بدامنی کی آگ میں جلتا ہوا سندھ

April 30, 2023

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ ڈاکوؤں نے پولیس کی رٹ کو چیلنج کیا ہے، جب کہ پولیس نے یہ طے کیا ہے کہ آخری ڈاکو کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے ،تین ماہ میں تیس سےزائد ڈاکو مارے گئے ہیں، جب کہ افسران اورجوانوں نے شہادتیں حاصل کیں، زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جدید اسلحے کی خریداری کی اجازت نہیں ملی، تو پھر جاری آپریشن کے لیے رینجرز اور پاک فوج کی مدد لی جائے گی‎۔ کچےمیں جاری آپریشن کے حوالےسے مجھ پرکسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ میں نے اپنے پولیس کیریئرمیں دباؤ برداشت کیا ہے اور نہ کروں گا ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے نہ صرف کچے میں

ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا جارہاہے بلکہ پکے میں ان کے سہولتکاروں کے خلاف بھی کاروائی شروع کی جائے گی ان کا کہنا تھا کہ اگر جدید اسلحہ ملا تو ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں مزید تیزی آئے گی جدید اسلحے کی خریداری کے ساتھ ساتھ اسے چلانےکےلیے پولیس کے جوانوں کو تربیت دلانےکےحوالے سے بھی بات چیت چل رہی ہے،آئی جی سندھ نے یہ بھی دعوی کیا کہ کراچی میں دنیا کے دیگر بین الاقوامی شہروں تہران ،نیو دہلی،ڈھاکہ، کابل کے مقابلے میں کرائم ریشو کم ہے لیکن اب وہاں پر کوئی نو گو ایریا نہیں رہا ہے کراچی میں یومیہ 225 کے قریب کرائم کی وارداتیں ہوتی ہیں اس میں زیادہ کرائم موٹر سائیکل چوری کا ہے سندھ حکومت امن وامان قائم کرنے کے حوالے سے سندھ پولیس کی بھرپور سپورٹ کررہی ہے ان کا کہنا تھا کہ منشیات معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کرگئی ہے، اس میں جو پولیس افسران و اہلکار ملوث ہیں، ان کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔سندھ کے مختلف اضلاع میں دریائے سندھ کے کنارے واقع کچے کے علاقے میں ڈاکووں کے خلاف نبرد آزما پولیس جوانوں کے مورچوں کا معائنہ کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔‘‘

تاہم پولیس کی جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی اپنی جگہ، لیکن بدامنی کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے، قدم قدم پر رہزنی اور مزاحمت پر قتل و غارت گری عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ضلع شہید بینظیر آباد کا شہر نواب شاہ جہاں 4 کروڑ روپے کی لاگت سے سابق صدر اور حلقے سے منتخب ممبر قومی اسمبلی آصف علی زرداری نے اپنی جانب سے عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ میں دو سو سی سی ٹی وی کیمرا نصب کیے ہیں، اس سلسلے میں ممبر صوبائی اسمبلی حاجی علی حسن ذرداری نے جنگ کو بتایا کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے۔

تاہم چار کروڑ روپے کی لاگت سے لگائے گئے سیف سٹی پروجیکٹ سے بھی شہریوں کا تحفظ نہ ہو سکا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورے شہر میں جرائم پیشہ افراد کی حکم رانی ہے۔ گلی محلوں کے علاوہ شہر کے مصروف ترین تجارتی علاقوں میں ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد دندناتے پھر رہے ہیں۔

اسی طرح کا ایک روح فرسا واقعہ جس نے پورے شہر کو دہلا کر رکھ دیا، وہ یہ تھا کہ محمود آباد کالونی میں گھر کے باہر موبائل فون سے گیم کھیلنے والے 15 سالہ نوجوان رمضان لاشاری کو جو کہ سبزی منڈی میں مزدوری کرتا تھا، تین مسلح افراد نے موبائل فون حوالے کرنے کا حکم دیا اور انکار پر سینے میں گولی مار دی ، زخمی نوجوان کو فوری طور پر پیپلز میڈیکل اسپتال پہنچایا گیا، جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔

اس موقع پر مقتول نوجوان رمضان لاشاری کے والد نے روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ اس کے بیٹے نے مزدوری کرکے جمع ہونے والے پندرہ ہزار روپے سے موبائل فون خریدا تھا اور بڑے شوق سے اس کو استعمال کرتا تھا کہ اس کے پاس موبائل فون نہیں تھا اور وہ کہا کرتا تھا کہ میں مزدوری سے رقم کما کر موبائل فون خریدوں گا اور کئی ماہ کی جدوجہد اور انتھک محنت کے بعد اس نے یہ موبائل لیا تھا اور اس کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا۔ رمضان لاشاری کے والد کا کہنا تھا کہ ہمیں کیا پتا تھا کہ اس کا بیٹا اسی موبائل کو بچاتے زندگی کی بازی ہار جائے گا۔15 سالہ رمضان لاشاری کی موت نے پورے شہر کو سوگوار کر دیا۔ نماز جنازہ کے وقت ہر آنکھ اشکبار تھی، اس موقع پر علاقہ مکینوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور ٹائر نذر آتش کیے۔

وہ پولیس کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اس سے قبل رمضان لاشاری پر فائرنگ کی خبر کے بعد ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی نے اسپتال جاکر رمضان لاشاری کے والد سے ملاقات کی اور قاتلوں کی گرفتاری کا یقین دلایا۔ رمضان کے والد کا کہنا ہے کہ پولیس آتی ہے، پوچھ گچھ کر کے چلی جاتی ہے۔ میرے بیٹے کے قاتل اب تک قانون کی گرفت میں نہیں لائے جا سکے ہیں۔ ادھر مسجد روڈ پر زرعی ادویات کی ایجنسی پر چار مسلح افراد داخل ہوئے اور دُکان کے مالک تلسی داس سے ڈیڑھ لاکھ روپے اور وہاں پر موجود گاہکوں سے ہزاروں روپے لوٹ لیے اور فرار ہوگئے، جب کہ اے سیکشن کی حدود میں سپر اسٹورپر مسلح ملزمان نے مالک اورگاہکوں کو یرغمال بنا کر لوٹ مار کی اور ہزاروں روپے اور موبائل فون چھین کر فرار ہو گئے۔ دوسری جانب بی سیکشن تھانہ کی حدود میں سٹھ میل روڈ پر زرعی ادویات کی دوکان پر دو مسلح ڈاکو عبدالغی میمن کو یرغمال بنا کر دو لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہوگئے، جب کہ مزاحمت پرانہیں زخمی کردیا۔

دوسری جانب ڈی آئی جی محمد یونس چانڈیو کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مختلف تھانوں میں 54 مقدمات درج کیے گئے ، جب کہ پولیس مقابلوں میں دو ملزمان ہلاک اور بائس زخمی ہو ئے۔ رپورٹ کے مطابق گرفتار ملزمان کی تعداد اکتالیس، جب کہ ایک پولیس اہل کار شہید دو زخمی ہوئے ہیں۔ ڈی آئی جی کی رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قبضے سے 25 شارٹ گن تین رائفل 183پستول دو ہینڈ گرنیڈ برآمد کی گئی، جب کہ منشیات کی بازیابی کے لیے 480مقدمات درج کئے گئے ہیں۔

تاہم پولیس کی جانب سے کارکردگی رپورٹ اپنی، جگہ لیکن زمینی حقائق یہ ہے کہ عوام کی جان ومال محظوظ نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سر جوڑ کربیٹھیں اورعوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