’’رمضان کریم‘‘ انفاق فی سبیل اللہ کا مہینہ

March 31, 2023

پروفیسرخالد اقبال جیلانی

ایمان والوں کی ایک خوبی یا صفت قرآنِ کریم کے آغاز ہی میں اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا بتائی گئی ہے۔ انسان کا ایک تعلق اللہ کے ساتھ ہے اور ایک تعلق معاشرتی زندگی میں اس کے بندوں کے ساتھ۔ اللہ کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھنے اور مضبوط کرنے کے لئے نماز کا حکم آیا، جبکہ انسانوں سے تعلق کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لئے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا حکم دیا گیا۔ فی سبیل اللہ خرچ کو عبادت قرار دیا اور اسے اللہ نے اپنے قرب کا ذریعہ بنایا۔ قرآن کریم نے اس موضوع کو جابجا بیان فرمایا اور اس کی اہمیت و فضیلت کو متنوع انداز میں زیر بحث لایا ہے۔

کہیں اس عمل کی اہمیت واضح کرنے کے لئے بے حساب اجرو ثواب کا وعدہ کیا گیا، کہیں اس عمل کو اخلاص کے ساتھ کرنے کی شرط لگا دی گئی ، کہیں اس کے دیگر آداب کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کی راہ میں خلوص، وسعتِ قلب اور کھلے ہاتھ سے خرچ کرنے کا بڑا مقام و مرتبہ ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مرتبہ انفاق (اللہ کے راستے میں خرچ کرنے )کا حکم آیا ہے۔

انفاق کے لغوی معنی ہیں خرچ کرنا ،لیکن قرآن کی اصطلاح انفاق کا مفہوم میں ہے ،اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ یعنی رب العالمین کے نام پر انسانوں کی کفالت ، فلاح و بہبود، مادی و معنوی ترقی ، ضروریاتِ انسانی کی تکمیل کرنا، انسانوں کے جان و مال کے تحفظ و بقا اور نشوونما کے لئے مال خرچ کرناانفاق کہلاتا ہے۔قرآن کریم میں مسلمانوں کو انفاق کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جو کچھ (مال و متاع) ہم نے تمہیں بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس دن نہ خرید و فروخت ہوگی، اور نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی‘‘۔ (سورۃ البقرہ 254)دوسری جگہ ارشاد فرمایا ’’آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں، آپ فرما دیجئے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو گے اپنے والدین پر ، یتیموں پر ، مسکینوں پر ،مسافر پر خرچ کرو گے اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘ (سورۃالبقرہ)

انفاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے آغاز اور اس کی پہلی سورت کی تیسری ہی آیت میں نماز کے بعد جس عمل کا ذکر کیا وہ ’’انفاق ‘‘ ہی ہے۔ فرمایا ’’وہ ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے ہمارے راستے میں خرچ کرتے ہیں‘‘ ۔(سورۃالبقرہ3:) ایمان و عمل اور نیکی و تقویٰ کی تکمیل مومن کے اپنے پسندیدہ مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کئے بغیر ممکن ہی نہیں ، فرمایا ’’تم اس وقت تک حقیقی نیکی میں کمال حاصل نہیں کر سکتے، جب تک کہ اپنے پسندیدہ و محبوب مال کو اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو‘‘۔ (سورۂ آل ِ عمران: 92)

اللہ تعالیٰ نے ’’انفاق ‘‘ یعنی اپنے راستے میں خرچ کرنے، کتنا اور کیا کریں کچھ خرچ جیسے سوالوں کا جواب یہ کہہ کر، کیا اور کتنے کی بحث ہی ختم کر دی کہ ’’ یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اللہ کے راستے میں کیا خرچ کریں، آپ فرمادیں کہ جو کچھ بھی تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے وہ سب اللہ کے راستے میں خرچ کردو۔‘‘ (سورۃ البقرہ: 219)

قرآن کریم کی طرح احادیث کی کوئی کتاب بھی ایسی نہیں جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے ذکر سے خالی ہو۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ سے یہ فرمان مروی ہے کہ ’’بندوں پر کوئی صبح بھی ایسی نہیں آتی کہ جس میں دو فرشتے نہ اترتے ہوں، ایک فرشتہ یہ دعا کرتا ہے ،اے اللہ تو اپنی راہ میں مال خرچ کرنے والے کو اس کا نعم البدل عطا فرما، اور دوسرایہ دعا کرتا ہے، اے اللہ تو بخیل کو بربادی اور نقصان عطا فرما‘‘۔ (بخاری و مسلم)

ایک اور جگہ ترغیبِ انفاق کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اے آدم کے بیٹے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہو، اس کا خرچ کرنا تیرے لئے بہتر ہے اور اس کا روکنا تیرے لئے برا ہے۔ البتہ گزارے اور ضرورت کے بقد رکھنے پر تیرے لئے کوئی ملامت کی بات نہیں اور سب سے پہلے اُن پر خرچ کر جن کی تم پرذمہ داری ہے ‘‘۔ (صحیح مسلم)

