سلام قولاً من رب رحیم

March 29, 2023

تحریر: ڈاکٹر نعمان بشیر برلاس ۔ لندن
سلام ’’قولا‘‘ من رب رحیم(58آیت سورہ 36 یٰس) پروفیسر مرزا محمد منور بستر مرگ پر وجد کے عالم میں بار بار یہ آیت پڑھ رہے تھے اور میں میو ہسپتال کے گورا وارڈ میں ان کے سرہانےکھڑا انہیں حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ان کی اس کیفیت کا عقدہ مجھ پر تمام سیاق وسباق کے جائزےاور آیت کےمطلب کو جاننے کے بعد کھلا۔ والد بزرگوار نے پچاس کی دہائی میں سول انجینئرنگ کا امتحان پاس کر کے محکمہ انہار میں نوکری کا آغاز کیا ۔ اگرچہ ابھی پاکستان کو معرض وجود میں آئے چند ہی سال گذرے تھے تاہم خالصتاً اسلامی ماحول میں پرورش پانے والا یہ نوجوان محکمہ کےماحول سے کچھ زیادہ خوش نہ تھا، میری دانست میں اس بیزاری میں کچھ بوریت اور اکیلے پن کا عنصر بھی شامل تھا کیونکہ یہ فیلڈ جاب تھی اور بطور انجینئر کام کی جگہ ٹھہرنا لازم تھا، ایسے میں دور دراز جگہوں میں اسٹاف کے زیادہ تر لوگ دفتر کے اوقات کار کے بعد تاش وغیرہ سے دل بہلاتے تھے جب کہ والد اس سےمکمل طور پر نابلد تھے، ان حالات میں مرزا محمد منور کاملنا کسی معجزے سے کم نہ تھاجو کے ان دنوں تحصیل دار کے طور پر اپنےفرائض انجام دے رہےتھے، مرزا منور نوکری تو کر رہےتھے مگر ان کا رجحان پڑھائی لکھائی کی طرف تھا، والد کو ان کی دوستی اتنی پسند آئی کہ دونوں کی رفاقت مرزا منور کی وفات تک قائم رہی ، اپنے شوق اور لگن کو آگے بڑھاتے ہوئے مرزا منور نے اردو میں ماسٹرز کیا اور محکمہ انہار چھوڑ کر درس و تدریس کا شعبہ اختیار کر لیا، اقبالیات سے انہیں خاص شغف تھا،اسی کام پر انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا ، والد بعد اذاں محکمہ انہار کے لاہور انار کلی میں واقع سیکریٹریٹ میں تعینات ہو گئے اور اپنی 25سالہ نوکری کا بیشتر حصہ یہی گزارا، ان کی طبیعت کے لحاظ سے یہ نوکری انتہائی مناسب تھی ایک طرف تو ہیرا پھیری سے چھٹکارا اور دوسری طرف لاہور میں قیام ،جہاں بچوں کی اچھے اسکولوں میں تعلیم کے بہترین مواقع تھے، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ لاہور اسلام پورہ میں دونوں کے گھر ہمیشہ پاس پاس رہے اس طرح ہمیں بھی مرزا منور کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا، مرزا منور نے ایک لمبا عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور میں خدمات سرانجام دیں ، آپ کے رفقاء اور دوستوں میں ابوالاثرحفیظ جالندھری، صوفی تبسم کے ناموں سے میں واقف ہوں ،گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو کے استاد ہونےکے سبب وہ کنگ ایڈورڈ کے فارغ التحصیل بہت سے نامی گرامی ڈاکٹرز کے بھی استاد رہےجیسےکہ ڈاکٹر ممتاز حسن ، مرزا صاحب اردو کے استادہونےکے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی پر بھی کمال دسترس رکتھےتھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد ان سے اقبالی فلسفہ اور قرآن کےنظریاتی اور فلفسفیانہ موضوعات پر گفتکو کیلئے اکثر ملتے رہتےتھے ۔ راقم نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے MBBS کرنے کے بعد چند سال ادھر ادھر دھکے کھانے کے بعد ریڈیالوجی میں اسپیشلائزیشن کافیصلہ کیا ، FCPS کا پہلا پارٹ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس شعبہ میں اساتذہ کی تعداد نہ ہونےکے برابر ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیالوجی کی شاخ تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور الٹراساوئڈ کا ہر طرف چرچا تھا، پتہ یہ چلا کہ پورے پنجاب میں صرف ایک سپروائزر ہیں ڈاکٹر پروفیسر نواز انجم، اور ان کے پاس پہلے ہی سٹوڈنٹس کی بڑی تعدادہے تاہم چند ماہ کی تگ و دو اور پروفیسر نواز انجم کی شفقت سے میں ان