مسجد پر تصدُّق کیے گئے مکان کا شرعی حکم

March 24, 2023

تفہیم المسائل

سوال:عبدالغنی نے اپنی زندگی میں اپنا مکان جامع مسجد ربانی کو وقف کیا کہ ہمارے مرنے کے بعد مکان کو فروخت کرکے مسجد کی تعمیر میں صرف کردیا جائے، عبدالغنی اور ان کی اہلیہ فوت ہوچکے ہیں، اولاد نہیں اور اُن کا کوئی وارث بھی نہیں ہے، مکان مسجد انتظامیہ کے قبضہ میں ہے اور ایک عرصہ تک اس مکان کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات پورے کیے جاتے رہے، اب ضرورت ہے کہ مسجد کی توسیع کے لیے اس مکان کو فروخت کرکے مسجد کے ساتھ والا مکان خریدا جائے، کیا شرعاً اس کی گنجائش ہے ؟(انتظامیہ جامع مسجد ربّانی ، کراچی)

جواب: صورتِ مسئولہ میں منسلکہ وصیت کے مطابق مذکورہ مکان مسجد پر تَصدُّق کیا گیا ہے کہ اُسے فروخت کرکے مسجد کی تعمیر پر صرف کیا جائے، علامہ امجدعلی اعظمی سے سوال کیا گیا : ’’کیا وقف شدہ جائیداد جوکہ کسی بھی مسجد میں واسطے ایصالِ ثواب کے واقف نے وقف کی ہو ، بِک سکتی ہے یا نہیں اور کسی بھی متولی کو کبھی اس اوقاف کے بیچنے یا بیع کرنے کا حق ہے یا نہیں ؟جبکہ واقف نے اوقاف کو اس طرح وقف کیا ہو کہ اگر متولّیٔ مسجد اس بات کی ضرورت محسوس کرے کہ یہ جائیداد بیچ کر اِصرافِ مسجد میں لائے، تو متولی مسجد کو اختیار ہے کہ بیچ دے، اس حالت کا کیا حکم ہے ؟‘‘۔

آپ نے جواب میں لکھا :’’جائیداد موقوفہ کی بیع نہیں ہوسکتی البتہ جائیداد موقوفہ کو دوسری جائیداد سے بدل سکتے ہیں جبکہ واقف نے وقف میں استبدال کی شرط ذکرکردی ہو ،مزید لکھتے ہیں:’’واقف نے اگر ان لفظوں سے وقف کیا ہے تو اس سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود اسی جائیداد کی قیمت مسجد پر صرف کی جائے نہ یہ کہ اس کی آمدنی صرف ہو اور چیز باقی رہے اور یہ مسجد کے نام ہبہ یا تصدق ہوگا کہ متولی کے قبضہ کرلینے پر تمام ہوگا، فتاویٰ قاضی خان میں ہے: ترجمہ:’’ ایک شخص نے اپنا گھر مسجد پریا مسلمانوں کے راستے کے لیے صدقہ کیا ،علماء نے اس میں کلام کیا ہے (یعنی علماء کی آراء مختلف ہیں) اور فتویٰ اس پر ہے کہ اسے مسجد (کی ضروریات پر صرف کرنا) جائز ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : اگر اس نے کہا: میں نے اپنا گھر مسجد کو ہبہ کردیا یا دے دیا ،تو ہبہ صحیح ہے ،تو وہ سپرد گی کی شرط کے ساتھ مالک بنانا ہوگا ۔تو اگر اس صورت میں داخل کرکے اسے بجائے وقف ہبہ تصور کیاجائے تو اب یہ مسجد کی ایک چیز ہوگی ۔واہب کی شرط وغیرہ کا اعتبار نہ ہوگا، بلکہ حقیقۃً اگر مسجد کو ضرورت ہے تو متولی دیگر مسلمانوں سے رائے لے کر مسجد پر صرف کرلے، اپنے آپ بغیر مشورہ مسجد کی اشیاء کو نہیں بیچنا چاہیے، مسجد کی چیزیں فروخت کرنے کے لیے اذنِ قاضی کی ضرورت ہے ،مگر چونکہ یہاں قاضی موجود نہیں اہل ُالرائے اور سمجھدار اور قابل اطمینا ن مُتَدیّن مسلمانوں سے رائے لے کر ایسا کرنا ،امید ہے کہ کافی ہو اور اس کے مواخذہ سے بچ جائے ،(فتاویٰ امجدیہ ،جلد سوم ، ص: 28-30)‘‘۔

اگر مذکورہ مکان اس صراحت کے ساتھ مسجد کوتَصَدُّق یا ہبہ کیا ہو کہ مسجد کے لیے جس طرح چاہیں صرف کریں،ضرورت ہو تو فروخت بھی کردیںتو اسے فروخت بھی کیاجاسکتا ہے، لیکن اگر مطلقاً مسجد کے لیے وقف کیا ہو تو بیع نہیں کی جاسکتی۔ جیساکہ آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ اُس شخص نے مطلقاً مکان فروخت کرکے مسجدکی تعمیر پر صرف کرنے کی وصیت کی تھی، تو یہ مکان مسجد پر تَصَدُّق یا ہبہ کہلائے گا اور مسجد کی انتظامی کمیٹی کی منظوری سے اسے فروخت کرکے اِس کی رقم مسجد پر صرف کی جاسکتی ہے۔