چاند کا دھوکہ اور 23 مارچ

March 26, 2023

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
جیسے ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اسی طرح آسمان پر چمکتے تمام کے تمام اجرام فلکی بھی اصلی نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی بادل ان سب کو اپنی اوٹ میں لیکر خود سے کوئی نہ کوئی تصویر بنا ڈالتا ہے۔ ایک خبر تھی کہ ’’دھوکہ نہ کھائیں، چاند کی طرح نظر آنے والی ہر چیز چاند نہیں ہوتی‘‘۔ یہ خبر تو کافی پرانی ہے کہ چاند کی طرح نظر آنے والے ایک بادل کے ٹکڑے کو دیکھ کر لوگ بالکل اسے چاند سے تشبہہ دیکر خوشی سے دیدار کرنے لگے کچھ لوگ سمجھے کہ یہ اصلی چاند ہے، کچھ سمجھے کہ یہ دھوکہ ہے اور کچھ نے اسے احمقانہ تصویر قرار دیا کہ آجکل آسمان پر بادل لوگوں کی دلچسپی کیلئے کچھ نہ کچھ بناتے رہتے ہیں۔ اب ہوا یوںکہ22 مارچ کی شام سبھی پاکستانی عوام کی خواہش تھی چاند نکلے گا اور ہم رمضان کی دعائوںکیساتھ ساتھ 23 مارچ کے حوالے سے تجدید عہد کی دعا یعنی قرارداد پاکستان کی دعا بھی کریں گے تو بابرکت مہینے میں کی گئی دعا سے قرار آجائے گا مگرعوام کی خواہش کا احترام چاند نہ کرسکا اور وہ چھپا رہا کہیں بدلیوں کی اوٹ میں، بس 23 مارچ جو کہ ایک اگلے دن کی تاریخ تھی، ایک اگلے دن تھا جسے آنا تھا تو وہ آکے رہا جوکہ حقیقت تھی، تاریخ تھی۔ تاریخ پاکستان میں 23 مارچ ہماری قومی تاریخ کا عظیم دن ہے اور رہے گا۔ آپ تمام جانتے ہیں کہ اسی دن برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی منزل و وطن کا تعین کیا تھا، دن رات جدوجہد ہوئی تو آزادی نصیب ہوئی۔ اسی لئے آج کی تاریخ میں تمام پاکستانیوں کی خواہش تھی کہ23 مارچ بھی ہو جائے اوررمضان کا چاند بھی نظر آجائے تو محب وطن پاکستانی اسکی بقا سلامتی، ترقی اورامن و خوشحالی کیلئے مزید دعاگو ہو سکیں کہ قیامت تک یہ شادوآباد اورپائندہ باد رہے۔ اب دیکھئے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع بارہا آتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے دن ہوں اور رمضان المبارک کے مہینے ہوں تولوگوں کی خوشی دگنی ہو جاتی ہے۔ عوام کی امنگوں سے لیکر پاکستان بھر کیلئے امن و امان کی صورت حال سے متعلق دعائیں روزی، رزق، عمر، صحت، سلامتی اور عبادات کی قبولیت وغیرہ سے منسلک پاکیزہ خیالات ابھر ابھر کرآرہے تھے کہ چاند نے نہ نکلنے کی قسم کھا کر عوامی امنگوں پر پانی پھیردیا۔مگرپھر ہوا یہ کہ چاند کو ترس آیا اور رات 10 بجکر 15 منٹ پر نکل آیا۔ پھر تو عوامی جوش جو سوچکا تھا ، کچھ مسجد سے منسلک مولانا حضرات بھی سو چکے تھے، کچھ گہری نیند میں تھے، کچھ ملا خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور جو مسجد سے ملحقہ رہائش بھی رکھتے تھے تو انہیں لوگوں نے جگا کر مسجد کھلوائی تراویح کیلئے ، تو کچھ ملا حضرات کو بادل ناخواستہ جاگنا پڑا یہ کہتے ہوئے کہ ہم نے تو دس بجے رات تک چاند نہ دیکھا۔ کچھ منچلوں نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ آپ کو تو دین کیلئے اور ایسے موقعوں پر جاگتے رہناچاہئےکبھی بھی چانداپنا دیدار کرا سکتاہے۔ ہم نے پچھلی مرتبہ تراویح پڑھکر بھی عید کرلی تھی لیکن شکر ہےکہ اس مرتبہ کاروزہ بغیر تراویح کے ہوتے ہوتے رہ گیا اور یہ سب باشعور جاگنے والی قوم کی وجہ سے ممکن ہو سکا ورنہ کچھ دین کے ٹھیکیدار بھی دینی سیاسیت کی نظریاتی چپقلش کی نذر ہوجاتے ہیں پھر عوام کو سب بھگتناپڑتا ہے۔اب بتایئے چاند نے اپنادیدار نہایت ہی دیربعد اچانک ہی کرایا۔ ایسے جیسے اچھنبا ہو گیا تو مستانے کہنے لگے بس اسی طرح اچانک اے کاش ہماری شادیاں بھی ہوجائیں۔ کسی نےیہ بھی کہا کہ چاند سورج کو دیکھ کر رکھا گیا روزہ ہے۔ویسے تو ہم قرارداد پاکستان کا دن بھی ایسے کسی جوش و جذبے سے نہ منا سکےجیساکہ ہم نارمل دن میں مناتے ہیں کہ اس مملکت کو پانے کےبعد بھی ہمیں وثوق سے تجدید عہد کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیںتو وہاں پر یقین و بے یقینی کی کیفیت نےعوام کو گومگوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستانی حالات ایک الجھی ہوئی شب کا قصہ لگتے ہیں جہاں یہ مغالطہ رہتا ہے کہ شاید یہ اندھیرا کوئی آخری اندھیرا ہے کہچاند میر ی زمیں ۔ پھول میرا وطنرخسانہ رخشی ۔ لندنجیسے ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اسی طرح آسمان پر چمکتے تمام کے تمام اجرام فلکی بھی اصلی نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی بادل ان سب کو اپنی اوٹ میں لیکر خود سے کوئی نہ کوئی تصویر بنا ڈالتا ہے۔ ایک خبر تھی کہ ’’دھوکہ نہ کھائیں، چاند کی طرح نظر آنے والی ہر چیز چاند نہیں ہوتی‘‘۔ یہ خبر تو کافی پرانی ہے کہ چاند کی طرح نظر آنے والے ایک بادل کے ٹکڑے کو دیکھ کر لوگ بالکل اسے چاند سے تشبہہ دیکر خوشی سے دیدار کرنے لگے کچھ لوگ سمجھے کہ یہ اصلی چاند ہے، کچھ سمجھے کہ یہ دھوکہ ہے اور کچھ نے اسے احمقانہ تصویر قرار دیا کہ آجکل آسمان پر بادل لوگوں کی دلچسپی کیلئے کچھ نہ کچھ بناتے رہتے ہیں۔ اب ہوا یوںکہ22 مارچ کی شام سبھی پاکستانی عوام کی خواہش تھی چاند نکلے گا اور ہم رمضان کی دعائوںکیساتھ ساتھ 23 مارچ کے حوالے سے تجدید عہد کی دعا یعنی قرارداد پاکستان کی دعا بھی کریں گے تو بابرکت مہینے میں کی گئی دعا سے قرار آجائے گا مگرعوام کی خواہش کا احترام چاند نہ کرسکا اور وہ چھپا رہا کہیں بدلیوں کی اوٹ میں، بس 23 مارچ جو کہ ایک اگلے دن کی تاریخ تھی، ایک اگلے دن تھا جسے آنا تھا تو وہ آکے رہا جوکہ حقیقت تھی، تاریخ تھی۔ تاریخ پاکستان میں 23 مارچ ہماری قومی تاریخ کا عظیم دن ہے اور رہے گا۔ آپ تمام جانتے ہیں کہ اسی دن برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی منزل و وطن کا تعین کیا تھا، دن رات جدوجہد ہوئی تو آزادی نصیب ہوئی۔ اسی لئے آج کی تاریخ میں تمام پاکستانیوں کی خواہش تھی کہ23 مارچ بھی ہو جائے اوررمضان کا چاند بھی نظر آجائے تو محب وطن پاکستانی اسکی بقا سلامتی، ترقی اورامن و خوشحالی کیلئے مزید دعاگو ہو سکیں کہ قیامت تک یہ شادوآباد اورپائندہ باد رہے۔ اب دیکھئے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع بارہا آتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے دن ہوں اور رمضان المبارک کے مہینے ہوں تولوگوں کی خوشی دگنی ہو جاتی ہے۔ عوام کی امنگوں سے لیکر پاکستان بھر کیلئے امن و امان کی صورت حال سے متعلق دعائیں روزی، رزق، عمر، صحت، سلامتی اور عبادات کی قبولیت وغیرہ سے منسلک پاکیزہ خیالات ابھر ابھر کرآرہے تھے کہ چاند نے نہ نکلنے کی قسم کھا کر عوامی امنگوں پر پانی پھیردیا۔مگرپھر ہوا یہ کہ چاند کو ترس آیا اور رات 10 بجکر 15 منٹ پر نکل آیا۔ پھر تو عوامی جوش جو سوچکا تھا ، کچھ مسجد سے منسلک مولانا حضرات بھی سو چکے تھے، کچھ گہری نیند میں تھے، کچھ ملا خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور جو مسجد سے ملحقہ رہائش بھی رکھتے تھے تو انہیں لوگوں نے جگا کر مسجد کھلوائی تراویح کیلئے ، تو کچھ ملا حضرات کو بادل ناخواستہ جاگنا پڑا یہ کہتے ہوئے کہ ہم نے تو دس بجے رات تک چاند نہ دیکھا۔ کچھ منچلوں نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ آپ کو تو دین کیلئے اور ایسے موقعوں پر جاگتے رہناچاہئےکبھی بھی چانداپنا دیدار کرا سکتاہے۔ ہم نے پچھلی مرتبہ تراویح پڑھکر بھی عید کرلی تھی لیکن شکر ہےکہ اس مرتبہ کاروزہ بغیر تراویح کے ہوتے ہوتے رہ گیا اور یہ سب باشعور جاگنے والی قوم کی وجہ سے ممکن ہو سکا ورنہ کچھ دین کے ٹھیکیدار بھی دینی سیاسیت کی نظریاتی چپقلش کی نذر ہوجاتے ہیں پھر عوام کو سب بھگتناپڑتا ہے۔اب بتایئے چاند نے اپنادیدار نہایت ہی دیربعد اچانک ہی کرایا۔ ایسے جیسے اچھنبا ہو گیا تو مستانے کہنے لگے بس اسی طرح اچانک اے کاش ہماری شادیاں بھی ہوجائیں۔ کسی نےیہ بھی کہا کہ چاند سورج کو دیکھ کر رکھا گیا روزہ ہے۔ویسے تو ہم قرارداد پاکستان کا دن بھی ایسے کسی جوش و جذبے سے نہ منا سکےجیساکہ ہم نارمل دن میں مناتے ہیں کہ اس مملکت کو پانے کےبعد بھی ہمیں وثوق سے تجدید عہد کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیںتو وہاں پر یقین و بے یقینی کی کیفیت نےعوام کو گومگوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستانی حالات ایک الجھی ہوئی شب کا قصہ لگتے ہیں جہاں یہ مغالطہ رہتا ہے کہ شاید یہ اندھیرا کوئی آخری اندھیرا ہے کہچاند میر ی زمیں ۔ پھول میرا وطناب یہ بچوں کو صرف لوری بنا کر سنانا پڑتا ہےیا پھر تھپک تھپک کرسنائو توانہیںنیندآجائےاور وہ خواب میں رستہ ٹٹولتے ٹٹولتے ہوئے قائداعظم کے اصلی پاکستان پہنچ جائیں جہاں صبح کو پرندےباقاعدہ چہچہاتے ہوں، پھول کاغذ کے نہیں اصلی مہکیں، لوگ میٹھی نیند سوئیں مگر غافل نہ ہوں۔جب وہ جاگیں تو باقاعدہ صبح ہو۔ ایک روشن و آزادصبح! جہاںقرارداد پاکستان روشنی کی طرح اجاگر ہوتی رہے کسی بھی چاندکے دھوکے کی نذرنہ ہو ستارے ہوائوںسے نہ الجھ پائیں، گھروں کے منڈیروں پر چراغاں رہے، شہروں میں قندیلیںروشن رہیں، بستیوں میں چراغاں رہے۔ چاند بھی نکلتا رہے وقت بے وقت ہی سہی مگریقین کی چادر بے یقینی کی چادرمیں تبدیل نہ ہو۔یقین واستحکام کیساتھ 23مارچ بھی ہو اور رمضان کی برکت ورحمت بھی ہو۔وقت اچھا اچھاہی چلتا رہے۔ ٹھہر جانے کا مسئلہ نہ پیدا ہو،چاندبھی طلوع ہوتا رہے، میری دھرتی پر جسے چودھویں کا چاند کہیں نہ کہ چودھویں کا سورج،روشنی بھراچاند ابھرتا رہے، ابھرتارہے۔