کے ڈپارٹمنٹ میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پروفیسرنواز انجم امريکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 70 کی دہائی کے اواخر میں پاکستان لوٹے اور پاکستان میں اس شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا آج نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں ان کے شاگرد یہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں، ایک نہایت قابل ڈاکٹر ہونےکے ساتھ ساتھ ڈاکٹر نواز انجم کی شخصیت کی ایک اور جہت بھی ہے کہ وہ صوفیانہ مزاج رکھتےہیں اوراس سلسلے میں اپنے شاگردوں کو کچھ نہ کچھ بتاتے رہتے ہیں ، یہ فیض اب بھی جاری ہے، بطور ڈاکٹر مجھے مرزا منور کے آخری ایام میں ان کی خدمت اور حاضری کا کئی بار موقع ملا، یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ میاں نواز شریف نے گورنمنٹ کالج میں ان کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے ان کا علاج نا صرف میو ہسپتال بلکہ اتفاق ہسپتال لاہور میں کرانے کا انتظام بھی کیا، وفات سے چند روز قبل میں مرزا منور سے ملنے گورا وارڈ میو ہسپتال گیا، واپسی کی اجازت لینے پر انہوں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے میں نے بولا ڈاکٹر نواز انجم سے ملنے جا رہاہوں اس پر وہ یکدم گویا ہوئےانہیں میرا سلام کہنا اور دعا کی درخواست کرنا، میں حیران ہوا کیونکہ میری معلومات کی حد تک دونوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہ تھا، بہر کیف میں نے حکم کے مطابق کیا اور ڈاکٹرنواز انجم نے نہایت خوشدلی سے سلام لیا جیسے وہ اس کے انتظار میں تھے اور بولے مرزا منور کو کہیں کہ ’’ سلام قولا من الرب الرحیم“ پڑھیں ۔ میں کچھ دن کے وقفے سے مرزا منور کے پاس حاضر ہوا تب تک ان کی حالت اور خراب ہو چکی تھی اور تقریباً نیم غشی کی کیفیت تھی پھر بھی میں نے ڈاکٹر منور کا پیغام دیا، اس حال میں بھی یہ سنتے ہی وہ جھوم جھوم کے اونچی آواز میں یہ آیت بار بارپڑھنے لگے، یہ جانتے ہوئےکہ مرزا منور عربی، اردو کے استاد ہیں ، میں نے محسوس کیا کہ اس میں کوئی خاص بات ہے، ہمارے ہاں ماں باپ اگرچہ ناظرہ قرآن پر تو خاصا زور دیتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنے بچوں کے لئےخصوصی اہتمام بھی کرتے ہیں مگرعربی کو بطور زبان سمجھنے کی روایت ناصرف مفقود ہے بلکہ اس کے لئے کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً قرآن کی کوئی بھی آیت ہمارے لئے انتہائی مقدس ہونےکے باوجود وہ تاثر قائم نہیں کرتی جو ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دے،ایساہی کچھ حال میرا بھی تھا، تاہم مرزا منور کی کیفیت دیکھتے ہوئےگھر پہنچتےہی میں نے آیت کا ترجمہ پڑھا تو کچھ سمجھ آئی، تاہم عمر بڑھنے پر اورقرآن فہمی میں کچھ اضافےسے میں نے یہ جانا کہ دراصل ایک صوفی مزاج کی طرف سے ایک استاد ، عالم کو پیغام تھا کہ اگر وقت قریب ہےتو اصل کامیابی کی صورت میں وہ جگہ ملے گی جہاں ’’تیرے رب کی طرف سے سلامتی ھے‘‘ یعنی خوشخبری ہی ہے ۔ دنیا میں لاکھ کامیابیوں کامرانیوں کے باوجود سب کچھ چھن جانے اور نقصان کادھڑکا لگا رہتاہے،حاصل کردہ سب کچھ قائم و سلامت رہےگا یا نہیں کچھ معلوم نہیں رہتا ،کمزور سےزیادہ طاقتور اس خوف میں مبتلا رہتا ہے جب کہ یہاں جنت کے حوالے سے بالکل برعکس بات کی جا رہی ہے، علماء حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ جنت کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں سلامتی،عافیت کی گارنٹی رب تعالی کی ذات مبارکہ کی طرف سے ہےاور اس سے بڑی گارنٹی ممکن نہیں لہٰذا کامیابی کی صورت میں ستے ای خیراں اور سلامتی ہی سلامتی ہے ۔’’ سلام" قولا” من رب رحیم سلام (سلامتی ) کہاجائے گا رب کی طرف سے جو رحیم ہے۔