اسلام میں انفاق کو پسند کیا گیا ہے اور بلا ضرورت مال کو جمع کرکے روکے رکھنا ناپسند کیا گیا ہے ۔ بخل و کنجوسی اور مال کی حرص و ہوس اور محبت سے جہاں دولت کا پھیلاؤ اور گردش رک جاتی ہے ،وہ دولت جس سے بہت سے ضرورت مند اپنی ضرورت پوری کر سکتے ہیں، وہ فردِ واحد کی تجوریوں میں بندرہ کر اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔ دوسرے انفاق سے آدمی کو روحانی و اخلاق ترقی اور دلی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اس کے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے ، مال و دولت کی محبت اور مادی فوائد کی ہوس اس کے دل سے نکلتی ہے۔ وہ زندگی کی اُن اعلیٰ اقدار سے روشناس ہوتا جن کا شعور و عرفان بخل اور حرص و ہوس کی حالت میں اسے ہر گز نہیں ہو سکتا ہے۔ انفاق کا انسان کے باطن کی اصلاح اور تہذہب نفس میں بڑا دخل اور اہم کردار ہے۔ اس حقیقت کو ہر وہ شخص تسلیم کرے گا جسے علمِ دین سے کچھ تھوڑا بہت شغف ہو اور مسائل دینی میں کچھ بھی غور و فکر سے کام لینے کا موقع ملا ہو۔

انسان کا دل اگر مال کی محبت سے پاک ہو جائے تو اسے نیکی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے یہ حقیقت اس طرح سمجھائی ہے ، ’’جس نے دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور نیک بات کی تصدیق کی اس کے لئے ہم جنت کی را ہیں آسان کر دیں گے اور جس نے بخیلی اختیار اور اللہ سے بے پروا رہا اور اچھے انجام کو جھٹلایا تو ہم اُسے تنگی کی راہ پر ڈال دیں گے۔ (سورۃ اللیل)

’’انفاق ‘‘ سے آدمی کے مال میں برکت ہوتی ہے ، یہ برکت آخرت میں جوظاہر ہوگی وہ تو ہوگی ہی، اس دنیا میں بھی اس شخص کے مال میں برکت ہوتی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے بے شمار بندے جو اس کے مال سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں، یہ دعائیں کرنے والے حاجت مند، غریب و مسکین ضرورت مند ہوتے ہیں جو اپنی حاجت مندی اور مسکینی کے باعث اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں انفاق کرنے والوں کے حق میں قبول فرمائے۔

انفاق کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ یہ آدمی کے دل کو اس طرح اللہ کے ساتھ جوڑ دیتا ہے کہ اس کے لئے اللہ سے غافل رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ آدمی کو مال سے جو محبت ہے ،اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو جس جگہ اپنا مال رکھتا ہے یا جس کام میں اپنا سرمایہ لگاتا ہے ،اسی جگہ یا اسی کام میں اس کا دل بھی اٹکا رہتا ہے۔

اگر وہ اپنا مال کسی بینک میں رکھتا ہے تو اس بینک کے ساتھ اس کا دل بندھ جاتا ہے ، اگرکسی کاروبار یا کسی کمپنی میں اپنا سرمایہ لگاتا ہے تو رات دن اسی کاروبار یا کمپنی کی فکر یں اس کے سر پر سوار رہتی ہیں۔ غرض آدمی جہاں سرمایہ کاری کرتا ہے مشاہدہ و تجربہ یہی بتاتا ہے کہ وہیں اُس کا دل بھی رہتا ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں دیکھئے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جو شخص اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے، اس کا دل بھی اللہ کے ساتھ ہی لگا رہے گا۔

روزوں کے ایام اور انفاق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انفاق ، زکوٰۃ صدقات خیرات کے لئے روزہ داری سے بہتر زمانہ کوئی اور نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ انفاق کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا جو عالم ہوا کرتا تھا، اس کے لئے روایات میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ ’’جب روزوں کا زمانہ آتا تو آپ ﷺ کے انفاق کادریا جوش میں ہوتا اور آپ کی سخاوت و کثرت کی زیادتی ’’تیز ہوا ‘‘کی ماند ہوتی۔‘‘ (بخاری و مسلم ، مشکوٰۃ) عام مہینوں یا دنوں کے مقابلے میں روزے کی حالت میں آپ ﷺ کی سخاوت کا تذکرہ جو بیان کیا گیا ہے ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزوں کے دنوں میں جو بھی سائل رسول اللہ ﷺ کے پاس آتا ،آپ ﷺ اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ آپ کا معمول تھا کہ عام دنوں کے مقابلے میں روزے کی حالت میں زیادہ سخاوت کا مظاہرہ کرتے تھے۔