برطانیہ میں 50 فیصد مسلمان نوجوانوں کو کام کی جگہوں پر ’’اسلاموفوبیا‘‘ کا سامنا

March 31, 2023

لندن (وجاہت علی خان) برطانیہ میں تقریباً 50 فیصد نوجوان مسلمانوں کو کام پر، دکانوں، ریستورانوں میں یا تعلیمی ماحول میں اسلامو فوبیا ( اسلام یا مسلمانوں کیخلاف نفرت یا تعصب ) کا سامنا ہے۔ یہ بات ایک آن لائن تنظیم ’’ہائیفن‘‘ کی جانب سے کئے گئے ایک سروے میں سامنے آئی ہے۔ سروے کے نتائج کو ’’انتہائی تشویشناک‘‘ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ نتائج اسی ہفتے سامنے آئے ہیں جب سکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم لیڈر حمزہ یوسف کو ووٹ دیا گیا۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے حمزہ یوسف نسلی اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے پہلے شخص ہیں جو ملک کے پہلے فرسٹ منسٹر بنے ہیں۔ ہائیفن کے ایڈیٹر برہان وزیر نے کہا کہ برطانیہ اور یورپ میں مسلمانوں کے بارے میں خبروں، ثقافت اور طرز زندگی میں مہارت رکھنے والی ایک آن لائن اشاعت کے سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ عوامی زندگی میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کیلئے آجروں اور ماہرین تعلیم کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، سروے میں برطانیہ میں 16سے24سال کی عمر کے 2073نوجوانوں ، تقریباً 49فیصد نے کہا کہ انہوں نے اسکول، یونیورسٹی یا کسی اور تعلیمی ماحول میں اسلامو فوبیا کا تجربہ کیا۔ 47فیصد نے سماجی ماحول میں ایسا کیا جب کہ 44فیصد کو ملازمت کی جگہوں پر یہ تجربہ ہوا۔ خواتین کے یہ کہنے کا زیادہ امکان تھا کہ انہوں نے مردوں (41فیصد) کے مقابلے سماجی ماحول (53فیصد) میں اسلامو فوبیا کا تجربہ کیا ہے۔ جب کہ تعلیمی ترتیب میں 45فیصد مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 53فیصد تھی جب کہ 87فیصد مسلمانوں نے کہا کہ انھیں لگتا ہے کہ انھیں مذہبی تقریب منانے کیلئے وقت ملنا چاہئے۔ برہان وزیر نے کہا کہ لاکھوں لوگ اپنے تہوار ایسے منائیں جیسے دوسرے لوگ کرسمس مناتے ہیں، انہوں نے کہا عید اس ملک میں 3.6 ملین مسلمانوں کیلئے جشن کا اہم دن ہے، کرسمس یا دیوالی کی طرح، یہ خاندانوں اور دوستوں کیلئے اکٹھے ہونے اور منانے کا ایک اہم وقت ہے، انہوں نے کہا یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تقریباً دو تہائی نوجوان غیر مسلم بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمارے رائے شماری کے اعداد و شمار بڑے پیمانے پر اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسلم اور غیر مسلم شاید پچھلی نسلوں سے زیادہ زندگی کے ایک جیسے تجربات اور عالمی خیالات کا اشتراک کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات کا بہت زیادہ ادراک بھی رکھتے ہیں۔