا چاہئے اور اپنے رویوں میں توازن پیدا کرنا چاہئے۔ دھونس دھمکی اور تشدد کے طور طریقوں سے اجتناب نہ برتا گیاتو قوموں کی برادری میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ اقتصادی بدحالی کے اس مرحلے میں ملک سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