یورپ کا اقتصادی انجن ’جرمنی‘ معاشی دلدل میں پھنس گیا، امریکی میڈیا

May 28, 2023

کراچی (رفیق مانگٹ) امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کے مطابق جرمنی طویل، سست زوال کے خطرے سے دوچار ہے ،اس کے نتائج پورےیورپی یونین کے لیے ہوں گے۔جرمنی صنعتی اداروں کی توانائی پورا کرنے میں بے بس نظر آتا ہے،کئی عشروں سے یورپ کا اقتصادی انجن رہنے والا جرمنی جس نے خطے کئی بحرانوں سے نکالا اب اس کی سکت جواب دے رہی ہے۔عشروں کی ناقص توانائی پالیسی، کمبشن انجن والی کاروں کا خاتمہ اور نئی ٹیکنالوجیز پر سست تبدیلی بنیادی خطرہ ہے۔ نوے کے برعکس، سیاسی طبقے کے پاس مسائل سے نمٹنے کے لیے قیادت کا فقدان ہے۔برلن نے ماضی میں بحرانوں پر قابو پانے کے لیے مہارت دکھائی ہے، لیکن اب پائیدار حکمت عملی کا امکان نہیں۔ حکومتی اتحاد قرض اور اخراجات سے لے کرمعمولی جھگڑوں میں الجھے ہیں۔معیشت اکتوبر سے سکڑ رہی ہے اور گزشتہ پانچ سہ ماہیوں میں صرف دو بار پھیلی ہے۔ جرمنی کی معاشی نمو آئندہ برسوں میں خطے کے ملکوں سے پیچھے رہ جائے گی، آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ جرمنی اس سال بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جی سیون معیشت ہو گی۔امریکا، کینیڈا ،جاپان، اٹلی ،فرانس، برطانیہ اور جرمنی پر مشتمل جی سیون میں جرمنی کا بدترین آؤٹ لک ہے۔ انڈسٹریل بوسیدہ بنیادوں پر ہے جس کی وجہ سے توانائی کی ضرورت پورا کرنا مشکل ہے ،ملکی مسائل کو حل کرنے کےلئےسیاسی اور تجارتی فہم کا فقدان ہے۔ جرمنی کی توانائی کی قیمتیں صنعتی ہم عصروں سے زیادہ ہیں۔ جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے اور کوئلے کے خاتمے کے اصرار کے بعد، ملک نے گزشتہ سال تقریباً 10 گیگا واٹ ہوا اور شمسی صلاحیتیں نصب کیں۔ انتظامیہ کا مقصد تقریباً 625 ملین سولر پینل لگانا ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ اتنی صاف توانائی کے وسائل جرمنی میں چھوٹی ساحلی پٹی اور سورج کی کمی کی وجہ سے محدود ہیں۔ اس کےلئے ہائیڈروجن درآمد کرنے کے وسیع انفراسٹرکچر کی کوشش کر رہا ہے -2025 میں اگلے قومی انتخابات کے بعد، دیگر سیاسی رہنما توانائی کی منتقلی کو دوبارہ روک سکتے ہیں۔جو کہ اچھا نہیں ہوگا۔ جرمنی تحقیق اور ترقی پر صرف امریکہ، چین اور جاپان کے بعد دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ورلڈ پیٹنٹ آفس کے اعداد و شمار کے مطابق، یورپ میں دائر کردہ پیٹنٹ کا ایک تہائی حصہ جرمنی سے آتا ہے۔جرمنی میں نئے اسٹارٹ اپس کی تعداد میں کمی آ رہی ہے -جرمنی کا تعلیمی نظام مضبوط تھا لیکن ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی تازہ ترین درجہ بندی کے ٹاپ 25 میں اس کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔جرمنی کی سب سے آگے رہنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ آٹو سیکٹر میں جرمنی کی تکنیکی برتری زیادہ واضح نہیں۔جرمنی کی زیادہ تر دولت اور سماجی نظم ایک متحرک مینوفیکچرنگ سیکٹر پر منحصر ہے جو اچھی تنخواہ کی نوکریاں فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس طاقت نے آرڈرز اور خام مال کے لیے غیر ملکی منڈیوں پر خطرناک انحصار پیدا کیا ہے - جرمنوں کا زیادہ تر پیسہ تقریباً 360 پبلک سیکٹر سیونگ بینکوں کے نیٹ ورک کے پاس ہے، جسے سپارکاسن کہا جاتا ہے۔ یہ ادارے مقامی کمیونٹیز کے زیر کنٹرول ہیں، مفادات کے ممکنہ تصادم کو جنم دیتے ہیں اور ملک کے مالیاتی ںظام کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ جرمنی کے دو سب سے بڑے لسٹڈ بینک ڈوئچے بینک اور کمرز بینک برسوں سے تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں، ان کا مشترکہ مارکیٹ کیپٹلائزیش جے پی مورگن کے دسویں حصے سے بھی کم ہے۔جرمنی کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ غیر متوازن تجارتی پارٹنر چین ہے۔چین کے ساتھ ملک کا تجارتی خسارہ 2022 میں 84 عشاریہ9 ارب یورو تھا۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں جرمنی کی سرمایہ کاری کی کمی نے فکسڈ لائن انٹرنیٹ کی رفتار کے لیے اسے دنیا میں 51 ویں نمبر پر رکھا تھا،سالوں کی کم سرمایہ کاری نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔برلن کو زیادہ خرچ اوراپنے مسائل کو ایک طویل المدتی پروگرام کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے،جرمنی کا سیاسی منظر نامہ بکھر گیا ہے۔ ووٹر تقسیم ہو گئے ہیں جہاں کبھی دو پارٹیوں کا غلبہ تھا۔ موجودہ حکومتی اتحاد کے اراکین میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ تقسیم کے خطرات میں شدت آتی جا رہی ہے، آرام دہ پنشنرز کو اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند نوجوانوں کے خلاف کھڑا کردیا ہے ،اس کشیدگی نے مظاہروں کو جنم دیا ہے ۔