حکومت 2035 تک برطانوی عوام کو پورے یورپ میں سب سے سستی بجلی فراہم کرنا چاہتی ہے

April 02, 2023

لندن (پی اے) حکومت نے قابل تجدید انرجی اور ایٹمی بجلی کے منصوبوں پرسرمایہ کاری کے ذریعے آلودگی کا اخراج بالکل ختم کرنے اور انرجی کی قیمتیں کم کرنے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس کا نام Powering Up Britain رکھا گیا ہے، منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے وزرا نے کہا کہ حکومت 2035 تک برطانوی عوام کو پورے یورپ میں سب سے سستی بجلی فراہم کرنا چاہتی ہے۔ وزرا نے اس کے ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ اگلے سال تک بجلی کے نرخوں میں کمی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آلودگی کا اخراج ختم کرنے کے حکومت کے منصوبے میں کئی اقدامات شامل ہیں، اس کے ساتھ ہی حکومت نے کاربن جذب کرنے والے اپنی نوعیت کے پہلے سائیٹ کا بھی اعلان کیا۔ لیبر پارٹی نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ پرانا منصوبہ ہے اور اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں کی گئی ہے جبکہ ماہرین نے قابل تجدید انرجی پراجیکٹس پر توجہ مرکوز کرنے کے حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ بعض دوسروں نے اسے فراموش کردہ موقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گھروں کی انسولیشن کیلئے فنڈنگ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا۔ حکومت کے اعلان کردہ Powering Up Britain منصوبے میں صاف انرجی، جس میں ہوا سے انرجی، شمسی توانائی اور ایٹمی بجلی شامل ہے، پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ وزیراعظم رشی سوناک نے کہا کہ اب جب پیوٹن کی پسند کے تحت دنیا میں انرجی کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے اور اسے بطور اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے، ہمارے گھروں کے بلز میں اضافہ ہوگیا ہے، اس صورت حال میں ہم اپنی انرجی کی سیکورٹی میں اضافہ کررہے ہیں تاکہ آگے چل کر ہم انرجی کی قیمتوں میں کمی کرسکیں۔ انرجی سے متعلق امور کے وزیر گرانٹ شیپس کا کہنا ہے کہ جو تجاویز گزشتہ شائع کی گئی ہیں، ان سے آگے چل کر انرجی کی قیمتیں کم کرنا ممکن ہوسکے گا۔ حکومت کی ایک ہزار صفحات پر مبنی ان تجاویز میں انرجی کی پیداوار اور حصول کے درجنوں اقدامات درج ہیں۔ ان اقدامات میں 300,000 انتہائی غریب گھرانوں کے مکانوں کی انسولیشن کرنا، سبز ہائیڈورجن پراجیکٹس کیلئے 240 ملین پونڈز کی فراہمی اور برطانیہ کی انرجی کے حصول کیلئے ایٹمی انڈسٹری کو سپورٹ فراہم کرنا شامل ہے۔ اس میں یہ بھی درج کیا گیا ہے کہ برطانیہ کلائمٹ ٹارگٹ کو کس طرح حاصل کرے گا۔ لیبر اور دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے تجویز کردہ اقدامات پرانے اور ان کا پہلے بھی اعلان کیا جاچکا ہے۔ کلائمٹ کے شیڈو وزیر ایڈ ملی بینڈ نے کہا ہے کہ انتہائی زور شور اور طمطراق سے حکومت نے گرین ڈے کے نام سے جن منصوبوں کا اعلان کیا ہے، وہ تمام پرانے منصوبے ہیں اور حکومت نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔ گرانتھم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں کلائمٹ چینج سے متعلق امور کے پالیسی ڈائریکٹر باب وارڈ کا کہنا ہے کہ حکومت اب تک نکلنے والی آلودگی کیلئے صرف کاربن جذب اور جمع کرنے کی سہولت استعمال کررہی ہے لیکن اس کے بعد اب توانائی کے نئے ذخائر کو تیار کرنے کی کوئی منطق نہیں بنتی۔ کمپینرز کو اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ گھروں کی انسولیشن کیلئے مزید کوئی رقم نہیں رکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے انرجی کے بلز میں اضافہ ہوگا اور بلز میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ گھروں کی انسولیشن اضافی حدت میں کمی لانے کا انتہائی موثر ذریعہ ہے اور اس سے انرجی کے بل بھی کم ہوجاتے ہیں۔ کلائمٹ چینج کمیٹی نے گزشتہ سال کہا تھا کہ گھروں کی بہتر انسولیشن اور حکومت کی پالیسی کے درمیان واضح فرق موجود ہے، توقع کی جاتی ہے کہ حکومت اس حوالے جاری کی جانے والی تشویش کا مثبت جواب دے گی۔ کوئن میری یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ اور قابل تجدید انرجی کے لیکچرار ڈاکٹر پال Balcombeکا کہنا ہے کہ کاربن کم خارج کرنے والی انفراسٹرکچر پر رقم لگانے کے ساتھ ہی سب سے پائیدار طریقہ یہ ہے کہ انرجی کی ضرورت میں کمی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ 20 ملین سے زیادہ گھروں میں سے صرف 300,000 مکانوں کی انسولیشن ہدف حاصل کرنے کیلئے کافی نہیں ہیں، انرجی کمپنیوں کاکہنا ہے کہ حکومت کے اعلان کردہ منصوبے یا حکمت عملی میں نئی قابل تجدید انرجی کوپاور گرڈ سے ملانے کے کسی طریقہ کار کا ذکر نہیں ہے۔ آکٹوپس انرجی کے تھنک ٹینک کا کہنا ہے نئے قابل تجدید انرجی کے منصوبوں کیلئے پلاننگ کا عمل تیز کیا جانا خوش آئند ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایسی اصلاحات بھی کی جانی چاہئے تھیں، جن سےگرڈ سے کنکشن لینا زیادہ آسان، زیادہ تیز اور کم خرچ ہوسکتا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مانتی ہے کہ انرجی بلز میں کمی لانے کیلئے قابل تجدید توانائی میں اضافہ کرنا ہے لیکن اس کیلئے بجلی کو گیس کی قیمتوں سے الگ کردینا بھی ضروری ہے، فی الوقت برطانیہ کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے قدرتی گیس کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے اس کے جنریٹرز، جو سب سے زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں، بجلی کی قیمت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت اس مسئلے پر کیسے قابو پائے گی۔ تاہم اس حوالے سے جلد ہی مزید اعلاناتمتوقع ہیں۔